Difference between In Sha Allah and Insha

آج ہم دیکھیں گے کے لفظ ”انشاء اللہ” اور ”ان شاءاللہ” میں کیا فرق ہے اور ان میں سے کونسا لفظ درست ہے اور آج کے بعد ہم درست لفظ کا ہی استعمال کریں گے۔
لفظ “انشاء” جسکا مطلب ہے “تخلیق کیا گیا” لیکن اگر “انشاءاللہ” کا مطلب دیکھا جائے تو “اللہ تخلیق کیا گیا” ( نعوذبا اللہ)
تو اس بات سے صاف ظاہر ہے کہ لفظ “انشاء” کو لفظ “اللہ کے ساتھ لکھنا بالکل غلط ہے اور کفر کا باعث بھی ہے ۔۔ اسکے لئے قرآن کی کچھ آیات ہیں جن میں لفظ “انشاء” اکیلا استعمال ہوا ہے ۔۔
1. وَهوَ الَّذِی أَنْشَأَ لَکُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَۃَ قَلِیلًا مَا تَشْکُرُونَ – (المومن), 78
2. قُلْ سِیرُوا فِی الْأَرْضِ فَانْظُرُوا کَیْفَ بَدَأَ الْخَلْقَ ثُمَّ اللَّه یُنْشِئُ النَّشْأَۃَ الْآَخِرَۃَ إِنَّ اللَّہَ عَلَی کُلِّ شَیْء ٍ قَدِیر, ـ (العنکبوت) 20
3. إِنَّا أَنْشَأْنَاهنَّ إِنْشَاء ً – (الواقعہ) , 35
ان آیات سے صاف ظاہر ہے کہ “انشاء” کے ساتھ کہیں “اللہ” نہیں لکھا گیا کیونکہ یہ لفظ الگ معنی رکھتا ہے۔۔
لفظ “ان شاءاللہ” جسکا مطلب ہے” اگر اللہ نے چاہا”
“ان” کا معنی ہے “اگر”
“شاء” کا معنی ہے “چاہا”
“اللہ” کا مطلب “اللہ نے”
تو لفظ “ان شاءاللہ” ہی درست ہے جیساکہ کچھ آیات میں بھی واضح ہے ۔۔
1. وَإِنَّا إِنْ شَاء َ اللَّه لَمُہْتَدُونَ – (البقرہ) 70
2. وَقَالَ ادْخُلُوا مِصْرَ إِنْ شَاء َ اللَّه آَمِنِینَ –(یوسف) 99
3. قَالَ سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّه صَابِرًا وَلَا أَعْصِی لَکَ أَمْرًا – (الکہف) 69
4. سَتَجِدُنِی إِنْ شَاء َ اللَّه مِنَ الصَّالِحِینَ – (القصاص) 27
ان آیات سے ثابت ہے کہ لفظ “ان شاءاللہ” کا مطلب ہے “اگر اللہ نے چاہا” تو ایسے لکھنا پالکل درست ہے ۔۔۔۔ اسکی مزید وضاحت کے لئے کچھ احادیث بھی ہیں جن سے ثابت ہے کہ نبی پاک ﷺ اور صحابہ اکرام بھی “ان شاءاللہ” لکھتے آئے ہیں۔۔
1. فَقَالَ لَه رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ سَأَفْعَلُ إِنْ شَاء َ اللہ (صحیح بخاری) #407
2. لِکُلِّ نَبِیٍّ دَعْوَۃٌ یَدْعُوہَا فَأَنَا أُرِیدُ إِنْ شَاء َ اللَّه أَنْ أَخْتَبِئَ دَعْوَتِی شَفَاعَۃً لِأُمَّتِی یَوْمَ الْقِیَامَۃِ – (صحیح مسلم) #295
3. إِنَّہَا لَرُؤْیَا حَقٌّ إِنْ شَاء َ اللَّه – (سنن ابی داؤد) #421
4. أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صَلَّی اللَّه عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مَنْ حَلَفَ عَلَی یَمِینٍ فَقَالَ إِنْ شَاء َ اللَّه فَلَا حِنْثَ عَلَیْہِ – (ترمذی) #1451
عرب ممالک میں یہ لفظ درست لکھا جاتا ہے لیکن عجم ممالک میں جہاں عربی نہیں بولی جاتی جن میں پاکستان،، انڈیا اور بنگلہ دیش وغیرہ ان ممالک کے مسلمان لوگ کم علمی میں “انشاءاللہ” لکھتے ہیں جوکہ مکمل طور پر غلط ہے ۔۔ اور اکثر ہم مشرقی مسلمان اپنے مسجز اور چیٹ میں “انشاءاللہ” لکھ دیتے ہیں ۔۔تو اوپر کی ساری وضاحت سے ثابت ہوا کہ “ان شاءاللہ” صحیح لفظ ہے ۔۔ آئندہ ایسے ہی لکھئے اور اللہ ہم سب کی انجانے میں کی گئی اس غلطی کو معاف فرمائے “بےشک اللہ ہی بخشش فرمانے والا ہے”
اگر مجھ سے کوئی غلطی یا کوتاہی ہوئی اس تحریر کولکھتے اللہ مجھے معاف فرمائے ۔

Insan ka iss dunya may anay ka kia maqsad hai?

زندگی کیسے گزاری جاے

انسان کا اس دنیا میں بھیجے جانابلاکسی مقصد کے نہیں ہے، کائنات کی ہر شے کسی نہ کسی مقصد کے تحت وجود میں آئی ، اللہ تعالی نے کسی شے کو فضول پیدا نہیں کیا ۔انسان کو اللہ تعالی نے کیوں پیدا کیا ؟ انسان اور جانور میں کیا فرق ہے؟ ہمارامقصد زندگی کیا ہونا چاہیے ؟انسان اشرف المخلوقات کیوں ہے ؟ انسان اور جانور میں کیا فرق ہے ؟ اس بات پر ذراسوچیں پیدا تو جانور بھی ہوتے ہیں اسی پروسس کے تحت جس کے ذریعے ہم انسان،اسی طرح ہم کو بھوک لگتی ہے تو جانوروں کو بھی بھوک لگتی ہے ،بھوک مٹانے کے لیے ہم جہدوجہد کرتے ہیں تو جانور بھی کرتے ہیں ،سردی گرمی کا احساس ہم کو ہوتا ہے تو جانوروں کو بھی ہوتا ہے ہماری طرح وہ بھی اس سے بچنے کے لیے اپنے حساب سے مکان بناتے ہیں ۔پرندے ہوا میں اڑتے ہیں ،بعض جانور رات کی تاریکی میں ہم انسانوں سے زیادہ دیکھ سکتے ہیں ۔
ان سب باتوں کو اور اس جیسی اور باتوں کو دیکھیں پھر سوچیں آخر ہم اشرف المخلوقات کیوں ہیں ،ہم اور جانوروں میں جنس،بھوک،تحفظ وغیرہ مشترک ہے تو ان سے ہم اعلی کیسے ہیں ۔زندگی کا مقصد یہ نہیں ہے کہ انسان کھائے، پیئے ،سوئے اور بس یہ ہمارا مقصد حیات نہیں ہے انسان اور جانور میں سوچ کا فرق ہے اسی سوچ سے ہی ہم اشرف المخلوقات ہیں یہ دنیا عارضی ہے ،قرآن میں اس کو کھیل تماشہ کہا گیا ہے ،یہ دل لگانے کی جگہ نہیں ہے ،اس میں جتنے آئے کو ئی مستقل طور پر رہا نہیں سب نے موت کا ذائقہ لازمی چکھا ہے ۔اس لیے ہم کو اپنا مقصد حیات کا لازمی پتہ ہونا چاہیے ۔اور اس کا بھی کہ کامیابی اور ناکامی کیا ہے ،اگر ہم نے اس زندگی میں مکان و محل بنا لیے ،نام بنا لیا تو کیا ہم کامیاب ہو گئے ۔ہم کو سوچنا چاہیے ہم مر کر کہاں جاتے ہیں وہاں کی زندگی کیسی ہے ۔
یہ زندگی جو ہے عارضی ہے اور آخرت کی زندگی ہمیشہ کی ہے اس میں ہمیشہ رہنا ہے اس زندگی میں ہم نے جیسا وقت گزارہ آخرت کی کامیابی اور ناکامی کا انحصار اس پر ہے دنیا امتحان گاہ ہے آخرت میں اس کا حساب ہونا ہے کہ ہم نے زندگی کیسے گزاری اس کا نتیجہ وہاں ملے گا دنیا کی بے شمار نعمتوں میں سے ایک نعمت ہماری زندگی ہے۔
یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے دی ہوئی بہت بڑی نعمت ہے ،لیکن یہ زندگی عارضی ہے، انسان کو ایک نہ ایک دن آخری منزل پر پہنچنا ہے اور جس نے بھی اپنی زندگی کی یہ چند گھڑیاں اچھے کاموں میں گزاری تو سمجھ لیجئے اس نے دنیا میں آنے کا اپنا مقصد حاصل کر لیا،جس نے اس زندگی کو اللہ سبحان و تعالی کی بندگی میں گزارااس کو آخرت میں انعام میں جنت ملے گی اور یہی اصل کامیابی ہے ۔
اس کامیابی کو حاصل کرنے کے لیے اللہ نے دو حقوق بندوں پر فرض کیے ہیں، حقوق اللہ اور حقوق العباد اس لیے ہم کو اللہ کی عبادات کے ساتھ ساتھ حقوق العباد بھی پورے کرنے چاہیے ۔اللہ اپنی رحمت سے حقوق اللہ تو معاف کر دیے مگر حقوق العباد اللہ معاف نہیں فرمائیں گے ۔اس لیے اللہ کی عبادت نماز ،روزہ،حج ،زکوۃ کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت ملک کی بھلائی و ترقی زندگی کا نصب العین ہونا چاہئے ، اور زندگی کے نصب العین کا جلد تعین کر لیا جائے تو ٹھیک ہوتا ہے ورنہ انسان ساری عمر ادھر اُدھر بھٹکتا رہتا ہے بقول حسن نثار
ؔ ؔ ؔ عمر اس سوچ میں ساری جائے زندگی کیسے گزاری جائے
انسان کو اللہ تعالی نے اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ،اس لیے کہ انسان غور و فکر کر کے اللہ کی تلاش کرے ،انسان کی منزل اللہ تعالی کی خوشنودی ہونی چاہیے ۔ انسان کو اپنی منزل کا تعین کر کے اس کو حاصل کرنے کے لئے محنت اور کوشش کرنی چاہئے نتیجہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے تب ہی کامیابی حاصل ہوتی ہے، آپ اور ہم آج ہی سے اپنے مقصد اور نصب العین کو اپنا لیں۔ تاکہ زندگی کا مقصد پورا ہو اور آپ اور ہم ملک و قوم اور دیگر انسانوں کے کام آئیں دوسروں کی خدمت کر سکیں دکھ سکھ بانٹ سکیں ۔
بقول علامہ محمد اقبال ؔ پیدا کیا انسان کو درد دل کے واسطے ۔عبادات اور انسان کے نیک اعمال بھی اس کو زندہ رکھتے ہیں جیسے کوئی استاد بن کر علم سکھاتا ہے تو کوئی ڈاکٹر بن کر مخلوق خدا کی خدمت کرتا ہے، کوئی انجینئر بن کر ملک کی ترقی میں حصہ لیتا ہے اور کوئی راہبر بن کر منزل کا راستہ دکھاتا ہے، کوئی بھی انسان جس شعبے میں بھی قدم رکھتا ہے تو اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر اپنی زندگی کا مقصد پورا کرتا ہے، اس لیے ہم جس بھی شعبہ زندگی میں ہوں اپنے اپنے کام کو ایمانداری سے کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کے زیادہ سے زیادہ کام بھی آئیں ۔

Jab Azan Per Pabandi Laganay ki Koshish ki gai

جب اذان پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی

سکھوں کا دور حکومت تھا، ہندوؤں اور سکھوں نے اپنی سرکار کے پاس ایک عرضی بھیجی کہ مسلمانوں کی اذان سے ہم بڑے تنگ ہیں، خاص کرکے صبح دوپہر اور رات کے وقت وہ ہمارے آرام میں خلل پیدا کرتے ہیں۔
سکھ وزیر نے غیر جانبدار انکوائری کا فیصلہ کیا اور ایک دن وہ مندر جا پہنچا، وہاں جاکر اپنا تعارف کرایا اور پنڈت سے مندر کی گھنٹیاں بجانے کی فرمائش کی، پنڈت نے گھنٹیاں بجا دیں، دکھ وزیر نے بیس پچیس منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ گھنٹیاں بجانے کا کہا اور اسطرح تھوڑے تھوڑے ٹائم کے وقفے کے بعد اس نے گھنٹیاں بجوائیں اور پنڈت بجاتا رہا۔
اگلے دن سکھ نے گوردوارے کا دورہ کیا، اور وہاں بھی بار بار عبادت کیلئے استعمال ہونے والے مخصوص طریقہ کو چلوایا، سکھوں نے بھی وزیر کی خواہش کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے پورا کیا۔
تیسرے دن ظہر کے وقت سے دو گھنٹے پہلے سکھ وزیر ایک مسجد میں جا پہنچا اور وہاں اذان کی فرمائش کی لیکن مؤذن نے بہت کے انتظار کا کہا، ظہر کے بعد سکھ وزیر نے دوبارہ فرمائش کی لیکن اسے عصر تک انتظار کرنے کا کہا گیا، کیونکہ اسلام میں اذان ایک دن میں پانچ مرتبہ صرف مقررہ وقت پر دی جاسکتی ہے۔
اگلے دن سکھ وزیر نے درخواست دینے والے ہندوؤں اور سکھوں کو جمع کیا اور یہ کہہ کر انہیں واپس بھیج دیا کہ، “لوگوں کے آرام میں تو بے وقت گھنٹیاں وغیرہ بجا کر تم لوگ خلل دیتے ہو جبکہ مسلمان تو اپنے مقررہ وقت پر ایک پرکیف آواز میں منادی کرتے ہیں، اسلئے اذان کو بند نہیں کیا جائے گا۔

Bachon ki achi tarbiat

بچوں کی تربیت میں درج ذیل باتوں کا دہان رکھنا بہت ضروری ھے

1) بچے کے سامنے کسی کی غیبت مت کریں۔
2) والدین بچے کے سامنے اک دوسرے کی عزت کا خاص خیال رکھیں۔
3) بچوں میں جو اوصاف آپ پیدا کرنا چاہتے ہیں ، ان کو اپنے بچوں کے سامنے بار بار کریں ۔

Sabar ka Inaam

حکایت رومی سے ایک اقتباس

ﺍﯾﮏ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﻮ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺍﻭﻻﺩِ ﻧﺮﯾﻨﮧ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯﺗﺎ ﻣﮕﺮ ﭼﻨﺪ ﻣﺎﮦ ﺑﻌﺪ ﻭﮦ ﺑﭽﮧ ﻓﻮﺕ ﮨﻮ ﺟﺎﺗﺎ۔ ﻟﯿﮑﻦ ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﮨﺮ ﺑﺎﺭ ﺻﺒﺮ ﮐﺮﺗﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﯽ ﺣﮑﻤﺖ ﺳﮯ ﺭﺍﺿﯽ ﺭﮨﺘﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﻣﮕﺮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺻﺒﺮ ﮐﺎ ﺍﻣﺘﺤﺎﻥ ﻃﻮﯾﻞ ﮨﻮﺗﺎ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺍﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺍﯾﮏ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﯾﮏ ﺍُﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﮯ ﺑﯿﺲ ﺑﭽّﮯ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﺋﮯ۔ ﺁﺧﺮﯼ ﺑﭽّﮯ ﮐﮯ ﻓﻮﺕ ﮨﻮﻧﮯ ﭘﺮ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺻﺒﺮ ﮐﺎ ﺑﻨﺪﮬﻦ ﭨﻮﭦ ﮔﯿﺎ۔ ﻭﮦ ﺁﺩﮬﯽ ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺯﻧﺪﮦ ﻻﺵ ﮐﯽ ﻃﺮﺡ ﺍُﭨﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﮯ ﺧﺎﻟﻖِ ﺣﻘﯿﻘﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﺳﺮ ﺳﺠﺪﮮ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮫ ﮐﺮ ﺧﻮﺏ ﺭﻭﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺍﭘﻨﺎ ﻏﻢ ﺑﯿﺎﻥ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ” ﺍﮮ ﮐﻮﻥ ﻭ ﻣﮑﺎﮞ ﮐﮯ ﻣﺎﻟﮏ !. ﺗﯿﺮﯼ ﺍِﺱ ﮔﻨﺎﮨﮕﺎﺭ ﺑﻨﺪﯼ ﺳﮯ ﮐﯿﺎ ﺗﻘﺼﯿﺮ ﮨﻮﺋﯽ ﮐﮧ ﺳﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﻧﻮ ﻣﮩﯿﻨﮯ ﺧﻮﻥِ ﺟﮕﺮ ﺩﮮ ﮐﺮ ﺍِﺱ ﺑﭽّﮯ ﮐﯽ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﺍُﭨﮭﺎﺗﯽ ﮨﻮﮞ ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍُﻣﯿﺪ ﮐﺎ ﺩﺭﺧﺖ ﭘﮭﻞ ﻻﺗﺎ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺻﺮﻑ ﭼﻨﺪ ﻣﺎﮦ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺑﮩﺎﺭ ﺩﯾﮑﮭﻨﺎ ﻧﺼﯿﺐ ﮨﻮﺗﺎ ﮨﮯ۔ ﺁﺋﮯ ﺩﻥ ﻣﯿﺮﺍ ﺩﻝ ﻏﻢ ﮐﮯ ﺣﻮﻝ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﺭﮨﺘﺎ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﺮﺍ ﺑﭽّﮧ ﭘﺮﻭﺍﻥ ﭼﮍﮬﮯ ﮔﺎ ﺑﮭﯽ ﮐﮧ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﺍﮮ ﺩُﮐﮭﯽ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﮭﯿﺪ ﺟﺎﻧﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ !. ﻣﺠﮫ ﺑﮯﻧﻮﺍ ﭘﺮ ﺍﭘﻨﺎ ﻟﻄﻒ ﻭ ﮐﺮﻡ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﮮ۔ ” ﺭﻭﺗﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﺍُﺳﮯ ﺍﻭﻧﮕﮫ ﺁ ﮔﺌﯽ۔ ﺧﻮﺍﺏ ﻣﯿﮟ ﺍﯾﮏ ﺷﮕﻔﺘﮧ ﭘُﺮﺑﮩﺎﺭ ﺑﺎﻍ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺟﺲ ﻣﯿﮟ ﻭﮦ ﺳﯿﺮ ﮐﺮ ﺭﮨﯽ ﺗﮭﯽ ﮐﮧ ﺳﻮﻧﮯ ﭼﺎﻧﺪﯼ ﮐﯽ ﺍﯾﻨﭩﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﻨﺎ ﺍﯾﮏ ﻣﺤﻞ ﻧﻈﺮ ﺁﯾﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺍﻭﭘﺮ ﺍُﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ ﻟﮑﮭﺎ ﮨُﻮﺍ ﺗﮭﺎ۔ ﺑﺎﻏﺎﺕ ﺍﻭﺭ ﺗﺠﻠﯿﺎﺕ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﺮ ﻭﮦ ﻋﻮﺭﺕ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺑﯿﺨﻮﺩ ﮨﻮ ﮔﺌﯽ۔ ﻣﺤﻞ ﮐﮯ ﺍﻧﺪﺭ ﺟﺎ ﮐﺮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﻣﯿﮟ ﮨﺮ ﻃﺮﺡ ﮐﯽ ﻧﻌﻤﺖ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﯽ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﭽّﮯ ﺑﮭﯽ ﺍُﺳﯽ ﻣﺤﻞ ﻣﯿﮟ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ﺟﻮ ﺍُﺳﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﺩﯾﮑﮫ ﮐﮯ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺟﮭُﻮﻡ ﺍُﭨﮭﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﭘﮭﺮ ﺍُﺱ ﻋﻮﺭﺕ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻏﯿﺒﯽ ﺁﻭﺍﺯ ﺳُﻨﯽ ﮐﮧ ” ﺗُﻮ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽّﻮﮞ ﮐﮯ ﻣﺮﻧﮯ ﭘﺮ ﺟﻮ ﺻﺒﺮ ﮐﯿﺎ ﺗﮭﺎ , ﯾﮧ ﺳﺐ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺍﺟﺮ ﮨﮯ۔ ” ﺧﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺍِﺱ ﻟﮩﺮ ﺳﮯ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮫ ﮐﮭﻞ ﮔﺌﯽ۔ ﺟﺐ ﻭﮦ ﺧﻮﺍﺏ ﺳﮯ ﺑﯿﺪﺍﺭ ﮨﻮﺋﯽ ﺗﻮ ﺍُﺱ ﮐﺎ ﺳﺎﺭﺍ ﻣﻼﻝ ﺟﺎﺗﺎ ﺭﮨﺎ ﺍﻭﺭ ﺍُﺱ ﻧﮯ ﺑﮭﯿﮕﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ” ﯾﺎ ﺍﻟﮩٰﯽ ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﺗُﻮ ﺍِﺱ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻣﯿﺮﺍ ﺧُﻮﻥ ﺑﮩﺎ ﺩﮮ ﺗﻮ ﻣﯿﮟ ﺭﺍﺿﯽ ﮨﻮﮞ۔ ﺍﺏ ﺍﮔﺮ ﺗُﻮ ﺳﯿﻨﮑﮍﻭﮞ ﺳﺎﻝ ﺑﮭﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺍِﺳﯽ ﻃﺮﺡ ﺭﮐﮭﮯ ﺗﻮ ﻣﺠﮭﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻏﻢ ﻧﮩﯿﮟ۔ ﯾﮧ ﺍﻧﻌﺎﻣﺎﺕ ﺗﻮ ﻣﯿﺮﮮ ﺻﺒﺮ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﮨﯿﮟ۔ ”
ﺩﺭﺱِ ﺣﯿﺎﺕ : ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﮨﺮ ﺣﺎﻝ ﻣﯿﮟ ﺻﺒﺮ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ ﺗﮭﺎﻣﮯ ﺭﮐﮭﻨﺎ ﭼﺎﮨﯿﮯ ﮐﯿﻮﻧﮑﮧ ﯾﮩﯽ ﭼﯿﺰ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﮐﻮ ﺍﻟﻠّٰﮧ ﮐﮯ ﻗﺮﯾﺐ ﮐﺮﺗﯽ ﮨﮯ۔
ﺣﮑﺎﯾﺖ ﻧﻤﺒﺮ ,63 ﻣﺘﺮﺟﻢ ﮐﺘﺎﺏ ” ﺣﮑﺎﯾﺎﺕِ ﺭﻭﻣﯽ ” ﺍﺯ ﺣﻀﺮﺕ ﻣﻮﻻﻧﺎ ﺟﻼﻝ ﺍﻟﺪﯾﻦ ﺭﻭﻣﯽ ﺭﺡ

Hazrat Khuzaima Ki Gawahi

ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﯾﮏ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﮯ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﻃﮯ ﭘﺎﺋﯽ ﺍﻭﺭ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﺳﮯ ﯾﮧ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﯿﺎ ۔ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﯾﮧ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﻧﺒﯽ ﮐﺮﯾﻢ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭘﯿﭽﮭﮯ ﭼﻞ ﺩﯾﺎ ﺗﺎﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺳﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻭﺻﻮﻝ ﮐﺮﻟﮯ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺟﻠﺪﯼ ﺟﻠﺪﯼ ﭼﻞ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﺁﮨﺴﺘﮧ ﭼﻞ ﺭﮨﺎ ﺗﮭﺎ ۔ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﻣﯿﮟ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﺎ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺍﺱ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﺳﮯ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺧﺮﯾﺪ ﻟﯿﺎ ﮨﮯ ۔ ﭼﻨﺎﻧﭽﮧ ﻟﻮﮒ ﺍﺱ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﻗﯿﻤﺖ ﻟﮕﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﺳﮯ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺳﻠﺴﻠﮯ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺕ ﭼﯿﺖ ﺷﺮﻭ ﻉ ﮐﺮﺩﯼ ۔ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻗﯿﻤﺖ ﻟﮕﻨﮯ ﭘﺮ ﺍﺱ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﻧﮯ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺩﯼ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﮔﺮ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﺱ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﻮ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺗﻮ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻃﮯ ﮐﺮﻟﯿﮟ ، ﻭﺭﻧﮧ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﻮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﺩﻭﮞ ﮔﺎ۔ ﺣﻀﻮﺭ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ، ﮐﯿﺎ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﻣﻌﻠﻮﻡ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﮧ ﺗﻢ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﻣﺠﮭﮯ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﺩﯾﺎ ﮨﮯ۔ ﺍﺱ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻗﺴﻢ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﻮ ﯾﮧ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ۔ ﺍﻭﺭ ﺍﺱ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﻧﮯ ﺍﻧﮑﺎﺭ ﮐﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﮐﯿﺎ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮐﻮﺋﯽ ﮔﻮﺍﮦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﯾﮧ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﻮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﯿﺎ ﮨﮯ۔ ﺟﺐ ﯾﮧ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﮨﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺍﻭﺭ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﺍﻭﺭ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮧ ﺗﮭﺎ ﺍﺱ ﻟﯿﮯ ﮔﻮﺍﮦ ﮐﺎﺗﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﮨﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﮭﺎ

ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺟﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮔﺰﺭ ﺭﮨﮯ ﺗﮭﮯ ﻭﮨﺎﮞ ﭘﺮﻣﻮﺟﻮﺩ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺰﯾﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﺗﮭﮯ ﺟﺐ ﺍﻧﮭﻮﮞ ﻧﮯ ﺍﻋﺮﺍﺑﯽ ﮐﻮ ﯾﮧ ﭘﮑﺎﺭﺗﮯ ﺳﻨﺎ ۔ ﺗﻮ ﺁﭖ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ ﻋﻨﮩﮧ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﻣﯿﮟ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﻮﮞ ﮐﮧ ﯾﮧ ﮔﮭﻮﮌﺍ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺗﻢ ﺳﮯ ﺧﺮﯾﺪﺍﮨﮯ۔ ﻧﺒﯽ ﺍﮐﺮﻡ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻧﮯ ﺧﺰﯾﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﺳﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﺲ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﮮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ ؟ﺟﺐ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺩﺭﻣﯿﺎﻥ ﺍﺱ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﺧﺮﯾﺪﺍﺭﯼ ﮐﺎ ﻣﻌﺎﻣﻠﮧ ﻃﮯ ﭘﺎﯾﺎ ﺗﻢ ﻭﮨﺎﮞ ﻣﻮﺟﻮﺩ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﮯ۔ ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺰﯾﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﻧﮯ ﻋﺮﺽ ﮐﯿﺎ ” ﯾﺎ ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﻣﯿﺮﮮ ﻣﺎﮞ ﺑﺎﭖ ﺁﭖ ﭘﺮ ﻗﺮﺑﺎﻥ ﮨﻮﮞ ، ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺟﺐ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺑﺘﺎﺋﯽ ﮨﻮ ﺋﯽ، ﺁﺳﻤﺎﻧﯽ ﺧﺒﺮﻭﮞ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ، ﺁﺋﻨﺪﮦ ﮨﻮﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻭﺍﻗﻌﺎﺕ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﮐﺮﺗﺎ ﮨﻮﮞ ﺗﻮ ﮐﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺍﺱ ﮔﮭﻮﮌﮮ ﮐﯽ ﺧﺮﯾﺪ ﺍﺭﯼ ﻣﯿﮟ ﺁﭖ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﮐﯽ ﺗﺼﺪﯾﻖ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﺮﺳﮑﺘﺎ “ ۔

ﺣﻀﺮﺕ ﺧﺰﯾﻤﮧ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ ﮐﮯ ﺍﺱ ﺟﻮﺍﺏ ﭘﺮ ﺣﻀﻮﺭ ﺻﻠﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻠﯿﮧ ﻭﺳﻠﻢ ﺑﮯ ﺣﺪ ﺧﻮﺵ ﮨﻮﺋﮯ ﺍﻭﺭ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺍﮮ ﺧﺰﯾﻤﮧ ﺁﺝ ﺳﮯ ﺗﻢ ﺩﻭﮔﻮﺍﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﻗﺎﺋﻢ ﻣﻘﺎﻡ ﮨﻮ ( ﯾﻌﻨﯽ ﺗﻤﮩﺎﺭﯼ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﻭ ﮔﻮﺍﮨﻮﮞ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﮨﮯ ) ، ﺍﻭﺭﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ” ﺟﺲ ﮐﮯ ﺣﻖ ﻣﯿﮟ ﯾﺎ ﺟﺲ ﮐﮯ ﺧﻼﻑ ﺧﺰﯾﻤﮧ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ ، ﺍﻥ ﮐﯽ ﺗﻨﮩﺎ ﮔﻮﺍﮨﯽ ﮨﯽ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﮐﺎﻓﯽ ﮨﮯ

( ﻣﺎﺧﻮﺩ ۔ ﺍﺑﻮ ﺩﺍﺅﺩ ، ﻧﺴﺎﺋﯽ )

Achay Ikhlaq

“رسول اللہ” صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجس شخص نےایک سال تک اپنے بھائی کوناراض رہ کرچھوڑے رکھاتو وہ اسطرح هے جسطرح اس نے اس کاخون بهادیا-ابوداؤد

“حديث كامفهوم” رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا هر نیکی صدقہ هے اور نیکیوں میں سے ایک نیکی یہ بھی هے کہ تم اپنے مسلمان بھائی سے مسكراهٹ کے ساتھ ملاقات کرو! (مشكو

دنیا کے هر میدان میں هارجیت هوتی هے لیکن اخلاق میں کبھی هاراورتکبر میں کبھی جیت نهیں هوتی

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا;جوکسی مسلمان کوایسی جگہ ذلیل کرےجهاں اسکی عزت کی جاتی ھو تواللہ اس کوايسي جگہ ذلیل کر یگاجهاں اس کو اللہ کی مددکی ضرورت ھوگی. (ابوداؤد.)

Ghalat Fehmian Door karni Chahiyay

{چھوٹی مگر گہری بات}
جب ناخن بڑھ جاتے ہیں تو ناخن ہی کاٹے جاتے ہیں انگلیاں نہیں؟
¤اسی طرح¤
جب کسی رشتے میںغلط فہمیاں پیدا ہو جاتی ہیں تو غلط فہمیاں ختم کرنی چاہیے
¤رشتہ نہیں¤

Javed Ahmad Ghamdi Kay Akaid

جاوید احمد غامدی کے عقائد ۔۔
غامدی صاحب کی مختلف کتابوں میں جو نظریات موجود ہیں اس کی ایک مختصر فہرست میں قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں ، تاکہ غامدی کے غلط نظریات مسلمانوں کے سامنے آجائیں ان کے تمام غلط نظریات کا پیش کرنا تو بہت لمبا کام ہے لیکن چند اہم غلطیوں کی نشاندہی بطور نمونہ پیش خدمت ہے۔۔
نوٹ: تمام نکات کے حوالہ جات ساتھ درج ہیں، آخری سات نکات کے لنکس موجود ہیں، youtube وغیرہ پر مسئلہ لکھ کر غامدی صاحب کا نظریہ بآسانی دیکھا اور قران و سنت و سلف سالحین کے منہج پر پرکھا جا سکتا ہے۔۔
1- قرآن کی صرف ایک ہی قرات درست ہے، باقی سب قراتیں عجم کا فتنہ ہیں۔۔ میزان صفحہ 25، 26، 31، طبع دوم اپریل 2002
2- سنت قرآن سے مقدم ہے۔۔ میزان صفحہ 52 طبع دوم اپریل 2002
3- سنت صرف افعال کا نام ہے، اسکی ابتدا محمد صل اللہ علیہ وسلم سے نہیں بلکہ ابراہیم علیہ اسلام سے ہوئی تھی۔۔ میزان صفحہ 10 ، 65 طبع دوم اپریل 2002
4- سنت صرف ستائیس اعمال کا نام ہے۔۔ میزان صفحہ 10 طبع دوم اپریل 2002 ( کچھ عرصہ بعد غامدی نے کہا کہ سنت صرف اس اعمال کا نام ہے اور آج ان کی نظر میں سنت محض 13 اعمال کا نام ہے پچھلی تمام کو منسوخ کر چکے ہیں اور اس طرح بیش بہا سنت کی بہاریں اور صحیح احادیث کا بھی انکار کر چکے ہیں)
5- حدیث سے کوئی اسلامی عقیدہ یا عمل ثابت نہیں ہوتا۔۔ میزان صفحہ 46، طبع دوم اپریل 2002
6- دین کے مصادر و ماخذ قرآن کے علاوہ دین فطرت کے حقائق، سنت ابراہیمی اور قدیم صحائف ہیں۔۔ میزان صفحہ 48 طبع دوم اپریل 2002
7- دین میں معروف اور منکر کا تعین فطرت انسانی کرتا ہے۔۔ میزان صفحہ 49 طبع دوم اپریل 2002
8- نبی ص کی رحلت کے بعد کسی شخص کو کافر قرار نہیں دیا جا سکتا۔۔ ماہنامہ اشراق دسمبر 2002 صفحہ 54، 55
9- زکوۃ کا نصاب منصوص اور مقرر نہیں ہے۔۔ قانون عبادات صفحہ 119 طبع اپریل 2005
10- اسلام میں موت کی سزا صرف دو جرائم (قتل نفس اور فساد فی الأرض ) پر دی جا سکتی ہے۔۔ برہان صفحہ 143 طبع چہارم جون 2006
11- دیت کا قانون وقتی اور عارضی تھا۔۔ برہان صفحہ 18،19 طبع چہارم جون 2006
12- قتل خطأ میں دیت کی مقدار منصوص نہیں ہے اور یہ ہر زمانے میں تبدیل کی جاسکتی ہے۔۔ برہان صفحہ 18 ، 19 طبع چہارم جون 2006
13- عورت اور مرد کی دیت (blood money ) برابر ہوگی۔۔ برہان صفحہ 18 طبع چہارم جون 2006
14- مرتد کے لئے قتل کی سزا نہیں ہے۔۔ برہان صفحہ 140 طبع چہارم جون 2006
15- شادی شدہ اور کنوارے زانی دونوں کے لئے ایک ہی حد سو کوڑے کی ہے۔۔ میزان صفحہ 299، 300 طبع دوم اپریل 2002
16- شراب نوشی پر کوئی شرعی سزا نہیں۔۔ برہان صفحہ 138 طبع چہارم جون 2006
17- غیر مسلم بھی مسلم کے وارث ہو سکتے ہیں۔۔ میزان صفحہ 171 طبع دوم اپریل 2002
18- سور کی کھال اور چربی وغیرہ کی تجارت اور ان کا استعمال شریعت میں ممنوع نہیں ہے۔۔ ماہنامہ اشراق ، اکتوبر 1998 صفحہ 79
19- عورت کے لئے ڈوپٹہ یا اوڑھنی پہننا شرعی حکم نہیں۔۔ ماہنامہ اشراق مئی 2002 صفحہ 47
20- کھانے کی صرف چار چیزیں ہی حرام ہیں، خون ، مردار، سور کا گوشت اور غیر اللہ کے نام کا ذبیحہ۔۔میزان صفحہ 311 طبع دوم اپریل 2002
21- بعض انبیا قتل ہوئے مگر کوئی رسول کبھی قتل نہیں ہوا۔۔ میزان حصہ اول صفحہ 21 طبع 1985
22- عیسی علیہ اسلام وفات پا چکے ہیں۔۔ میزان حصہ اول صفحہ 22 ، 23، 24 طبع 1985
23- یاجوج ماجوج اور دجال سے مراد مغربی اقوام ہیں۔۔ ماہنامہ اشراق جنوری 1986
24- جانداروں کی مصوری کرنا بلکل جائز ہے۔۔ ادارہ المورد کی کتاب “تصویر کا مسئلہ ” صفحہ 30
25- موسیقی، ناچ اور گانا بجانا بھی جائز ہے۔۔ ماہنامہ اشراق مارچ 2004 صفحہ 8 اور 19
26- عورت مردوں کی امامت کرا سکتی ہے۔۔ ماہنامہ اشراق مئی 2005 صفحہ 35 تا 46
27- اسلام میں جہاد و قتال کا کوئی شرعی حکم نہیں۔۔ میزان صفحہ 264 طبع دوم اپریل 2002
28- کفار کے خلاف جہاد کرنے کا حکم اب باقی نہیں رہا اور مفتوح کافروں سے جزیہ لینا بھی جائز نہیں۔۔ میزان صفحہ 270 طبع دوم اپریل 2002
29- مسلم عورت غیر مسلم اہل کتاب مرد سے چاہے تو شادی کر سکتی ہے۔۔
30- زنا کے ثبوت کے لئے شریعت میں چار گواہوں کی ضرورت نہیں۔۔
31- سود دینا جائز ہے۔۔
32- عیسی علیہ السلام اور محمد بن عبداللہ (امام مہدی) وغیرہ نہیں آئیں گے۔۔
33-داڑھی عرب کلچر کا حصہ تھی اس سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں۔۔
34- ریاست کا کوئی مذہب نہیں ہوتا اور حکومت بنانے کا واحد شرعی طریقہ جمہوریت ہے۔۔
35- مرزا غلام احمد قادیانی ایک صوفی تھا اس نے کبھی نبوت کا دعوی نہیں کیا ، اسے کافر قرار دینا غلطی تھی۔۔
36- چار مخصوص کام کے علاوہ شریعت میں کوئی اور کام حرام نہیں۔۔
اس کے علاوہ بھی بہت سی باتیں منظر عام پر آ چکی ہیں جو اس فتنہ کو سمجھنے کے لئے کافی ہیں۔۔
آخری سات نکات کی سافٹ کاپی میرے پاس موجود نہیں پر ویڈیوز youtube پر موجود ہیں۔۔
اہل علم جانتے ہیں کہ مذکورہ بالا تمام عقائد قرآن و سنت کے خلاف ہیں اور ان سے دین اسلام کے مسلمات کی نفی ہوتی ہے جن پر عمل پیرا ہونا ایمان کے لئے بھی شدید خطرناک ہو سکتا ہے۔۔
عام لوگوں تک اس پیغام کو عام کریں اور مسلموں کو گمراہ ہونے سے اللہ کی رضا کے لئے بچائیں۔۔
جزاک اللہ ۔۔

phones are leading to hellfire

OUR PHONES …..
One of the hardest tasks in this 21st century is for the youths to spend 30 mins without “touching” their phones!
Almost everyone is now a phone addict.
It’s the last thing you touch before you sleep at night.
It’s the first thing you touch when you wake up at dawn.
Some even put earpiece on their ears overnight.
Some stay awake at night to download films, but they can’t wake up for tahajud or even fajr.
Some are always “online” chatting.
As early as 6am they are online and they remain online till midnight.
They have thousands of friends online whom they chat with but they can’t relate with their families at home.
They isolate themselves in their rooms.
Some argue till midnight about aqeedah issues, yet by fajr time, he is sleeping and snoring.
Immediately after the tasleem in salat, you see people pressing their phones again, no time for istighfaar or adhkaar! As if all their past and future sins have already been forgiven!
When accidents happen, instead of saving lives, you see people snapping the victims with their phones.
When a house is burning, instead of doing something, you see people snapping so as to be the first to upload it on social network.
When a person loses a loved one, instead of thinking about the funeral issues, the first thing the person does is to upload the news on social network, perhaps to get
comments!
Some are so addicted to phones, they even chat when they are in the loo.
Some chat in the exam halls while waiting for the paper.
Some play games with their phones in the masjid.
Some watch films in the masjid. Astaghfirullah!!!
What a fitnah befalling the Ummah.
Along the road, some keep pressing their phones, until perhaps they narrowly dodge an accident or until a banana peel slips them.
Even when we have guests, we still concentrate on our phones rather than our guest.
Some ignore their spouses because they are chatting with “mere friends” on Facebook!
Many divorces happen on facebook or due to facebook.
Some use Suratul Asr to hasten their salat because of their phones, not knowing that Suratul Asr is talking about spending time in righteous deeds.
Many are those whose phones have made them “hypocrites”.
Many are those whose phones are leading them to hellfire.
Because of your phone, you are the last person to come to Jumu’ah and you are the first person to leave!
Allah said, ‘Closer and closer to mankind comes their judgement, yet they don’t take heed, and they turn away’ (Sura Al-Anbiyaa vs 1)
May Allah forgive our numerous sins, ameen.
Please educate others, May Allah reward your efforts, ameen.