What is life?

: “Jo Naseeb Me He”
“Wo Chal Kr”
“Bhi Aaey Ga,”
.
“Jo Nahin He”
“Wo Aa Kr Bhi”
“Chala Jay Ga,”
.
“Zindagi Ko”
“Itna Serious Leny Ki”
“Zarurat Nahin,”
.
“Yahan Se”
Zinda Bach Kar”
“Koi Nahin Jay Ga,”
.
“Ek Such Ye He K”
“Agar Zindagi”
“Itni Achi Hoti,”
.
“To Hum”
“Is Dunya Men”
“Roty Huwy Na Aaty,”
.
“Lekin Aik Meetha Such”
“Ye Bhi He K,”
.
“Agr Ye Zindagi”
“Buri Hoti To”
“Hum Jaty Jaty”
“Logo Ko Rula Kr”
“Na Jaty.”

موت کی آخری ہچکی

بیالوجی کے ماہرین کہتے ہیں کہ موت کی آخری ہچکی کے ساتھ ہی ایک جاندار کے جسم میں موجود 30 ٹریلیّن خُلیے Dead ہونا شروع ہو جاتے ہیں- اور ہر مُردہ خُلئے پر ایک “بیکٹیریا” مسلّط ہو جاتا ہے- اس مقصد کےلئے انسانی آنت میں 37 ٹریلیّن بیکٹیریاز ہر وقت موجود ہوتے ہیں- اس عمل کو “ڈی کمپوزیشن” کہا جاتا ہے- 
یہ بیکٹیریاز مردہ سیل کو چیر پھاڑ کر رکھ دیتے ہیں اور کاربوہائیڈریٹس ، لیپڈ اور پروٹین کو بدبو آور گیسز میں تبدیل کرنے لگتے ہیں- یہ بدبو مکھیوں اور دوسرے حشرات الارض کےلئے اشتہاء کا باعث بنتی ہے- چنانچہ یہ قدرتی فوج مل جل کر چند ہی روز میں مردہ جسم کو صفحہء ہستی سے مٹا دیتی ہے- بچی کھچی ہڈیاں بھی وقت کے ساتھ ساتھ مٹی بن جاتی ہیں-
یہ وہی جسم ہے جسے صبح سے شام تک سنوارا جاتا ہے- کھلایا پلایا جاتا ہے-
جو چیز باقی بچتی ہے ، اور جس تک کسی بیکٹیریا و حشرات کی پہنچ نہیں ، وہ روح ہے-
یہ وہی روح ہے جسے صبح سے شام تک تڑپایا جاتا ہے- اور بھوکا رکھا جاتا ہے 

Nikaah & janamaz

* Nikaah & janamaz …*
نکاح اور جنازہ

The _difference_ between a *wedding* and a *funeral* beautifully captured in a _poem_ called :
*farq sirf itna sa tha*

شادی اور جنازہ میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ایک نظم میں خوبصورتی کا ساتھ منظر کشی کی گئی ہے ۔
فرق صرف اتنا سا تھا
فرق صرف اتنا سا تھا

teri *doli* uthi,
meri *mayyat* uthi,
تیری ڈولی اٹھی
میری میت اٹھی

phool _tujh_ par bhi barse,
phool _mujh_ par bhi barse,
*farq sirf itna sa tha….*

پھول تجھ پہ برسے،
پھول مجھ پر بھی برسے
فرق صرف اتنا سا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔

tu _saj_ gayi,
mujhe _sajaya_ gaya..
تو سج گئی!
مجھے سجایا گیا

_tu_ bhi ghar ko chali,
_main_ bi ghar ko chala,
*farq sirf itna sa tha….*
تو بھی گھر کو چلی
میں بھی گھر کو چلا
فرق صرف اتنا سا تھا

tu _uth_ ke gayi,
mujhe _uthaya_ gaya…
تو اٹھ کے گئی
مجھے اٹھایا گیا

*mehfil* wahan bhi thi,
*log* yahan bhi the,
*farq sirf itna sa tha….*
محفل وہاں بھی تھی
لوگ یہاں بھی تھے
فرق صرف اتنا ہے

unka _hasna_ wahan,
inka _rona_ yahan…
ان کو ہنسنا وہاں
ان کو رونا یہاں

*qazi* udhar bhi tha,
*moulvi* idhar bhi tha,
قاضی ادھر بھی تھا
مولوی ادھر بھی تھا۔

do bol _tere_ padhe,
do bol _mere_ padhe,
tera *nikaah* padha,
mera *janaaza* padha,
*farq sirf itna sa tha…*
دو بول تیرے پڑھے
دو بول میرے پڑھے
تیرا نکاح پڑھا
میرا جنازہ پڑھا
فرق صرف اتنا سا تھا۔

tujhe *apnaya* gaya,
mujhe *dafnaaya* gaya…
Mout ki Fikar
Na karta tha”
تجھے اپنایا گیا
مجھے دفنایا گیا
موت کی فکر نہ کرتا تھا۔۔۔۔

Gunah ko Gunah
Na smajhta tha”
گناہ کو گناہ نہ سمجھتا تھا

DiL chahta tha k
Padhun Namaz”
دل چاہتا تھا کہ پڑھوں نماز

par Masjid tak
Jism na le jata tha”
پر مسجد تک، جسم نہ لے جاتا تھا۔

Duniya ki Ronaq
me Magan tha”
دنیا کی رونق میں مگن تھا۔

Waqt Dosti me
Barbad krta tha”

وقت دوستی میں برباد کرتا تھا۔

Phir 1 Din achank
Andhera chaya”
پر ایک دن اچانک اندھیرا چھا گیا

Aankh khuli to Khud
ko Qabar me paya”
آنکھ کھلی تو خود کو قبر میں پایا

Phir ALLHA ne pucha
k kya le kr aaya”
پھر اللہ نے پوچھا، کہ کیا لے کر آیا۔

Ghar jana chaha
lekin ja na paya”
گھر جانا چاہا لیکن جا نہ پایا۔

Qabar ki Tanhai
ne bohat daraya”

قبر کی تنہائی نے بہت ڈرایا ۔

Aawaz di Apno ko
to koi na aaya”
آواز دی اپنوں کو تو کوئی نہ آیا

Waqt hai sambhal ja?
وقت ہے سنبھل جا؟

Quran ka ek ruku rozana parhne se saal may 3 Quran mukammal ho jate hain?

قرآن کا ایک رکوع روزانا پڑھنے سے سال میں تین قرآن مکمل ہو جاتے ہیں ۔

بے شک صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے

*روح نکلنے کا وقت یعنی عالم نزع …*

یہ وہ سخت مرحلہ ہوتا ہے جب انسان ۔۔۔
اس جہاں سے ۔۔۔
اپنے پیاروں سے ۔۔۔
اپنی تعلیمی قابلیت سے ۔۔۔
اپنی تمام ذاتی صفات سے ۔۔۔
اپنی جمع شدہ دولت اور جائیداد سے ۔۔۔

ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہاتھ جھاڑ کر ایک طویل سفر پر روانہ ہوتا ہے اور اپنے ساتھ صرف نیک و بد اعمال کا پشتارا لے چلتا ہے ۔۔۔

تو اس مرحلے کی کیفیات کو مرنے والا تو بیان کرنے کے قابل نہیں ہوتا …

اس لیے اللہ تعالی بیان فرماتا ہے ۔۔۔

*”جب روح سارے بدن سے کھینچ کر ہنسلی کی ہڈی (Collarbone) میں آکر اٹک جائے گی ۔ اور لوگ کہیں گے کہ ہے کوئی جھاڑ پھونک کرنے والا ، کوئی دوا دارو کرنے والا ؟ حالانکہ مرنے والا تو سمجھ جاتا ہے کہ اب جدائی کا وقت آگیا ہے ۔ روح نکلنے کی شدت کے باعث اس کی پنڈلی دوسری پنڈلی سے لپٹ رہی ہوتی ہے ۔ یہی تو اپنے رب سے ملاقات کا وقت ہے”* (سورة القيامة – 26 – 30)

*”جب روح نکل کر گلے تک پہنچ جاتی ہے ۔ اور تم مرنے والے کو اپنی آنکھوں سے مرتا دیکھ رہے ہوتے ہو ۔ اس وقت ہم تم سے زیادہ اس کے نزدیک ہوتے ہیں ۔ مگر تم دیکھ نہیں سکتے ۔ اگر تم اپنے قول میں سچے ہو کہ تمہیں جزا و سزا کچھ نہیں ملنے والی تو تم اس کی روح کو پلٹا کیوں نہیں دیتے؟”* (سورة الواقعة ۔ 83 ۔ 87)

*”کاش تم دیکھ سکو کہ جب ظالم موت کی سختیوں میں مبتلا ہوتے ہیں اور فرشتے (عذاب کے لیے) اپنے ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہتے ہیں کہ لاؤ نکالو اپنی جانیں”* (سورةالأنعام ۔ 93)

رحمۃ للعالمین ﷺ نے موت کے اس انتہائی ہولناک مرحلے سے نمٹنے کا نہایت آسان نسخہ بیان فرمایا ہے ۔۔۔
*”بے شک صدقہ خدا کے غضب کو ٹھنڈا کرتا ہے اور بری موت سے بچاتا ہے”*

اور اللہ تعالی فرماتا ہے ۔۔۔
*”اور خیرات کرو اس مال میں سے جو ہم نے تمہیں عطا کیا ہے ۔ اس سے پہلے کہ تم میں سے کسی کو موت آئے تو (اس وقت) کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار تو نے مجھے تھوڑی سی اور مہلت کیوں نہ دی تاکہ میں خیرات کرلیتا اور نیک لوگوں میں داخل ہوجاتا ۔ اور جب کسی کی موت آجاتی ہے تو اللہ اس کو ہرگز مہلت نہیں دیتا اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے ۔”*
(سورة المنافقون ۔ 11 ۔ 10)

-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-*-

وَذَكِّرْ فَإِنَّ الذِّكْرَىٰ تَنفَعُ الْمُؤْمِنِينَ ۔
اور نصیحت کرتے رہو ۔ کیونکہ نصیحت ایمان لانے والوں کو فائدہ دیتی ہے ۔
(سورة الذاريات – 55)

روم کے بادشاہ ہرقل اور ایک مسلمان قیدی کے درمیان مکالمہ

روم کے بادشاہ ہرقل اور ایک مسلمان قیدی کے درمیان مکالمہ
.
.
.
حضرت عمربن الخطاب رضی اللہ عنہ نے روم سے لڑنے کے لیے ایک فوجی دستہ روانہ کیا، اس دستے میں ایک نوجوان صحابی عبد اللہ بن حذافہ بن قیس السھمی رضی اللہ عنہ بھی تھے…

مسلمانوں اور قیصر کی فوج کے درمیان لڑائی نے طول پکڑ لیا، قیصر مسلمانوں کی بہادری اور ثابت قدمی پر حیران ہوا اور حکم دیا کہ مسلمانوں کا کوئی جنگی قیدی ہو تو حاضر کیا جائے…
عبد اللہ بن حذافہ کو گھسیٹ کر حاضر کیا گیا جن کے ہاتھوں اور پاؤں میں ہتھکڑیاں تھیں، قیصر نے ان سے بات چیت شروع کی تو ان کی ذہانت سے حیران رہ گیا، دونوں کے درمیان یہ مکالمہ ہوا :
قیصر : نصرانیت قبول کر لے تمہیں رہا کر دوں گا؟
عبد اللہ : نہیں!
قیصر : نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت تمہیں دے دوں گا؟
عبد اللہ: نہیں!
قیصر : نصرانیت قبول کر لے آدھی سلطنت دوں گا اور تمہیں حکمرانی میں شریک کروں گا؟
عبد اللہ : نہیں، اللہ کی قسم اگر تم مجھے اپنی پوری مملکت، اپنے آباواجداد کی مملکت، عرب وعجم کی حکومتیں بھی دے میں پلک جھپکنے کے لیے بھی اپنے دین سے منہ نہیں موڑوں گا…!
قیصر غضبناک ہوا اور کہا : تجھے قتل کر دوں گا، عبد اللہ : مجھے قتل کردے !
قیصر نے حکم دیا کہ ان کو ایک ستون پر لٹکا کر ان کے آس پاس تیروں کی بارش کی جائے(ڈرانے کے لیے) پھر اس کو عیسائیت قبول کرنے یا موت کو گلے لگانے میں سے ایک بات کا اختیار دیا جائے…
جب قیصر نے دیکھا کہ اس سے بھی بات نہیں بنی وہ کسی حال میں اسلام چھوڑنے کے لیے تیار نہیں تو حکم دیا کہ قید میں ڈال دو اور کھانا پینا بند کر دو عبد اللہ کو کھانا پینا نہیں دیا گیا یہاں تک کہ پیاس اور بھوک سے موت کے قریب ہو گئے تو قیصر کے حکم سے شراب اور خنزیر کا گوشت ان کے سامنے پیش کیا گیا…
جب عبد اللہ نے یہ دیکھا تو کہا : اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ میں وہ مضطر( پریشان حال) ہوں جس کے لیے یہ حلال ہے، مگر میں کفار کو خوش کر نا نہیں چاہتا، یہ کہہ کر کھانے کو ہاتھ بھی نہ لگا یا…
یہ بات قیصر کو بتائی گئی تو اس نے عبد اللہ کے لیے بہترین کھانا لانے کا حکم دیا، اس کے بعد ایک حسین وجمیل لڑکی کو ان کے پاس بھیجا گیا کہ ان کو چھیڑے اور فحاشی کا مظاہر ہ کرے، اس لڑکی نے بہت کوشش کی مگر عبد اللہ نے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں کی اوراللہ کےذکر میں مشغول رہے…
جب لڑکی نے یہ دیکھا تو غصے سے باہر چلی آئی اور کہا : تم نے مجھے کیسے آدمی کے پاس بھیجا میں سمجھ نہ سکی کہ وہ انسان ہے یا پتھر…
اللہ کی قسم اس کو یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ میں مذکر ہوں یا مونث…!!
جب قیصر کا ہر حربہ ناکام ہوا اور وہ عبد اللہ کے بارے میں مایوس ہوا تو ایک پیتل کی دیگ منگوائی اور اس میں تیل ڈال کر خوب گرم کیا اور عبد اللہ کو اس دیگ کے سامنے لایا اور ایک اور مسلمان قیدی کو زنجیروں سے باندھ کر لایا گیا اور ان کو اٹھا کر اس ابلتے تیل میں ڈالا گیا جن کی ایک چیخ نکلی اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی ہڈیاں الگ ہو گئیں اور تیل کے اوپر تیرنے لگی، عبد اللہ یہ سارا منظر دیکھ رہے تھے،اب ایک بار پھر قیصر عبد اللہ کی طرف متوجہ ہوا اور نصرانیت قبول کرنے اور اسلام چھوڑنے کی پیش کش کر دی مگر عبد للہ نے انکار کر دیا…
قیصر غصے سے پاگل ہو نے لگا اور حکم دیا کہ یہ دیگ میں موجود تیل اٹھا کر عبد اللہ کے سر پر ڈال دی جائے، جب قیصر کے کارندوں نے دیگ کھینچ کر عبد اللہ کے قریب کیا اور اس کی تپش کو محسوس کیا تو عبد اللہ رونے لگے….!!
آپ کی ان خوش نصیب آنکھوں سے آنسو ٹپکنے لگے جن آنکھوں نے رسول اللہ ﷺ کا چہرہ انور دیکھا تھا….!!
یہ دیکھ کر قیصر خوشی سے جھومنے لگا اور کہا : عیسائی بن جاو معاف کر دوں گا…؟
عبد اللہ نے کہا : نہیں!
قیصر : پھر رویا کیوں…؟
عبد اللہ : اللہ کی قسم میں اس لیے رو رہا ہوں کہ میری ایک ہی جان ہے جو اس دیگ میں ڈالی جائے گی…میری یہ تمنا ہے کہ میری میرے سر کے بالوں کے برابر جان ہوں اور وہ ایک ایک کر کے اللہ کی راہ میں نکلیں…
یہ سن کر قیصر نے مایوسی کے عالم میں عبد اللہ سے کہا : کیا یہ ممکن ہے کہ تم میرے سر کو بوسہ دو اور میں تمہیں رہا کروں…؟
عبد اللہ : اگر میرے ساتھ تمام مسلمان قیدیوں کو رہا کر تے ہو تو میں تیرے سر کو بوسہ دینے کے لیے تیار ہوں…!!
قیصر : ٹھیک ہے عبد اللہ نے اپنے ساتھ دوسرے مسلمانوں کو رہا کرنے کے لیے اس کافر کے سرکوبوسہ دیا اور سارے مسلمان رہا کر دیے گئے…
جب واپس عمر بن الخطاب کے پاس پہنچ گئے اور آپ کو واقعہ بتا دیا گیا تو عمر نے کہا : عبد اللہ بن حذافہ کے سر کو بوسہ دینا ہر مسلمان پر ان کا حق ہے اور خود اٹھے اور عبد اللہ کے سر کو بوسہ دیا…

رضی اللہ عنھم ورضوعنہ
یہ امتِ مرحومہ کے اصل ہیرو ہیں , اور آج کل ہمارے پاس اپنی اولادوں کو اسلام کے ہیرؤں کے بارے میں بتانے کا وقت نہیں ہے, ہماری اولادیں یہ تو جانتی ھیں کہ سپرمین, آئرن مین, بیٹ می……….
یہ ہیرو ہیں جو ایک خیالی ہیں, اور اصل ہیرو کون اور کیسے ھوتے ہیں یہ ہی نہیں علم…
اللہ تعالٰی سب کو علم دین سیکھنے اور سکھانے کی توفیق عطا کرے,آمین…!!

اس سے پہلے کہ آپ موت کے دروازے تک پہنچیں

🍀 تین نوجوان ملک سے باھر سفر پر جاتے ھیں اور وھاں ایک ایسی عمارت میں ٹھہرتے ھیں جو 75 منزلہ ھے..
🍀 ان کو 75 ویں منزل پر کمرہ ملتا ھے..
🍀 ان کو عمارت کی انتظامیہ باخبر کرتی ھے کہ یہاں کے نظام کے مطابق رات کے 10 بجے کے بعد لفٹ کے دروازے بند کر دیے جاتے ھیں
🍀 لھذا ھر صورت آپ کوشش کیجیے کہ دس بجے سے پہلے آپ کی واپسی ممکن ھو
🍀 کیونکہ اگر دروازے بند ھوجائیں تو کسی بھی کوشش کے باوجود لفٹ کھلوانا ممکن نہ ھوگا..
🍀 پہلے دن وہ تینوں سیر و سیاحت کے لیے نکلتے ھیں تو رات 10 بجے سے پہلے واپس لوٹ آتے ھیں

🍀 مگر دوسرے دن وہ لیٹ ھوجاتے ھیں..
🍀 اب لفٹ کے دروازے بند ھو چکے تھے..

🍀 ان تینوں کو اب کوئی راہ نظر نہ آئی کہ کیسے اپنے کمرے تک پہنچا جائے جبکہ کمرہ 75 منزل پر ھے..

🍀 تینوں نے فیصلہ کیا کہ سیڑھیوں کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ تو نہیں ھے تو یھاں سے ھی جانا پڑے گا..

🍀 ان میں سے ایک نے کہا..
” میرے پاس ایک تجویز ھے..
🍀 یہ سیڑھیاں ایسے چڑھتے ھوئے ھم سب تھک جائیں گے..
🍀 ایسا کرتے ھیں کہ اس طویل راستے میں ھم باری باری ایک دوسرے کو قصے سناتے ھوئے چلتے ھیں..
🍀 25 ویں منزل تک میں کچھ قصے سناوں گا
اس کے بعد باقی 25 منزل تک دوسرا ساتھی قصے سنائے گا
اور پھر آخری 25 منزل تیسرا ساتھی..
🍀 اس طرح ھمیں تھکاوٹ کا زیادہ احساس نہیں ھوگا اور راستہ بھی کٹ جائے گا.. “
🍀 اس پر تینوں متفق ھوگئے..
🍀 پہلے دوست نے کہا..
” میں تمہیں لطیفے اور مذاحیہ قصے سناتا ھوں جسے تم سب بہت انجوائے کروگے..
🍀 ” اب تینوں ھنسی مذاق کرتے ھوئے چلتے رھے..

🍀 جب 25 ویں منزل آگئی تو دوسرے ساتھی نے کہا..
” اب میں تمہیں قصے سناتا ھوں مگر میرے قصے سنجیدہ اور حقیقی ھونگیں.. “
🍀 اب 25 ویں منزل تک وہ سنجیدہ اور حقیقی قصے سنتے سناتے ھوئے چلتے رھے..
🍀 جب 50 ویں منزل تک پہنچے تو تیسرے ساتھی نے کہا..
” اب میں تم لوگوں کو کچھ غمگین اور دکھ بھرے قصے سناتا ھوں.. ”
🍀 جس پر پھر سب متفق ھوگئے اور غم بھرے قصے سنتے ھوئے باقی منزلیں بھی طے کرتے رھے..
🍀 تینوں تھک کر جب دروازے تک پہنچے تو تیسرے ساتھی نے کہا..
” میری زندگی کا سب سے بڑا غم بھرا قصہ یہ ھے کہ ھم کمرے کی چابی نیچے استقبالیہ پر ھی چھوڑ آئے ھیں.. “
🍀 یہ سن کر تینوں پر غشی طاری ھوگئی..
🍀 اگر دیکھا جائے تو ھم لوگ بھی اپنی زندگی کے 25 سال ھنسی مذاق ‘ کھیل کود اور لہو و لعب میں گزار دیتے ھیں..
🍀 پھر باقی کے 25 سال شادی ‘ بچے ‘ رزق کی تلاش ‘ نوکری جیسی سنجیدہ زندگی میں پھنسے رھتے ھیں..
🍀 اور جب اپنی زندگی کے 50 سال مکمل کر چکے ھوتے ھیں تو زندگی کے باقی آخری سال بڑھاپے کی مشکلات ‘ بیماریوں ‘ ھوسپٹلز کے چکر ‘ بچوں کے غم اور ایسی ھی ھزار مصیبتوں کے ساتھ گزارتے ھیں..
🍀 یھاں تک کہ جب موت کے دروازے پر پہنچتے ھیں تو ھمیں یاد آتا ھے کہ “چابی” تو ھم ساتھ لانا ھی بھول گئے..
🍀 رب کی رضامندی کی چابی..
🍀 جس کے بغیر یہ سارا سفر ھی بےمعنی اور پچھتاوے بھرا ھوگا..
🍀 اس لیے اس سے پہلے کہ آپ موت کے دروازے تک پہنچیں ‘ اپنی چابی حاصل کرلیں.

مشرق وسطٰی کے موجودہ حالات اور حضرت امام مہدی

مشرق وسطٰی کے موجودہ حالات اور حضرت امام مہدی علیہ السلام کا ظہور احادیث کے آئینے میں

اللہ کے رسول حضرت محمد کریم. ﷺ نے قیامت کی نشانیاں بتلاتے ہوئے فرمایا:
کہ اونٹوں اور بکریوں کے چرواہے جو برہنہ بدن اور ننگے پاؤں ہوں گے وہ ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہوئے لمبی لمبی عمارتیں بنائیں گے اور فخر کریں گے۔ (صحیح مسلم 8)
میں ریاض شہر کو دیکھ کر حیران رہ گیا، عمارتوں کایہ مقابلہ آج اپنے عروج پر پہنچ گیا، دبئی میں ’’برج خلیفہ‘‘ کی عمارت دنیا کی سب سے اونچی عمارت بن گئی تو ساتھ ہی شہزادہ ولید بن طلال نے جدہ میں اس سے بھی بڑی عمارت بنانے کا اعلان کر دیا ہے جو دھڑا دھڑ بنتی چلی جا رہی ہے، یعنی مقابلہ اپنی انتہا پر پہنچ چکا ہے کہ عرب دنیا کی عمارتیں سارے جہان سے اونچی ہو چکی ہیں۔ بتلانے کا مقصد صرف یہ کہ میرے پیارے رسول حضرت محمد کریم ﷺ نے جو فرمایا وہ پورا ہو چکا ہے اور پیشگوئی پوری ہو کر اپنے نکتۂ کمال کو پہنچ چکی ہے، اس کے بعد اصول دنیاوی ’’ہر کمال را زوال است‘‘ کہ ہر کمال کے لئے زوال ہے، زوال کا آغاز بھی ہوچکا ہے کہ گاڑیاں صرف تیل پر نہیں رہیں بلکہ گیس، بیٹری اور سولار انرجی وغیرہ سے بھی چلنا شروع ہو گئیں۔ تیل دیگر ملکوں سے بھی بہت زیادہ نکلنا شروع ہو گیا اور ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ
عرب کا سب سے زیادہ تیل خریداری کرنے والے امریکہ نے صدام کو ختم کرکے تیل کی دولت سے سیراب ملک عراق پر اپنی کٹ پتلی شیعہ حکومت بنا کر تیل کے کنوؤں پر قبضہ جما لیا ہے اور لاکھوں بیرل مفت وصول کر رہا ہے تو پھر تیل کی گرتی مانگ نے تیل کی قیمتوں کو نچلی سطح پر پہنچا دیا جس سے عرب ممالک کا سنہرا دور خاتمے کے قریب ہے

۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس زوال کے بعد کیا ہے؟اللہ کے رسول ﷺ کی ایک اور حدیث ہے کہ قیامت سے پہلے سر زمین عرب دوبارہ سرسبز ہو جائیگی گا۔۔
۔صحیح مسلم
کون سوچ سکتا تھا کہ سرزمین عرب کے صحراء اور خشک پہاڑ کہ جسے اللہ تعالیٰ نے خود حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زبان سے ’’بِوَادٍ غیر ذی زرعِ‘‘ بے آب و گیاہ وادی قرار دیا۔ وہ سبزے سے لہلا اٹھے گی چنانچہ پوری دنیا میں گلوبل وارمنگ اور موسمیاتی تبدیلی کے نقارے بجنے لگے، نتیجہ یہ نکلا ہے کہ سعودی عرب اور امارات میں بارشیں شروع ہو چکی ہیں۔ اتنی بارشیں اور ہوائیں کہ سیلاب آنا شروع ہو گئے ہیں، مکہ اور جدہ میں سیلاب آ چکے ہیں۔ ایک سیلاب چند دن پہلے آیا ہے جس سے چند افراد لقمہ اجل بھی بن چکے ہیں، اس تبدیلی کا نتیجہ یہ نکل رہا ہے کہ عرب سرزمین جسے پہلے ہی جدید ٹیکنالوجی کو کام میں لا کر سرسبز بنانے کی کوشش کی گئی ہے وہ قدرتی موسم کی وجہ سے بھی سرسبز بننے جا رہی ہے۔ سعودی عرب گندم میں پہلے ہی خودکفیل ہو چکا ہے، اب وہاں خشک پہاڑوں پر بارشوں کی وجہ سے سبزہ اگنا شروع ہو چکا ہے، پہاڑ سرسبز ہونا شروع ہو گئے ہیں۔بارشوں کی وجہ سے آخرکار حکومت کو ڈیم بنانا ہوں گے جس سے پانی کی نہریں نکلیں گی، ہریالی ہو گی، سبزہ مزید ہو گا، فصلیں لہلہائیں گی، یوں یہ پیشگوئی بھی اپنے تکمیلی مراحل سے گزرنے جا رہی ہے اور جو میرے حضورﷺ نے فرمایا اسے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھتے جا رہے ہیں

اگر احادیث مبارکہ پر غور کریں تو مشرق وسطٰی کے زوال کا آغاز ملک شام سے شروع ہوا لیکن شاید عرب حکمران یا تو یہودی و نصاری کی چال سمجھ نہ سکے یا بے رخی اختیار کی لیکن وجہ جو بھی ہو یا نہ ہو نبی کریم ﷺ کی بتائی ہوئی علامات کو تو ظاہر ہو نا ہی تھا حدیث کے مطابق

چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہے
ﺭﺳﻮﻝ ﺍﻟﻠﮧ ﷺ ﻧﮯ ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ :
ﺟﺐ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺗﺒﺎﮨﯽ ﻭ ﺑﺮﺑﺎﺩﯼ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮﺟﺎﺋﯿﮟ ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﺗﻢ ﻣﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺧﯿﺮ ﺑﺎﻗﯽ ﻧﮧ ﺭﮨﮯ ﮔﯽ۔
( ﺳﻨﻦ ﺍﻟﺘﺮﻣﺬﯼ 2192: ،ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎﺀ ﻓﯽ ﺍﻟﺸﺎﻡ،ﺣﺪﯾﺚ ﺻﺤﯿﺢ )
یاد ﺭﮐﮭﯿﮟ ! ﺍﺣﺎﺩﯾﺚ ِ ﻣﺒﺎﺭﮐﮧ ﮐﯽ ﺭُﻭ ﺳﮯ ﺷﺎﻡ ﻭ ﺍﮨﻞِ ﺷﺎﻡ ﺳﮯ ﺍﻣﺖِ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﺎ ﻣﺴﺘﻘﺒﻞ ﻭﺍﺑﺴﺘﮧ ﮨﮯ،ﺍﮔﺮ ملک شام ایسے ہی ﺑﺮﺑﺎﺩ ﮨﻮﺗﮯ ﺭﮨا ﺗﻮ
ﭘﻮﺭﯼ ﺍﻣﺖِ ﻣﺴﻠﻤﮧ ﮐﯽ ﺑﮭﯽ ﺧﯿﺮ ﻧﮩﯿﮟ۔۔ ویسے تو 90 فیصد برباد ہو چکا

اب جبکہ پانچ سالہ خونریزی میں 8 لاکھ سنی معصوم بچے، بوڑھے، عورتیں شہید اور لا تعداد دوسرے ملک کی سرحدوں پر زندگی کی بھیک مانگتے ہوئے شہید ہو رہے ہیں اور اتنے ہی تعداد میں زخمی یا معذور ہو چکے
لہذا شام مکمل تباہی کے بعد اب ملک نزع کی حالت میں ہے
اس حدیث مبارکہ کے حساب سے عرب ممالک کے سنہرے دور کے خاتمہ کی اہم وجہ ملک شام کے موجودہ حالات ہے گویا نبی کریم ﷺ کی ایک اور پیشگوئی علامت ظاہر ہو رہی ہے یا ہو چکی

یاد رکھیں کہ ملک شام کے متعلق اسرائیل، روس، ایران و امریکہ جو بھی جھوٹے بہانے بناے لیکن ان سب کا اصل ہدف جزیرہ العرب ہے کیونکہ کفار کا عقیدہ ہے کہ دجال مسیحا ہے اس وجہ سے یہ لوگ دجال کے انتظامات مکمل کر رہے ہیں جس کے لیے عرب ممالک میں عدم استحکام پیدا کرنا ہے کیونکہ ملک شام پر یہودی و نصاری قبضہ کرنا چاہتے ہیں اور یہ ہو کر رہیگا حضرت امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے قبل
چنانچہ کتاب فتن میں ہے کہ
آخری زمانے میں جب مسلمان ہر طرف سے مغلوب ہوجائیں گے، مسلسل جنگیں ہوں گی، شام میں بھی عیسائیوں کی حکومت قائم ہوجائے گی، علماء کرام سے سنا کہ سعودی، مصر، ترکی بهي باقي نہ رہیگا ہر جگہ کفار کے مظالم بڑھ جائیں گے، امت آپسی خانہ جنگی کا شکار رہے گی
عرب( خلیجی ممالک سعودی عرب وغیرہ )میں بھی مسلمانوں کی باقاعدہ پُرشوکت حکومت نہیں رہے گی، خیبر( سعودی عرب کا چھوٹا شہر مدینة المنورة سے 170 کم فاصلے پر ہے)کے قریب تک یہود و نصاری پہنچ جائیں گے، اور اس جگہ تک ان کی حکومت قائم ہوجائے گی، بچے کھچے مسلمان مدینة المنورة پہنچ جائیں گے، اس وقت حضرت امام مہدی علیہ السلام مدینہ منورہ میں ہوں گے،

دوسری طرف دریائے طبریہ بھی تیزی سے خشک ہو رہی ہے جو کہ امام مہدی علیہ السلام کے ظہور سے قبل خشک ہو گی

اسلیے جب مشرق وسطیٰ کے حالات کو خصوصاً مسلمانوں اور ساری دنیا کے حالات کو دیکھتا ہیں تو صاف نظر آتا ہے کہ دنیا ہولناکیوں کی جانب بڑھ رہی ہے۔ فرانس میں حالیہ حملوں کے بعد فرانس اور پوپ بھی عالمی جنگ کی بات کر چکے ہیں۔ سوال پیدا ہوتا ہے اس عالمی جنگ کا مرکز کون سا خطہ ہو گا، واضح نظر آ رہا ہے، مشرق وسطیٰ ہی متوقع ہے

یہاں بھی ہندوستان پاکستان کی رنجشیں کشمکش کے بڑھتے حالات بھی لگتا ہے کہ غزوہ ہند کی طرف رخ کر رہے ہیں کیونکہ
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
۔’’میری قوم کا ایک لشکر وقتِ آخر کے نزدیک ہند پر چڑھائی کرے گا اور اللہ تعالیٰ اس لشکر کو فتح نصیب کرے گا، یہاں تک کہ وہ ہند کے حکمرانوں کو بیڑیوں میں جکڑ کر لائیں گے۔ اللہ تعالیٰ اس لشکر کے تمام گناہ معاف کر دے گا۔ پھر وہ لشکر واپس رُخ کرے گا اور شام میں موجود عیسیٰ ابنِ مریم علیہ السلام کے ساتھ جا کر مل جائے گا۔‘‘ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا، ’’اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو میں اپنا سب کچھ بیچ کر بھی اس لشکر کا حصہ بنوں گا۔ اور پھر جب اللہ تعالیٰ ہمیں فتح نصیب کرے گا تو میں ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ (جہنم کی آگ سے) آزاد کہلاؤں گا۔ پھر جب میں شام پہنچوں گا تو عیسٰی علیہ السلام ابنِ مریم کو تلاش کر کے انہیں بتاؤں گا کہ میں محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ساتھی رہا ہوں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے تبسم فرمایا اور کہا، ’’بہت مشکل، بہت مشکل‘‘۔
کتاب الفتن۔ صفحہ ۴۰۹

آنے والے ادوار بڑے پر فتن نظر آتے ہیں اور اس کے متعلق بھی نبیِ کریم ﷺ فرمایا تھا کہ میری امت پر ایک دور ایسے آیگا جس میں فتنے ایسے تیزی سے آئینگے جیسے تسبیح توٹ جانے سے تسبیح کے دانے تیزی سے زمین کی طرف آتے ہیں

لہذا اپنی نسلوں کی ابھی سے تربیت اور ایمان کی فکر فرمایے ورنہ آزمائش کا مقابلہ دشوار ہو گا –
کالم
ندائے وقت خلیل اعظم، کراچی

Aik Ibrat Nak Kahani

.: ریاض جانے کے لیےایک گھنٹہ پہلے گھر سے نکلا۔ لیکن راستے میں رش اور چیکنگ کی وجہ سے میں ائیرپورٹ لیٹ پہنچا۔جلدی سے گاڑی پارکنگ میں کھڑی کی، اور دوڑتے ہوئے کاﺅنٹرپر جا پہنچا۔ کاﺅنٹر پرموجودملازم سے میں نے کہا۔ مجھے ریاض جانا ہے، اس نے کہا ریاض والی فلائٹ تو بند ہو چکی ہے، میں نے کہا پلیز مجھے ضرور آج شام ریاض پہنچنا ہے۔ اُس نے کہا زیادہ باتوں کی ضرورت نہیں ہے۔ اس وقت آپکو کوئی بھی جانے نہیں دے گا۔میں نے کہا اللہ تمھارا حساب کردے۔اس نے کہا اس میں میراکیاقصور ہے؟
بہرحال میں ائیرپورٹ سے باہر نکلا۔حیران تھا کیا کروں۔ ریاض جانے کا پروگرام کینسل کر دوں؟یا اپنی گاڑی اسٹارٹ کر کے روانہ ہو جاﺅں۔یا ٹیکسی میں چلا جاءوں۔بہرحال ٹیکسی میں جانے والی بات پر اتفاق کیا۔ائیرپورٹ کے باہر ایک پرائیوٹ گاڑی کھڑی تھی۔میں نے پوچھا ریاض کے لیے کتنا لو گے۔اُس نے کہا 500ریال ، بہرحال 450ریال میں بڑی مشکل سے راضی کیا۔اور اس کے ساتھ بیٹھ کر ریاض کے لیے روانہ ہو گیا۔بیٹھتے ہی میں نے اُس سے کہا کہ گاڑی تیز چلانی ہے،اُسنے کہا فکر مت کرو۔واقعی اس نے خطرناک حدتک گاڑی دوڑانا شروع کر دی۔راستے میں اس سے کچھ باتیں ہوئیں۔اُسنے میری جاب اور خاندان کے متعلق کچھ سوالات کیے۔اور کچھ سوال میں نے بھی پوچھ لیے۔
اچانک مجھے اپنی والدہ کا خیال آیا۔ کہ اُن سے بات کرلوں۔ میں نے موبائل نکالا۔ اور والدہ کو فون کیا۔ اُنہوں نے پوچھا۔ بیٹے کہاں ہو۔ میں نے جہاز کے نکل جانے اور ٹیکسی میں سفر کرنے والی بات بتادی۔ ماں نے دُعا دی۔ بیٹے اللہ تمہیں ہر قسم کے شرسے بچادے۔ میں نے کہا۔ ان شاءاللہ جب میں ریاض پہنچ جاﺅ ں گا۔ تو آپکو اطلاع دے دونگا۔
قدرتی طورپر میرے دل پر ایک پریشانی چھا گئی۔ اور مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے کوئی مصیبت میرا انتظار کر رہی ہو۔ اُس کے بعد میں نےاپنی بیوی کو فون کیا۔ میں نے اُسے بھی ساری بات بتا دی ، اور اُسے ہدایت کی، کہ بچوں کا خیال رکھے، بالخصوص چھوٹی بچی کا اُ س نے کہا جب سے تم گئے ہو مسلسل آپکے بارے میں پوچھ رہی ہے۔ میں نے کہامیری بات کرواﺅ۔
بچی نے کہا بابا آپ کب آئیں گے؟ میں نے کہا۔ ابھی تھوڑی دیر میں آجاﺅں گا۔ کوئی چیز چاہیے؟ وہ بولی ہاں میرے لیے چاکلیٹ لے آﺅ۔ میں ہنسا۔ اور کہا ٹھیک ہے۔
اس کے بعد میں اپنی سوچوں میں گم ہو گیا۔ کہ اچانک ڈرائیور کے سوال نے مجھے چونکا دیا۔ پوچھا کیا میں سگریٹ پی سکتا ہوں۔ میں نے کہا۔ بھائی تم مجھے ایک نیک اور سمجھدار انسان لگ رہے ہو۔ تم کیوں خود کو اور اپنے مال کونقصان پہنچارہے ہو۔ اُس نے کہا۔ میں نے پچھلے رمضان میں بہت کوشش کی کہ سگریٹ چھوڑ دوں ، لیکن کامیاب نہ ہو سکا۔ میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ نے تمہیں بڑی قوت کی ہے۔ تم سگریٹ چھوڑنے کا معمولی سا کام نہیں کر سکتے ۔ بہرحال اُسنے کہا آج کے بعد میں سگریٹ نہیں پیوں گا۔ میں نے کہا اللہ تعالیٰ آپ کو ثابت قدمی عطافرمائے (آمین)
مجھے یاد پڑتا ہے کہ اُ س کے بعد میں نے گاڑی کے دروازے کے ساتھ سر لگایا کہ اچانک گاڑی سے زوردار دھماکہ کی آواز آئی ۔ اور پتا لگا کہ گاڑی کا ایک ٹائر پھٹ گیا ہے۔ میں گھبرایا اور ڈرائیور سے کہا۔ سپیڈ کم کردو۔ اور گاڑی کو قابو کرو۔ اُس نے گھبراہٹ میں کوئی جواب نہیں دیا۔گاڑی ایک طرف نکل گئی اور قلابازیاں کھاتی ہوئی ایک جگہ رُک گئی ۔ مجھے اُس وقت اللہ نے توفیق دی کہ میں نے زورزور سے کلمہ شہادت پڑھا۔
مجھے سر میں چوٹ لگی تھی۔ اور درد کی شدت سے ایسا محسوس ہورہا تھا۔ کہ سر پھٹاجارہا ہے۔ میں جسم کے کسی حصے کو حرکت نہیں دے سکتا تھا۔ میں نے اپنی زندگی میں اتنا درد کبھی نہیں دیکھا تھا۔ میں بات کرنا چاہ رہا تھا۔ لیکن بول نہیں سکتا تھا۔ جب کہ میری آنکھیں کھلی تھیں۔ لیکن مجھے کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ اتنے میں لوگوں کے قدموں کی آوازیں سُنیں، جو ایک دوسرے سے کہہ رہے تھے کہ اسے ہلاﺅ نہیں سر سے خون نکل رہا ہے۔ اور ٹانگیں ٹوٹ چکی ہیں میری تکلیف میں اضافہ ہوتا چلا جارہا تھا۔ اور سانس لینے میں شدیددشواری محسوس کررہا تھا۔ مجھے اندازہ ہوا۔ کہ شائد میری موت آگئی ہے۔ اُس وقت مجھے گزری زندگی پر جو ندامت ہوئی ، میں اُسے الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا۔ مجھے پتہ چلا کہ اب مجھے موت سے کوئی نہیں بچا سکتا۔
اس کہانی کے آخر میں بتاﺅں گا کہ اس کی کیا حقیقت ہے۔یہاں پر ہر بھائی بہن تصور کرے کہ جو کچھ ہو رہا ہے میرے ساتھ ہو رہا ہے۔ کیونکہ عنقریب ہم سب کو اس ملتے جلتے حالات سے سابقہ پیش آنا ہے۔
اس کے بعد لوگوں کی آوازیں آنا بند ہو گئیں۔ میری آنکھوں کے سامنے مکمل تاریخی چھاگئی۔ اور میں ایسا محسوس کررہا تھا۔ جیسے میرے جسم کوچھریوں سے کا ٹاجارہا ہو۔ اتنے میں مجھے ایک سفید ریش آدمی نظر آیا۔ اُس نے مجھے کہا بیٹے یہ تمھاری زندگی کی آخری گھڑی ہے۔ میں تمہیں نصیحت کرنا چاہتاہوں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مجھے تمھارے پاس بھیجا ہے۔ میں نے پوچھا کیا ہے نصیحت؟
اُ س نے کہا۔ عیسائیت کی ترغیب “قل لبحیا الصلیب” خدا کی قسم اس میں تمھاری نجات ہے۔ اگر تم اس پر ایمان لائے ۔ تو تمہیں اپنے گھروالوں کو لوٹا دوں گا۔ اور تمھاری روح واپس لے آﺅں گا۔ جلدی سے بولو۔ ٹائم ختم ہوا جارہا ہے۔ مجھے اندازہ ہوا یہ شیطان ہے۔ مجھے اُس وقت جتنی بھی تکلیف تھی۔ اور جتنا بھی اذیت سے دوچارتھا۔ لیکن اُس کے باوجود اللہ اور اُس کے رسول پر پکا ایمان تھا۔ میں نے اُسے کہا جاﺅ اللہ کے دشمن۔ میں نے اسلام کی حالت میں زندگی گزاری ہے۔ اور مسلمان ہو کر مرﺅں گا۔ اُس کا رنگ زرد پڑگیا۔ بولا تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تم یہودی یا نصرانی مر جاﺅ۔ ورنہ میں تمھاری تکلیف بڑھا دوں گا۔ اور تمہاری رُوح قبض کر دوں گا۔ میں نے کہا۔ موت تمھارے ہاتھ میں نہیں ہے۔ جوبھی ہو۔ میں اسلام کی حالت ہی میں مرﺅں گا۔
اتنے میں اُس نے اوپردیکھا۔ اور دیکھتے ہی بھاگ نکلا۔ مجھے لگا جیسے کسی نے اُسے ڈرایا ہو۔ اچانک میں عجیب قسم کے چہروں والے اور بڑے بڑے جسموں والے لوگ دیکھے۔ وہ آسمان کی طرف سے آئے اور کہا ۔ السلام علیکم میں نے کہا وعلیکم السلام۔ اُس کے بعد وہ خاموش ہوگئے۔ اور ایک لفظ بھی نہیں بولے۔ اُن کے پاس کفن تھے۔ مجھے اندازہ ہوا کہ میری زندگی ختم ہوگئی ۔ اُن میں سے ایک بہت بڑا فرشتہ میری طرف آیا۔ اور کہا ایتھا النفس المطمئنة اُخرجی الی مغفرۃ من اللہ ورضوان (اے نیک رُوح اللہ کی مغفرت اور اُس کی خوشنودی کی طرف نکل آ)
یہ بات سُن کر میری خوشی کا ٹھکانہ نہیں رہا۔ میں نے کہا اللہ کے فرشتے میں حاضر ہوں۔
اُس نے میری روح کھینچ لی۔ مجھے اب ایسا محسوس ہورہا تھا۔ جیسے میں نیند اور حقیقت کے مابین ہوں۔ ایسا لگا کہ مجھے جسم سے آسمان کی طرف اُٹھایا جارہا ہے۔ میں نے نیچے دیکھا۔ تو پتہ چلا۔ کہ لوگ میرے جسم کے اردگرد کھڑے ہیں اور انہوں نے میرے جسم کو ایک کپڑے سے ڈھانپ دیا ۔ اُن میں سے کسی نے کہا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
میں نے دوفرشتوں کو دیکھا۔ کہ وہ مجھے وصول کر رہے ہیں۔ اور مجھے کفن میں ڈال کر اوپر کی طرف لے جارہے ہیں۔ میں نے دائیں بائیں دیکھا۔ تو مجھے افق کے علاوہ کچھ نظر نہیں آیا۔ مجھے بلندی سے بلندی کی طرف لے جایا جا رہا تھا۔ ہم بادلوں کو چیرتے چلے گئے۔ جیسے کہ میں ایک جہاز میں بیٹھا ہوں۔ یہاں تک کہ پوری زمین مجھے ایک گیند کی طرح نظرآرہی تھی۔ میں نے اُن دو فرشتوں سے پوچھا کیا اللہ مجھے جنت میں داخل کرے گا؟ انہوں نے کہا اس کا علم اللہ تعالیٰ کی ذات کو ہے۔ ہمیں صرف تمہاری رُوح لینے کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔ اور ہم صرف مسلمانوں پر مامُور ہیں۔ ہمارے قریب سے کچھ اور فرشتے گزرگئے جن کے پاس ایک رُوح تھی۔ اور اُس سے ایسی خوشبو آرہی تھی۔ کہ میں نے اپنی زندگی میں اتنی زبردست خوشبو کبھی نہیں سونگی تھی۔ میں نے حیرانگی کے عالم میں فرشتوں سے پوچھا۔ کہ کون ہے۔ اگر مجھے معلوم نہ ہوتا۔ کہ اللہ کے رسُول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دنیا سے رحلت کر گئے ہیں۔ تو میں کہتا کہ یہ اُن کی رُوح ہو گی۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک فلسطینی کی رُوح ہے۔ جسے یہودیوں نے تھوڑی دیر پہلے قتل کیا۔ جبکہ وہ اپنے دین اور وطن کی مدافعت کررہا تھا۔ اس کا نام ابو لعبد ہے۔میں نے کہا۔ کاش میں شہید ہو کر مرتا۔
اُس کے بعد کچھ اور فرشتے ہمارے قریب سے گزرے اور اُن کے پاس ایک رُوح تھی۔ جس سے سخت بدبو آرہی تھی۔ میں نے پوچھا کہ کون ہے؟ اُنہوں نے کہا یہ بتوں اور گائے کو پوجنے والا ایک ہندو ہے۔ جسے تھوڑی دیر پہلے اللہ تعالیٰ نے اپنے عذاب سے ہلاک کردیا۔ میں نے شکر کیا۔ کہ شکر ہے۔ میں کم ازکم مسلمان مرا ہوں۔ میں نے کہا۔ میں نے آخرت کے سفر کے حوالے سے بہت پڑھا ہے۔ لیکن یہ جو کچھ ہورہا ہے۔ میں نے کبھی اس کا تصور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا۔ شکر کرو مسلمان مرے ہو۔ لیکن ابھی تمہارے سامنے سفر بہت لمبا ہے۔ اور بے شمار مراحل ہیں۔
اُس کے بعد ہم فرشتوں کے ایک بہت بڑے گروہ کے پاس سے گزرگئے ۔ اور ہم نے انہیں سلام کیا۔ اُنہوں نے پوچھا یہ کون ہے؟
میرے ساتھ والے دوفرشتوں نے جواب دیا، کہ یہ ایک مسلمان ہے۔ جو تھوڑی دیر پہلے حادثے کا شکارہو گیا۔ اور اللہ نے ہمیں اس کی رُوح قبض کرنے کا حکم دیا۔ اُنہوں نے کہا۔ مسلمانوں کے لیے بشارت ہے۔ کیونکہ یہ اچھے لوگ ہیں۔ میں نے فرشتوں سے پوچھا۔ یہ کون لوگ ہیں اُنہوں نے کہا۔ یہ وہ فرشتے ہیں۔ جو آسمان کی حفاظت کرتے ہیں۔ اور یہاں سے شیطانوں پر شہاب پھینکتے رہتے ہیں ۔ میں نے کہا یہ تو اللہ تعالیٰ کی بہت عظیم مخلوق ہے۔ اُنہوں نے کہا ان سے بھی زیادہ عظیم فرشتے ہیں۔ میں نے پوچھا کون ہیں؟ وہ بولے جبرائیل ؑ اور عرش کو اٹھانے والے فرشتے۔ اور یہ سب مخلوق ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی سرتابی نہیں کیا کرتے۔
لا یعصون اللہ ما امرھم و یفعلون ما یؤمرون۔ التحریم(وہ اللہ کے دیے ہوئے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو حکم دیا جاتا ہے اسے بجا لاتے ہیں)۔
اُ سکے بعد ہم مزید اوپر چڑھتے گئے یہاں تک کہ آسمان دُنیا پر پہنچ گئے ۔ میں اُس وقت ایک خوف اور کرب کے عالم میں تھا کہ نہ معلوم آگے کیا ہوگا۔میں نے آسمان کو بہت بڑا پایا اور اس کے اندر دروازے تھے ۔ جوبند تھے اور اُن دروازوں پر فرشتے تھے۔ جن کے جسم بہت بڑے تھے۔ ۲ فرشتوں نے کہا۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ اور اُن کے ساتھ میں نے بھی یہی الفاظ دہرائے ۔ دوسرے فرشتوں نے جواباَکہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ اور انہوں نے کہا۔ رحمت کے فرشتوں اھلا وسھلا ضرور یہ مسلمان ہی ہو گا۔ میرے ساتھ والے فرشتے نے کہا ۔ ہاں یہ مسلمان ہے۔ اُنہوں نے کہا تم اندر آسکتے ہو۔ کیونکہ آسمان کے دروازے صرف مسلمانوں کے لیے کھلتے ہیں۔ کافروں کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ (لا تفتح لھم ابواب السماء) کافروں کے لیے آسمان کے دروازے نہیں کھلیں گے۔
ہم اندر آگئے تو بہت ساری عجیب چیزیں دیکھیں۔ پھر ہم آگے بڑھے اور اورپر چڑھنا شروع کیا۔ یہاں 6تک کہ دوسرا تیسرا چوتھا پانچواں چھٹا اوربالآخر ساتوں آسمان پر جا پہنچے ۔ یہ آسمان باقی تمام آسمانوں سے بڑا نظر آیا جیسے ایک بہت بڑا سمندر۔ فرشتے کہہ رہے تھے: اللھم انت السلام و منک السلام تبارکت یا ذوالجلال والاکرام
مجھ پرایک بہت بڑی ہیبت طاری ہوئی ۔ سر نیچے کیا اور آنسو جاری ہوئے۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں حکم صادرفرمایا۔ کہ میرے اس بندے کا عمل نام علیین میں لکھدو۔ اور اُسے زمین کی طرف واپس لے جاﺅ۔ کیونکہ میں نے انہیں زمین سے پیدا کیا۔ اسی میں ان کی واپسی ہو گی۔ اور ایک بارپھر اسی زمین سے انہیں اٹھاﺅنگا۔ شدیدرُعب۔ ہیبت اور خوشی کے ملے جلے جذبات میں ، میں نے کہا ۔ پروردگار تو پاک ہے۔ لیکن ہم نے تیری وہ بندگی نہیں کی۔ جو ہونی چاہیے تھی۔ سبحانک ما عبدناک حق عبادتک
فرشتوں مجھے لے کر واپس زمین کی طرف روانہ ہوئے۔ اور جہاں جہاں سے گزرتے گئے دوسرے فرشتوں کوسلام کرتے گئے ۔ میں نے راستے میں اُن سے پوچھا۔ کیا میں اپنے جسم اور گھروالوں کے متعلق جان سکتا ہوں؟
اُنہوں نے کہا۔ اپنے جسم کو عنقریب تم دیکھ لوگے۔ لیکن جہاں تک تمہارے گھر والوں کا تعلق ہے۔ اُن کی نیکیاں آپ کو پہنچتی رہیں گی۔ لیکن تم اُنہیں دیکھ نہیں سکتے۔
اُس کے بعد وہ مجھے زمین پر لے آئے۔ اور کہا اب تم اپنے جسم کے ساتھ رہو۔ ہمارا کام ختم ہو گیا۔
اب قبر میں تمہارے پاس دوسرے فرشتے آئیں گے، میں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ آپکو جزائےخیر دے۔ کیا میں پھر کبھی آپکو دیکھ سکوں گا؟ اُنہوں نے کہا۔ قیامت کے دن ۔ اور اس کے ساتھ اُن پر ہیبت طاری ہوئی ۔ پھر اُنہوں نے کہا۔ اگر تم اہل جنت میں سے نکلے۔ تو ہم ساتھ ساتھ ہوں گے۔ ان شاء اللہ
میں نے پوچھا جو کچھ میں نے دیکھا۔ اور سُنا۔ کیا اس کے بعد بھی میرے جنت جانے میں کوئی شک رہ گیا ہے؟ اُنہوں نے کہا۔ تمہارے جنت جانے کے بارے میں اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔تمہیں جو عزت و اکرام ملا۔ وہ اسلئے کہ تم مسلمان مرےہو۔ لیکن تمہیں اعمال کی پیشی اور میزان سے ضرور سابقہ پیش آنا ہے۔
مجھے اپنے گناہ یاد آئے اورکہا کہ زور زور سے روﺅں۔
انہوں نے کہا۔ اپنے رب سے نیک گمان کرو۔ کیونکہ وہ کسی پر ظلم ہر گز نہیں کرتا۔ اس کے بعد انہوں نے سلام کیا۔ اور بڑی تیزی سے اوپر کی طرف اُٹھ گئے۔
میں نے اپنے جسم پر نظر دوڑائی میری آنکھیں بند تھیں۔ اور میرے اردگرد میرے بھائی اور والد صاحب رو رہے تھے۔ اُس کے بعد میرے جسم پر پانی ڈالا گیا۔ تو مجھے پتہ چلا کہ مجھے غسل دیا جا رہا ہے۔ اُن کے رونے سے مجھے تکلیف ملتی تھی۔ اور جب میرے والددُعا کرتے کہ اللہ تعالیٰ تم پر رحم فرمائے۔ تو اُن کی یہ بات مجھے راحت پہنچاتی تھی۔اُس کے بعد میرے جسم کو سفید کفن پہنچایا گیا۔
میں نے اپنے دل میں کہا۔ افسوس میں اپنے جسم کو اللہ کی راہ میں ختم کرتا۔ کاش میں شہید مرتا۔ افسوس میں ایک گھڑی بھی اللہ کے ذکر یا نماز یا عباد ت کے بغیر نہ گزارتا، کاش میں شب و روز اللہ کی راہ میں مال خرچ کرتا۔ افسوس ھائے افسوس۔ اتنے میں لوگوں نے میرا جسم اٹھایا۔ میں اپنے جسم کو دیکھ رہا ہوں لیکن نہ تو اس کے اندر جا سکتا ہوں اور نہ دور ہو سکتا ہوں۔ ایک عجیب سی صورتحال سے دوچار تھا۔مجھے جب اُٹھایا گیا۔ تو جو چیز میرے لئے اُس وقت تکلیف دہ تھی ۔ وہ میرے گھر والوں کا رونا تھا۔ میرا دل چاہ رہا تھا۔ میں اپنے ابا سے کہدوں ابا جان پلیز رونا بند کردیں بلکہ میرے لئے دُعا کریں۔ کیونکہ آپ کا رونا مجھے تکلیف دے رہا ہے۔ میرے رشتے داروں میں اُس وقت جو کوئی میرےلئے دُعا کرتا تو اُس سے مجھے راحت مل جاتی تھی۔
مجھے مسجد پہنچایا گیا۔ اور وہاں اُتارا گیا اور میں نے سُنا کہ لوگ نماز پڑھنے لگے ہیں مجھے شدید خواہش ہوئی کہ میں بھی اُن کے ساتھ نماز میں شریک ہو جاﺅں ۔ میں نے سوچا کتنے خوش قسمت ہیں یہ لوگ کہ نیکیاں کمارہے ہیں۔ جبکہ میرا عمل نامہ بند ہوگیا ہے۔
نماز ختم ہوئی تو موٗذن نے اعلان کیا (الصلوٰۃ علی الرجل یرحمکم اللہ ) امام میرے قریب آیا۔ اور نماز جنازہ شروع کی۔ میں حیران ہوا۔ کہ وہاں بہت سارے فرشتے آگئے ۔ جو ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے کہ نماز پڑھنے والے کتنے لوگ ہیں؟ اور ان میں کتنے موحد ہیں جو اللہ کے ساتھ شرک نہیں کرتے؟
چوتھی تکبیر میں ، میں نے دیکھا کہ فرشتے کچھ لکھ رہے ہیں مجھے اندازہ کہ وہ لوگوں کی دُعائیں لکھ رہے ہوں گے۔اُس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ امام اس رکعت کو مزید لمبی کردے ۔ کیونکہ لوگوں کی دُعاﺅں سےمجھے عجیب سی راحت اور سرور مل رہا تھا۔ نماز ختم ہوئی اور مجھے اُٹھا کر کر قبرستان کی طرف لے گئے راستہ میں کچھ لوگ دُعائیں مانگ رہے تھے اور کچھ رو رہے تھے۔اور میں حیران و پریشان تھا کہ نہ معلوم میرے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ مجھے اپنے تمام گناہ اور غلطیا ں اور ظُلم اور جو غفلت کی گھڑیاں میں نے دُنیا میں گزاری تھیں۔ ایک ایک چیز سامنے آرہی تھی۔ ایک شدید ہیبت کا عالم تھا جس میں گذررہا تھا۔
الغرض قبرستان پہنچا کر مجھے اُتارا گیا۔ اُس وقت مختلف قسم کی آوازیں سننے میں آئیں کوئی کہہ رہا ہے ۔ جنازے کو راستہ دیدو۔ کوئی کہہ رہا ہےاس طرف سے لے جاﺅ ۔ کوئی کہتا ہے قبر کے قریب لکھدو۔ یا اللہ میں نے کبھی اپنے بارے ایسی باتیں نہیں سوچی تھیں۔ مجھے قبر میں رُوح اور جسم کے ساتھ اُتارا گیا۔ لیکن اُنہیں صرف میرا جسم نظر آرہا تھا۔ رُوح نہیں نظر آرہی تھی۔
اُسکے بعد لحد کو بند کرنا شروع کر دیا۔ میرا دل چاہا کہ چیخ چیخ کے کہدوں، کہ مجھے یہاں نہ چھوڑیں پتہ نہیں میرے ساتھ کیا ہو گا۔ لیکن میں بول نہیں سکتا تھا۔الغرض مٹی ڈالنی شروع ہوئی اور قبر میں گھپ اندھیرا چھا گیا۔ لوگوں کی آوازیں بند ہوتی چلی گئیں۔لیکن میں اُ ن کے قدموں کی آوازیں سُن رہا تھا۔ اُ ن میں سے جو کوئی میرے لئے دُعا کرتا تو اُس سے مجھے سکون مل جاتا تھا۔اچانک قبر مجھ پر تنگ ہوگئی اور ایسا لگا کہ میرے پورے جسم کو کچل دے گی۔ اور قریب تھا کہ میں ایک چیخ نکال دوں لیکن پھر دوبارہ اصلی حالت پر آگئی ۔
اُس کے بعد میں نے ایک طرف دیکھنے کی کوشش کی کہ اچانک دو ہیبت ناک قسم کے فرشتے نمودار ہوئے جن کے بڑے بڑے جسم، کالے رنگ، اور نیلی آنکھیں تھیں۔ اُن کی آنکھوں میں بجلی جیسی چمک تھی۔ اور اُ ن میں سے ایک کے ہاتھ میں گرز تھا اگر اُس سے پہاڑ کو مارے تو اُسے ریزہ ریزہ کر دے۔
اُ ن میں سے ایک نے مجھے کہا بیٹھ جاﺅ۔ تومیں فوراَ بیٹھ گیا۔ پھر اُس نے کہا (من ربک ) تمھار رب کون ہے۔ جس کےہاتھ میں گز تھا۔ وہ مجھے بغور دیکھ رہا تھا۔ میں نے جلدی سے کہا۔ (ربی اللہ ) میرا رب اللہ ہے۔ جواب دیتے وقت مجھ پر کپکپی طاری تھی۔ اس لئے نہیں کہ مجھے جواب میں کوئی شک تھا۔ بلکہ اُ ن کے رُعب کی وجہ سے۔ پھر اُس نے مزید دو سوال کئے کہہ تمھارا نبی کون ہے اور تمھارا دین کونسا ہے اور الحمدللہ میں نے ٹھیک جوابات دیدئیے ۔
اُنہوں نے کہا۔ اب تم قبر کے عذاب سے بچ گئے میں نے پوچھا کیا تم منکر و نکیر ہو؟
اُنہوں نے جواباَ کہا ہاں۔ اور بولے کہ اگر تم صحیح جوابات نہ دیتے تو ہم تمہیں اس گز سے مارتے اور تم اتنی چیخیں نکالتے کہ اُ سے زمین کی ساری مخلوق سُن لیتی۔ سوائے انسانوں اور جنوں کے۔ اور اگر جن و انس اُسے سن لیں تو بے ہوش ہوجائیں۔ میں نے کہا۔ اللہ کا شکر ہے کہ اُس نے مجھے اس مصیبت سے بچا لیا۔ اُسکے بعد وہ چلےگئے اور اُن کے جانے سے مجھے قدرے اطمینان حاصل ہوا۔
اُ ن کے چلے جانے کے ساتھ ہی مجھے سخت گرمحسوس ہوئی اور مجھے لگا کہ میرا جسم جلنے والا ہے جیسے کہ جہنم سے کوئی کھڑکی کھولی گئی ہو۔ اتنے میں دواور فرشتے نمودار ہوئے اور کہا السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے جواب دیا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ ۔ اُنہوں نے کہا ہم فرشتے ہیں۔ ہم قبر میں تمہارے اعمال تمہیں پیش کرنے آئے ہیں۔ تاکہ قبر میں قیامت تک تمہیں اپنی نیکیوں کا جو بدلہ ملنا چاہیے وہ بدلہ مل جائے ۔ میں نے کہا اللہ کی قسم جس سختی اور اذیت سے میں دوچار ہوں۔ میں نے کبھی اس کے متعلق سوچا نہیں تھا۔
پھر میں نے پوچھا۔ کیا میں ایک سوال کر سکتا ہوں؟ اُنہوں نے کہا ۔ کرلو میں نے پوچھا کیا میں اہل جنت میں سے ہوں۔ اور کیا اتنی ساری تکلیفیں جھیلنے کے بعد بھی میرے لئے جہنم جانے کا خطرہ ہے؟
اُنہوں نے کہا تم ایک مسلمان ہو ۔ اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان لائے ہو۔ لیکن جنت جانے کا علم ایک اللہ کے علاوہ کسی کونہیں ہے۔ بہرحال اگر تم جہنم چلے بھی گئے تو وہاں ہمیشہ نہی رہوگے۔ کیونکہ تم موحد ہو۔
یہ سن کر میری آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور میں نے کہا اگر اللہ نے مجھے دوزخ بھیج دیا تو پتہ نہیں میں وہاں کتنا عرصہ رہوں گا؟
اُنہوں نے کہا۔ اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھو۔ کیونکہ وہ بہت کریم ہے۔ اور اب ہم تمہارے اعمال پیش کر رہے ہیں۔ تمہارے بلوغت سے وقت سے تمہارے ایکسیڈنٹ کے وقت تک۔
اُنہوں نے کہا۔ سب سے پہلے ہم نماز سے شروع کرتے ہیں کیونکہ کافر اور مسلمان کے مابین فرق کرنے والی چیز نماز ہے۔ لیکن فی الحال تمہارے سارے اعمال مُعلق ہیں۔
میں نے حیرانگی سے پوچھا۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے نیک اعمال کئے ہیں۔ آخر میرے اعمال مُعلق کیوں ہیں؟ اور اس وقت جو میں اپنے جسم میں دُنیا جہاں کی گرمی محسوس کررہا ہوں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
اُنہوں نے کہا۔ اس کی وجہ یہ ہے۔ کہ تمہارے اُوپر قرضہ ہے جو تم نے مرنے سے پہلے ادا نہیں کیاہے۔
میں روپڑا ۔ اور میں نے کہا۔ کیسے ؟ اور یہ جو میرے اعمال مُعلق ہیں کیا اس کی وجہ بھی یہی ہے؟
میرا سوال ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔ کہ میری قبرمیں اچانک روشنی آگئی۔ اور ایک ایسی خوشبو پھیل گئی۔ کہ ایسی خوشبو نہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی سونگھی اور نہ مرنے کے بعد۔
اُس روشنی سے آواز آئی۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے کہا وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ میں نے پوچھا تم کون ہو؟
اُس نے کہا میں سورۃ المُلک ہوں۔میں اس لئے آئی ہوں کہ اللہ سے تیرے لئے مدد طلب کردوں۔ کیونکہ تم نے میری حفاظت کی تھی۔ اور تمہارے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تمہیں بتا دیا تھا۔
کہ جو کوئی سورۃ المُلک پڑھے گا۔ قبر میں وہ اُس کے لئے نجات کا ذریعہ ہوگی۔
میں بہت خوش ہوا۔ میں نے کہا میں نے بچپن میں تمہیں حفظ کرلیا تھا۔ اور میں ہمیشہ نماز میں اور گھر میں تیری تلاوت کیا کرتا تھا۔ مجھے اِس وقت تمہاری اشد ضرورت ہے۔اُ س نے کہا اس لئے تو میں آئی ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ سے دُعا کر لوں کہ وہ تمہاری تکلیف کو آسانی میں تبدیل کر دے۔ لیکن تم سے ایک غلطی ہوئی ہے۔ کہ تم نے لوگوں کے قرضے ادا نہیں کئے ہیں۔
میں نے کہا نجات کا کوئی طریقہ ہے؟
اُس نے کہا۔ تین باتوں میں سے کوئی ایک تمہارا مسئلہ حل کر سکتا ہے۔
میں نے جلدی سے کہا۔ وہ کونسے کام ہیں؟
اُس نے کہا ۔ پہلے یہ بتادو۔کہ تم نے کوئی کاغذ لکھ کر چھوڑا ہے ۔جسے دیکھ کر تمہارے ورثہ وہ قرضہ ادا کر دیں؟
ورثہ کا نام سُن کر میرے آنسو نکل آئے ۔مجھے تمام گھروالے امی ، ابو، بیوی، بہن، بھائی اور بچے یاد آئے۔ پتہ نہیں میرے بعد اُن کا کیا حال ہوگا؟ میری چھوٹی بچی جس کے ساتھ میں نے چاکلیٹ کا وعدہ کیا تھا۔ اب کون اسکے لئے چاکلیٹ لے کر دے گا؟
میری بیوی کو لوگ بیوہ کہیں گے۔ کون ان کا خیال رکھے گا؟
سورۃ المُلک نے پوچھا۔ لگ رہا ہے۔ تم کوئی چیز یاد کر رہے ہو؟
میں نے کہا مجھے اپنے اہل و عیال اور بچے یاد آئے۔ کہ میرے بعد اُن کا کیا حال ہوگا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ جس نے اُنہیں پیدا کیا ہے۔ وہی روزی بھی دے گا۔ اور وہی نگہبان بھی ہے۔
سورۃ المُلک کی اس بات سے مجھے کافی تسلی حاصل ہوئی۔
اُ سکے بعد میں نے پوچھا۔ کیا میں جان سکتا ہوں کہ میرے اوپر ٹوٹل کتناقرضہ ہے؟
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ میں نے فرشتے سے پوچھا تواُ س نے بتایا کہ ایک ہزار سات سو ریال ۔ 1000 آپ کے دوست کے ہیں جس کا نام ابوحسن ہے۔ اور باقی مختلف لوگوں کے ہیں۔
میں نے کہا مختلف لوگ کون ہیں؟
اُ س نے کہا۔ دراصل بلوغت سے لیکر آخری دن تک تم سے کئی بار اس بارے میں کوتاہی ہوئی ہے۔ اس طرح قرضہ بڑھ گیا ہے۔ مثلاَپانچ ریال اُس دکاندار کے ہیں جس سے آپ نے کوئی چیز خریدی تھی۔ جبکہ آپکی عمر 15 سال تھی۔ آپ نے اُس سے کہا پیسے کل دیدوں گا۔ اور پھر آپ نے نہیں دئیے۔ اس طرح لانڈری والے سے آپ نے کپڑے دُھلوائے۔ اور اُس کو ادائیگی کرنا بھول گئے ، کرتے کرتے اُس نے سارے لوگوں کے نام بتا دئیے اور سارے مجھے یاد آئے۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ لوگوں کے حقوق کو معمولی سمجھنے اور اُ ن سے تساہل برتنے کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر قبر میں عذاب ہوتا ہے۔
کیا تمہیں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خبر نہیں دی تھی۔ کہ شہید کے اعمال بھی روک لئے جائیں گے۔ جب تک اُ س کا قرضہ ادا نہیں ہوا ہو۔
میں نے کہا نجات کا کوئی طریقہ ہو سکتا ہے؟
اُ س نے کہا پہلا حل تو یہ ہے۔ جس کا قرضہ ہے وہ اپنا قرضہ معاف کر دے۔
میں نے کہا۔ اُن میں سے اکثر تو ان قرضوں کو بھول گئے ہیں ۔جس طرح میں بھول گیا تھا۔ اور اُن کو میرے مرنے کی خبر بھی نہیں ہو گی۔
اُس نے کہا۔ پھر دوسرا حل یہ ہے۔ کہ تمہارے ورثہ تمہاری طرف سے ادائیگی کر دیں۔ میں نے کہا۔ اُ ن کو میرے قرضوں کی اور میری تکلیف کی کہاں خبر ہے؟ جب کہ میں نے کوئی وصیت نام بھی نہیں چھوڑا۔ کیونکہ مجھے موت اچانک آگئی۔ اور مجھے ان ساری مشکلات کا علم نہیں تھا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ ایک اور حل ہو سکتا۔ ہے۔ لیکن میں تھوڑی دیر بعد تمہیں بتا دوں گی۔ اور اب میں جاتی ہوں۔ میں نے کہا خدارا مت جائیے۔ کیونکہ تمہارے جانے سے تاریکی ہو جائے گی۔ جو میری موجودہ تکلیف میں اضافے کا باعث ہوبنے گی۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ میں زیادہ دیر کے لئے نہیں جارہی بلکہ تمہارے لئے کوئی حل نکالنے کے لئے جارہی ہوں۔ اُ س کے بعد سورۃ المُلک چلی گئی اور میں گھپ اندھیرے میں اکیلا رہ گیا۔ ہیبت اور تکلیف کے باوجود میں نے کہا۔ یا ارحم الراحمین۔ اے اجنبیوں کے مولیٰ اور اے ہر اکیلے کے ساتھی۔ اس قبر کی تاریکی میں میری مدد کر۔ لیکن فوراَ مجھے خیال آیا کہ میں تو دارالحساب میں ہوں۔ اب دُعاﺅں کا کیا فائدہ۔
زیادہ دیر نہیں گزری تھی۔ کہ میں نے ایک مانوس آواز سُن لی۔ میں نے آواز پہچان لی۔ یہ میرے والدبزرگوار کی آوازتھی۔ جو کہہ رہے تھے۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ میں نے کہا۔ وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔لیکن میرا جواب انہیں کون پہنچائے۔ پھر اُنہوں نے کہا۔ (اللھم اغفرلہ اللہم ارحمہ اللھم وسع مُدخلہ اللھم آنس وحشتہ) پھر انہوں نے روتے ہوئے کہا۔ اے اللہ میں اس بیٹے سے راضی ہوں۔ تو بھی اس سے راضی ہوجا۔
میرے والد صاحب جب دُعامانگ رہے تھے۔ تو دُعا کے دوران ایک زبردست روشنی میری قبرمیں آئی۔ یہ دراصل رحمت کا فرشتہ تھا۔ جومیرے والد کی دُعا کو نوٹ کر رہا تھا۔ اور جب تک میرے والد نہیں گئے تھے۔ میرے ساتھ رہا۔
میرے والد صاحب جب واپس ہوئے تو فرشتے نے کہا کہ تیرے والد کی دُعا آسمانوں تک جائے گی۔ اور
ان شاء اللہ ، اللہ تعالیٰ اس کو قبول کرے گا۔ کیونکہ والد کی دُعا اپنے بیٹے کے لیے مستجاب ہوتی ہے۔
میں نے تمنا کی کہ کاش میرے والد میری قبر پر زیادہ دیر کے لئے ٹھہرتے اور دُعا مزید لمبی کرتے ۔ کیونکہ اُن کی دعا کی وجہ سے مجھے کافی آرام ملا۔ میں نے فرشتے سے پوچھا۔ کیا میں ایک سوال کر سکتاہوں۔
کیا پوچھو۔
میں نے کہاجب سے میں مراہوں اب تک کتنا عرصہ گزرگیا؟
اُ س نے کہا۔ جب سے تمہاری وفات ہوئی ۔ آج تیسرا دن ہے۔ اور اس وقت ظہر کا وقت ہے۔
میں نے حیرانگی سے کہا۔ تین دن اور اتنے سارےمعاملات اور واقعات؟ اور یہ قبر کی تاریکی جبکہ باہر دُنیا روشن ہے؟
فرشتے نے کہا۔ تمہارے سامنے بہت لمبا سفر ہے۔ اللہ اسے تمہارے لئے آسان کر دے۔
میں اپنے آپ کو قابو نہ کر سکا اور رونے لگا۔ اور ایسا رویا۔ کہ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں کبھی زندگی میں اتنا رویا ہوں۔ میں نے دل میں سوچا کہ اتنا خطرناک سفر اور دُنیا میں میری اِس قدر اس سفر کے لیےغفلت!
فرشتے نے جاتے وقت بتا دیا ۔ کہ قبر میں موجودہ روشنی تیرے والد کی دُعا کی وجہ سے ہے۔ اور یہ اسی طرح رہے گی۔ جب تک اللہ چاہے۔ مجھے پتہ چلا کہ والد کا آنا میرے لئے باعث رحمت ہے۔
میں نے تمنا کی کہ کاش میرے ابو میری آواز سُن لیں۔ اور میں اُنہیں بتادوں۔ ابو میرے قرضوں کی ادائیگی کر دیں۔ اور میری طرف سے صدقے کر دیں۔ اللہ کے واسطے! میرے لئے دُعا کریں۔ لیکن کون ہے۔ جو اُنہیں بتا دے۔
میں نے محسوس کیا کہ بعض اوقات میرے جسم کی گرمی کم ہو جاتی تھی لیکن اچانک پھر سے بڑھ جاتی تھی۔ میں نے اندازہ لگایا۔ کہ اس کا تعلق میرے حق میں لوگوں کی دُعائیں ہیں۔
اچانک میری قبر میں پھر وہی روشنی آئی ۔ جو اس سے پہلے میں دیکھ چکا تھا۔ یعنی سورۃ المُلک کی۔
سورۃ المُلک نے کہا تمہارے لئے دو خوشخبریاں ہیں۔
میں نے اشتیاق کے ساتھ فوراَ کہا ، کیا ہیں؟
تمہارے دوست نے اللہ کی خاطر تمہارا قرضہ معاف کر دیاہے۔ میں نے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا۔ اور مجھے پتہ تھا۔ کہ میری گرمی کم ہوجانے کی وجہ شائد یہی تھی۔
میں نے کہا دوسری بشارت کیا ہے؟
اُس نے کہا میں نے اللہ سے بہت درخواستیں کیں۔ لیکن انسانوں کے حقوق وہ معاف نہیں کرتا۔
البتہ اللہ نے ایک فرشتہ بھیج دیا جو تیرے رشتداروں میں سے کسی کو خواب میں آئے گا۔ تاکہ وہ تمہارے قرضوں کے متعلق سمجھ جائیں۔
پھر اس نے پوچھا: تمہارے خیال میں کون بہترہے۔ جس کو خواب میں فرشتہ کسی شکل میں آئے۔ اور پھر وہ اُس کو سچا سمجھ کر قرضہ کی ادائیگی کرے۔
میں نے اپنی امی کے بارے میں سوچا۔ لیکن پھرسوچا، کہ اگر اُس نے مجھے خواب میں دیکھا۔ تو رونا شروع کر دے گی۔ اور خواب کی تعبیر نہیں سمجھ سکے گی۔ پھر میں نے تمام رشتداروں کے متعلق سوچا۔ اور جو بندہ مجھے بہتر لگا۔ وہ میری بیوی تھی۔ کیونکہ وہ ہمیشہ خوابوں کو اہتمام دیا کرتی تھی۔ میں نے کہا۔ میری بیوی اگر مجھے خواب میں دیکھ لے۔ تو ہو سکتا ہے۔ وہ اُس کی تعبیر سمجھ جائے۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ میں متعلقہ فرشتے کو اطلاع دیتی ہوں اور اللہ سے دُعا کرتی ہوں کہ وہ آپ کی مشکل کو آسان کر دے۔
اس کے بعد سورۃ المُلک چلی گئی اور میری قبر میں بدستور وہ روشنی باقی تھی۔ جو میرے والد کی دُعا کی برکت سے آئی تھی۔ اور میں انتظار کرتا رہا۔ جیسے کہ جیل کے اندر ہوں۔ مجھے ٹائم کا کوئی اندازہ نہیں تھا۔ کیونکہ یہاں گھڑی نہیں تھی۔ نہ نماز، نہ کھاناپینا، نہ اور کوئی مصروفیات۔ دُعائیں مانگنا اور ذکرو اذکار بھی بے کار۔ بعض اوقات لوگوں کے قدموں کی آوازیں سُن لیتا۔ تو اندازہ کر لیتا کہ شائد کسی کا جنازہ ہے۔ بعض اوقات لوگوں کے ہنسنے کی آوازیں آجاتی تھیں ۔ تو مجھے تعجب ہوتا تھا۔ کہ ان کو اندازہ نہیں ہے کہ ہم کس صورت حال سے دوچار ہیں۔
کافی وقت گزرنے کے بعد اچانک میرے جسم کی گرمی بڑھنی شروع ہوئی۔ اور میں چیخنے لگا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا۔ جیسے میں ایک تندور کے اندرہوں۔ میرے خوف میں اضافہ ہوتا چلاجارہا تھا۔ لیکن پھر اچانک گرمی کم ہونی شروع ہوئی۔ یہاں تک کہ بالکل غائب ہو گئی۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کہ ایسا کیوں ہو جاتا ہے۔
اُ س کے بعد ایک بار پھر سورۃ المُلک کی روشنی آگئی ۔ اور مجھے کہا تمہیں مبارک ہو۔ میں نے کہا وہ کیسے؟
اُس نے کہا خوابوں کا فرشتہ تمہاری بیوی کو خواب میں گیا۔ اور تمہاری بیوی نے خواب میں تمہیں ایک سیڑھی پر چڑھتے دیکھا۔ اور دیکھا کہ سات سیڑھیاں باقی ہیں۔ اور تم پریشان کھڑے ہو۔ کیونکہ آگے نہیں چڑھ سکتے۔ پھر وہ فجر کی نماز سے پہلے اُٹھی۔ تمہاری یاد میں روئی ۔ اور صبح ہوتے ہی ایک عورت سے رابطہ کیا۔ جو خوابوں کی تفسیر کرتی ہے۔ اور اُسے اپنا خواب سنایا۔ اُس عورت نے کہا ، اے بیٹی تمہاری شوہرقبر میں تکلیف میں مبتلا ہے۔ کیونکہ اُس پر کسی کا 1700ریال قرض ہے۔
تیری بیوی نے پوچھا۔ کس کا قرض ہے ۔ اور ہم کیسے ادا کریں؟
اُ س نے کہا مجھے نہیں معلوم اس بارے میں علماء سے معلوم کرو۔
پھر تیری بیوی نے ایک شیخ کی اہلیہ سے رابطہ کیا۔ اور اُسے ساری بات بتا دی۔ تاکہ وہ شیخ سے جواب پوچھ لے۔ الغرض شیخ نے کہا۔ کہ میت کی طرف سے صدقہ کر دے۔ ہو سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اُ سے قبول کر کے میت کا عذاب ہٹا دے۔ تیری بیوی کے پاس سونا تھا۔ جس کی قیمت 4000 ریال تھی۔ اُس نے وہ سونا تیرے والد کو دیا۔ اور تیرے والد نے اُ کے ساتھ کچھ رقم مزید لگا کر صدقہ کر دیا۔ اور یوں تیر ا مسئلہ حل ہو گیا۔
میں نے کہا الحمدللہ مجھے اس وقت کوئی تکلیف نہیں ہے۔ اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے فضل اور تیرے تعاون سے ہوا۔
سورۃ المُلک نے کہا اب اعمال والے فرشتے تمہارے پاس آجائیں گے۔
میں نے پوچھا کیا اس کے بعد بھی میرے لئے کوئی خطرہ ہے؟
اُس نے کہا سفر بہت لمبا ہے۔ ہو سکتا ہے۔ اس میں کئی سال لگ جائیں۔ لہذا ُس کے لئے تیاررہو۔
کئی سال والے جواب نے میری پریشانی میں اضافہ کر دیا۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ بہت سارے لوگ صرف اس وجہ سے قبروں میں عذاب جھیل رہے ہیں۔ کہ وہ بعض باتوں کو معمولی سمجھتے تھے۔ جبکہ اللہ کے نزدیک وہ معمولی نہیں ہیں۔
میں نے کہا۔ مثلاَ کون سے اعمال؟
اُس نے کہا۔ بہت سارے لوگوں پر قبرو ںمیں اسلئے عذاب ہے۔ کہ وہ پیشاب سے نہیں بچتے تھے۔ اور گندگی کی حالت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہوتے تھے۔ اس طرح چغلی، چوری، سوداور مال یتیم کی وجہ سے بہت سارے لوگوں پر عذاب ہورہا ہے۔
پھر اُس نے کہا کہ کچھ لوگوں پر عذاب قبر اس لئے ہے۔ تاکہ قیامت آنے سے پہلے اُن کا کھاتہ صاف ہو جائے۔ اور کچھ لوگوں پر قیامت تک عذاب رہے گا۔ اور پھر جہنم میں داخل کئے جائیں گے۔
میں نے کہا ۔ اللہ تعالیٰ کی سزا سے بچنے کی کوئی سبیل ہے؟
سورۃ المُلک نے کہا۔ کہ عمل تو تمہارا منقطع ہوچکا ہے۔ البتہ تین کام ایسے ہیں ۔ جو تمہیں اب بھی فائدہ پہنچاسکتے ہیں۔
میں نے پوچھا وہ کیاہیں؟
اُ س نے کہا۔ اہل وعیال کی دُعا اور نیک عمل ۔ اس کے علاوہ کوئی کام اگر تم نے دُنیا میں کیا ہے۔ جو انسانوں کے لئے نفع بخش ہو۔ مثلاَ مسجد کی تعمیر ۔ تو اُس سے تم مرنے کے بعد بھی مستفید ہو گا۔ اس طرح اگر علم کی نشرو اشاعت میں تم نے حصہ لیا ہو۔ تو وہ اب بھی تمہارے لئے نفع بخش ہے۔
میں نے کہا میں کتنا بدبخت ہوں کہ دنیا میں کتنے عمل کے مواقع تھے۔ جس سے میں نے کوئی فائدہ نہیں اُٹھایا۔ اور آج بے یارومددگار قبر میں پڑاہوں۔میرا دل چاہا۔ میں چیخ چیخ کر لوگوں کو پکارُوں کہ اے لوگوقبر کے لئے تیاری کر لو۔ خدا کی قسم اگر تم لوگوں نے وہ کچھ دیکھا۔جو میں نے دیکھا۔ تو مسجدوں سے باہر نہیں نکلو گے،اور اللہ کی راہ میں سارا مال لگا دو گے۔
سورۃ المُلک نے کہا۔ مردہ لوگوں کی نیکیاں عام طور پر شروع کے دنوں میں بہت ہوتی ہیں۔ لیکن اس کے بعد رفتہ رفتہ وہ کم ہوتی چلی جاتی ہیں۔
میں نے پوچھا۔ کیا یہ ممکن ہے۔ کہ میرے گھر والے اور میرے رشتےدار مجھے بھول جائیں گے۔ مجھے یقین نہیں آرہا ہے۔ کہ وہ اتنی جلدی مجھے بھول جائیں گے۔
اُ س نے کہا۔ نہیں ضرور ایسا ہوگا۔ بلکہ تم دیکھوگے کہ شروع میں تمہاری قبر پر تمہارے اہل و عیال زیادہ آئیں گے۔ لیکن جب دن ہفتوں میں ہفتے مہینوں میں اور مہینے سالوں میں تبدیل ہوں گے۔ تو تمہاری قبر پر آنے والا ایک بندہ بھی نہیں ہوگا۔
مجھے یاد آیا کہ جب ہمارے دادا کا انتقال ہوا تھا۔ تو ہم ہر ہفتے اُس کی قبر پر جایا کرتے تھے۔ پھر ہر مہینے میں ایک بار اور پھر ہم اُنہیں بھول گئے۔
جب میں زندہ تھا۔ تو مردوں کو بھول جاتا تھا۔ لیکن آج میں خود اُس حالت کو پہنچ چکا ہوں۔ دن ہفتے اور مہینے گزرتے گئے اور میری مدد کے لئے کوئی نہ تھا۔ سوائے چند اعمال کے جو مجھے پہنچتے تھے۔ یا میرے والد، بھائیوں اور دوسرے رشتےداروں کا میری قبر پر آنا جو رفتہ رفتہ کم ہوتا گیا۔ زیادہ تر مجھے اپنی والدہ کی دُعا پہنچتی رہی۔ جو وہ تہجد میں میرے لئے کرتی رہی۔ بخدا وہ دُعا میرے لئے طمانیت کا باعث ہوتی تھی۔
نیک اعمال کا آنا کم ہوتاچلا گیا۔ نہ معلوم کیا وجہ تھی۔ کہ سورۃ المُلک کا آنا بھی بندہو گیا۔ میری قبر میں پھر اندھیرا چھا گیا۔ مجھے بعض گناہ یاد آئے۔ جو میں نے کئے تھے۔ ایک ایک دن اور ایک ایک گھڑی یاد آرہی تھی۔ مجھے اپنے گناہ پہاڑ کے برابر لگ رہے تھے۔ اپنے آپ کو ملامت کررہا تھا۔ کتنے گناہ ہیں۔ جو میں نے بڑی دلیری سے کئے تھے۔ کتنی نمازیں ہیں جو میری فوت ہو گئی ہیں۔ کتنی فجر کی نمازیں ہیں جو میں نے غفلت کی وجہ سے نہیں پڑھی ہیں۔
یہ سارے گناہ یاد کر کے میں اتنا رویا کہ مجھے ٹائم کا چونکہ اندازہ نہیں تھا۔ اس لئے اگر میں کہدوں، کہ مہینوں رویا ہوگا تو مبالغہ نہیں ہو گا۔
ایک دن اچانک ایسی روشنی آئی۔ جیسے سورج نکل چکا ہو۔ اور میں نے فرشتوں کی آوازیں سنیں۔ کہ وہ ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہو چکا ہے۔ کہ میرے پاس سورۃ المُلک آئی اور خوشخبری سُنا دی۔
سورۃ المُلک نے بتایا۔ کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع ہو گیا۔ اور یہ رحمت اور معافی کا مہینہ ہے۔ اور اس بہت سارے مُردے مسلمانوں کی دُعاﺅں کی برکت سے نجات پالیتے ہیں۔ میں بہت خوش ہوا۔ اللہ تعالیٰ انسانوں پر کتنا مہربان ہے۔ لیکن انسان ہے کہ گمراہی پر تُلاہوا ہے۔
سورۃالمُلک نے بتایا۔ کہ اللہ تعالیٰ کسی کو آگ میں نہیں ڈالنا چاہتا لیکن یہ انسانوں کی اپنی حماقت ہوتی ہے۔ کہ وہ ایسے گنا ہ کر جاتے ہیں۔ جو اُ کی سزا کا موجب ہوتے ہیں۔پھر اُس نے کہا۔ کہ اب تھوڑی دیر بعد مسلمان نماز پڑھیں گے۔ اور تم اُن کی آوازیں سنوگے۔
سورۃ المُلک چلی گئی اور میری قبر میں بدستور روشنی تھی۔ اور میں نے پہلی بار مسجد سے آنے والی آواز سُن لی۔ اپنی زندگی کو یاد کیا اور تراویح کو یاد کیا تو بہت رویا۔ میں نے سُنا کہ لوگ نماز پڑھ رہے ہیں۔ اور پھر مٰن نے امام کی دُعا سن لی۔ کہ وہ پڑھ رہا تھا۔
اللهم لا تدع لنا في مقامنا هذا ذنبا الا غفرته ولاهما الا فرجته ولا كربا الا نفستهولا مريضا الا شفيته ولا مبتليً الا عافيته ولا ميتا الا رحمته برحمتك يا ارحم الراحمين۔
اس دُعا سے مجھے بہت سکون ملا۔ اور میں نے تمنا کی۔ کہ امام دُعا کو طول دیدے۔اور میں نے محسوس کیا ، کہ وہ دعا سیدھی قبول ہورہی ہے۔ کیونکہ مجھے اُس سے کافی خوشی اور راحت مل رہی تھی۔ میں روتا جا رہا تھا۔ اور ساتھ ساتھ آمین پڑھتا جارہا تھا۔اس طرح رمضان کا سارا مہینہ بہت سکون اور راحت سے گزرا۔
اور پھر ایک دن میری قبرمیں انسان کی شکل میں ایک آدمی آیا۔ جس سے بہت تیز خوشبو آرہی تھی۔ میں حیران ہوا کیونکہ مرنے کے بعد یہ پہلا انسان تھا۔ جو میں دیکھ رہا تھا۔ اُس نے مجھے سلام کیا اور جواب میں وعلیکم السلام کہا۔ اُس نے کہا۔ میں تمہیں بشارت دیتا ہوں۔ کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے گناہ معاف کئے ہیں۔
میں نے کہا اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آپ کون ہیں؟ میں پہلی دفعہ قبر میں انسان کی شکل دیکھ رہا ہوں۔ اُس نے کہا میں انسان نہیں ہوں۔ میں نے پوچھا تو کیا آپ فرشتے ہیں بولا نہیں میں دراصل تمہارا نیک عمل ہوں۔ تمہاری نمازیں، تمہارے روزے، حج۔ انفاق فی سبیل اللہ اور صلہ رحمی وغیرہ وغیرہ کو اللہ تعالیٰ نے اس شکل میں تمہارے پاس بھیجا ہے۔
میں بہت خوش ہوا۔ اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ میں نے پوچھا تم اتنے لیٹ کیوں آئے؟
اُسنے کہا تمہارے گناہ اور تمہارے قرضے میری راہ میں رکاوٹ تھے۔ اور جب اللہ تعالیٰ نے معافی کا اعلان کردیا۔ تو میرے لئے راستہ کھل گیا۔
میں نے پوچھا ۔ تو کیا اس معافی کے بدلے میں اللہ تعالیٰ مجھے جنت دے گا؟
اُس نے کہا یہ بات اللہ تعالیٰ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا ۔ پھر اُس نے کہا قیامت کے دن میزان سے تمہاری جنت اور دوزخ جانے کا پتہ چلے گا۔
اُس کے بعد عمل صالح نے کہا۔ کہ تمہارے کچھ نیک اعمال بالکل زندگی کی آخری گھڑیوں میں کام آگئے۔ میں نے پوچھا وہ کیا ہیں؟
اُس نے کہا اگر تمہیں یاد ہو۔ تو مرتے وقت اللہ تعالیٰ نے تمہیں توفیق دی اور تم نے کلمہ تشہد پڑھا۔تمہیں اندازہ نہیں ہے۔ کہ فرشتوں کو کتنی خوشی ہوئی کہ تمہاری زندگی کا خاتمہ توحید پر ہوا۔ جبکہ شیطان تمہیں نصرانیت اور یہودیت کی تلقین کررہا تھا۔اُس وقت تمہارے اردگرد دوقسم کے فرشتے موجود تھے۔ ایک وہ جو مسلمانوں کی روحیں قبض کرتے ہیں اور کچھ وہ جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔جب تم نے کلمہ پڑھا۔ تو وہ فرشتے چلے گئے جو کافروں کی روحیں قبض کرتے ہیں۔ اور پھر اُنہوں نے تمہاری رُوح قبض کر لی۔
میں نے پوچھا ۔ اس کے علاوہ بھی کوئی نیکی ہے؟
اُ س نے کہا۔ ہاں جب تم نے ڈرائیور کو سگریٹ چھوڑنے کی نصیحت کی۔ تو آج جو خوشبو تم سونگھ رہے ہو۔ اُس نصیحت کی بدولت ہے۔ اس کے علاوہ اپنی والدہ کو تمہاری کال اور اُس کے ساتھ جو بھی تم نے باتیں کیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر بات کے بدلے تمہارے لئے نیکیاں لکھ دیں۔مجھے یاد آیا جو باتیں میں نے والدہ سے کی تھیں۔ مجھے پتا ہوتا تو میں اُن باتوں میں گھنٹہ لگا دیتا۔
پھرعمل صالح نے بتایا کہ زندگی کے آخری وقت میں ایک گناہ بھی تمہارے کھاتے میں لکھا گیا۔ میں حیران ہوا۔ اور پوچھا وہ کیسے؟
عمل صالح بولا۔ تم نےبچی سے کہا۔ میں تھوڑی دیر میں آجاﺅنگا۔ اس طرح تم نے اُسے جھوٹ بول دیا۔ کاش مرنے سے پہلے تم توبہ کر لیتے۔ میں رویا میں نے کہا اللہ کی قسم میراارادہ جھوٹ کا نہیں تھا۔ بلکہ میرا خیال یہ تھا کہ اس طرح وہ میرے آنے تک صبر کرلیگی۔
اُس نے کہا۔ جو بھی ہو۔ آدمی کو سچ بولنا چاہیے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ سچے لوگوں کو پسند کرتا ہے۔ اور جھوٹ بولنے والوں کو ناپسند کرتا ہے۔ لیکن لوگ اس میں بہت تساہل اور غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔
پھر اُس نے کہا۔ تمہاری وہ بات بھی گناہ کے کھاتے میں لکھدی گئی ہے۔ جو تم نے ائیرپورٹ میں کاﺅنٹر پر بیٹھے ہوئے شخص سے کہدی ۔ کہ اللہ تمہاراحساب کردے۔ اس طرح تم نے ایک مسلمان کا دل دُکھادیا۔ میں حیران ہو گیا۔ کہ اتنی اتنی معمولی باتیں بھی ثواب اور گناہ کا باعث بنی ہیں۔
عمل صالح نے مزیدبتایا: کہ یہ انسانوں پر اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا احسان ہے۔ کہ جب وہ ایک نیکی کریں۔ تو اللہ تعالیٰ اُسے 10گناہ بلکہ 700 گناہ بڑھا دیتا ہے۔اور بہترین اعمال وہ ہیں۔ جو اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہیں۔
میں نے کہا۔ پنج وقتہ نمازکے بارے میں کیا خیال ہے؟
عمل صالح نے کہا۔ کہ نماز، زکوۃ، صیام، حج وغیرہ تو فرائض ہیں ۔ میں ان کے علاوہ بھی تمہیں ایسے اعمال بتادوں گا۔ جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہیں۔
میں نے کہا ۔ وہ کیا ہیں؟
بولا تمہاری عمر جب 20سال تھی۔ تم عمرے کے لئے رمضان کے مہینے میں گئے تھے۔تم نے وہاں 100 ریال کی افطاری خرید کر لوگوں میں بانٹ دی۔ اس کا بہت اجر تم نے کمایا ہے۔
اس طرح ایک بار بوڑھی عورت کو کھانا کھلایا تھا۔ وہ بوڑھی ایک نیک عورت تھی۔ اُس نے تمہیں جو دُعائیں دی ۔ اُس کے بدلے اللہ تعالیٰ نے تمہیں بہت نیکیاں اور اجردیا ہے۔
میں تمہیں ایک اور بات بتادوں۔ ایک بار تم مدینہ جارہے تھے۔ کہ راستے میں تمہیں ایک آدمی کھڑا ملا۔ جس کی گاڑی خراب ہوئی تھی۔ تم نے اُس کی جو مدد کی ، اللہ تعالیٰ کو تمہاری وہ نیکی بہت پسند آئی اور تمہیں اُس کا بہت بڑا اجرملا ہے۔
اُس کے بعد میری قبر کھل گئی ۔اوراُس میں بہت زیادہ روشنی آگئی۔ اور فرشتوں کے گروہ درگروہ آتے ہوئے نظرآئے۔عمل صالح بھی. ذرا سوچئے!
یہ کہانی عبرت کے لئے لکھی گئی ہے ۔ لیکن احادیث مبارکہ کے بیان کےمطابق ہے۔
-کیا اس کہانی کے سننے کے بعد بھی ہم آخرت کے لئے فکرمند نہیں ہوں گے؟
– کیا اس کہانی کے بعد بھی ہم گناہ کریں گے؟

Kayamat ki pehchan

ایک دردناک کہانی

احباب سے گزارش ہے کہ مضمون کو پورا پڑھیں آپ کی آنکھیں بھی نم ھو جائیں گی بہت ہی ایمان افروز سچا واقعہ ہے ۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا

ایک دردناک کہانی

مسلمانوں کو زندہ جلانے والا آخر کار خود مسلمان ہو گیا۔
ایک دردناک کہانی

ذیل کے سطور میں ایک ایسے سنگ دل انسان کے قبولِ اسلام کی عبرت آموز داستان پیش کی جارہی ہے
جس نے اپنے بھائی کے ساتھ مل کر برادرزادی کو قبولِ اسلام کے جرم میں زندہ جلاکر اصحاب اخدود کی مثال قائم کی تھی ۔داستان دردو کرب ، عبرت ونصیحت اور خوشی وغمی کے امتزاج سے لبریز ہے ….
پڑھئے اور پڑھتے جائيے ۔

اگرميں يہ کہوں کہ جب سے دنیا قائم ہوئی ہے ۔
آج تک ميں دنیا کا ظالم ترین شخص ہوں ‘ بد ترین اور خوش قسمت ترین انسان ہوں تو يہ میرا بالکل سچا تعارف ہوگا ۔
ميں ضلع مظفر نگر کی ” بڑھنا “ تحصیل کے مسلم راج پوت اکثریت والے گاوں ميں اب سے تقریبا ًبیالیس تینتالیس سال قبل پيدا ہوا۔ میراگھر انہ نہایت مذہبی ہندو ‘ لیکن جرائم پیشہ تھا ۔
والد اور چچا جرائم پیشہ گروہ کے سرکردہ لوگوں میں سے تھے لوٹ مار اورظلم خاندانی طور پر گھٹی میں داخل تھا ۔
1987ميں میرٹھ کے فسادات کے موقع پر میں اپنے باپ کے ساتھ رشتہ داروں کی مدد کے ليے میرٹھ ہی رہا اور ہم دونوں نے کم از کم پچیس مسلمانوں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا ۔
اس کے بعد مسلم نفرت کے جذبہ سے متاثر ہوکر بجرنگ دل ميں شامل ہوا۔
بابری مسجد کی شہادت کے سلسلہ ميں 1990 ميں شاملی ميں کتنے مسلمانوں کو قتل کیا اسی طرح 1992 ميں” بڑھانہ “ ميں بہت سے مسلمانوں کو شہید کیا ۔
مگر تقدیر کے بھید بڑے نرالے ہيں،
آج ميں مسلمان ہوں ، میرے قبولِ اسلام کا واقعہ بڑا عجیب ہے : ميرے ایک بڑے بھائی تھے جنکی دو لڑکیاں اور دو لڑکے تھے ۔
اور مجھے کوئی اولاد نہيں ہے ۔
ان کی بڑی لڑکی کا نام ہیرا تھا۔
وہ عجیب دیوانی لڑکی تھی ‘ بہت ہی جذباتی ‘ جس سے ملتی بس دیوانوں کی طرح ‘ جس سے نفرت کرتی ‘ پاگلوں کی طرح ‘ کبھی کبھی ہميں يہ خیال ہو تا کہ شاید اس کے اوپر کوئی اثر ہے لہذا دیکھایا سنایا مگر اس کا حال جوں کا توں رہا ۔
آٹھویں کلاس کے بعد اس کی پڑھائی روک دی گئی مگر اس نے گھر والوں کی مرضی کے بغیر ہائی اسکول کا فارم بھر دیا اور آٹھ دن کھیتوں ميں مزدوری کی تاکہ فیس بھرے اور کتابيں منگوائے ، جب کتابيں اسے خود ہی سمجھ ميں نہ آئی تو گھر کے سامنے ایک برہمن کے گھر اسکی لڑکی سے پڑھنے جانے لگی۔
برہمن کا لڑکا بدمعاش اور ڈاکو تھا ۔ نہ جانے کس طرح میری بھتیجی ہیرا کو بہکایا اور اس کو لیکر” بڑوت “کے جنگل ميں جہاں اسکا گروہ رہتا تھا پہنچا ۔
وہ اس کے ساتھ چلی تو گئی مگر وہاں جاکر اسے اپنے ماں باپ کی عزت کا خیال آیا ‘ انکی بدنامی اور اپنی غلطی کا احساس ہوا تو چپکے چپکے روتی تھی۔
اس گینگ ميں ادریس پور کا ایک مسلمان لڑکا بھی تھا ۔
ایک روز اس نے اسے روتے ہوئے دیکھ کر اس کے رونے کی وجہ معلوم کی ۔
تو اس نے بتایا کہ ميں نادانی ميں اسکے ساتھ آتو گئی مگر مجھے اپنی عزت خطرے ميں لگ رہی ہے اور اپنے ماں باپ کی پریشانی مجھے یاد آرہی ہے۔
اسکو ہیرا پر ترس آگیا اور اس نے کہا ميں تجھے اپنی بہن بناتا ہوں ‘ ميں تیری عزت کی حفاظت کروں گا اور تجھے اس جنگل سے نکال کر صحیح سلامت تیرے گھر پہنچانے کی کو شش کروں گا ۔
اس نے تدبیر يہ نکالی کہ اپنے ساتھیوں سے کہا کہ يہ لڑکی تو بہت بہادر اور اپنے ارادے کی پکی معلوم ہوتی ہے۔
ہميں اپنے گروہ ميں ایک دو لڑکیوں کو ضرور شامل کرنا چاہيے۔ اکثر ہمیں اس کی ضرورت ہوتی ہے۔
اب جنگل ميں اس کو رکھنے کا طریقہ يہ ہے کہ اس کو لڑکوں کے کپڑے پہناؤ۔
اس کی بات سب ساتھیوں کو سمجھ ميں آگئی۔
ہیرا کوکپڑے پہناکر لڑکا بنایا گیااور اسے ساتھ لے کر پھرا جانے لگا۔
اب اس نے ایک روزہیرا کوکسی بہانے سے بڑوت بھجا اور ہیرا سے کہا کہ تو وہاں تانگہ ميں بیٹھ کر ہمارے گھر ادریس پور چلی جانا اوروہاں جاکر میرے چھوٹے بھائی سے ساراحال سنانا اور کہنا کہ تیرے بھائی نے بلایا ہے۔
اور اس کو بتادینا کہ وہ يہاں آکر يہ کہے کہ وہ لڑکی کو ”بڑوت“ والوں نے شک ميں پکڑ کر پولس کے حوالے کر دیاہے۔
ہیرا نے ایساہی کیا‘ اس کا بھائی جنگل ميں گیا اور اس نے اپنے بھائی سے جاکرکہا کہ اس لڑکی کو ” بڑوت “ والوں نے شک میں پکڑ کر پولس کے حوالے کر دیاہے ۔
اس نے اپنے بھائی سے کہا کہ ہےرا کو تھانے بھیج دو،اور وہ جاکر تھانے میں کہے کہ مجھے ایک گروہ گاوں سے اٹھا کر لے گیاتھا ۔ کسی طرح مےں چھوٹ کر آگئی ہوں ‘ مجھے اپنی جان کا خطرہ ہے ۔ ہیرانے ایساہی کیا۔
بڑوت تھانے والوں نے ” بڑھانہ “ تھانہ سے رابطہ کیا ‘ وہاں پر اس لڑکی کے اغواکرنے کی رپورٹ پہلے لکھی ہوئی تھی۔ ”بڑھانہ “ تھانے کے لوگ لیڈیز پولس لے آئے اور تھانے سے ہیراکو لے کر ہمارے گاوں آئے۔
ہم نے اسے گھر تو رکھ لیا مگر ایسی بدچلن لڑکی کو گھر کیسے رکھےں۔
لیکن ہیرا نے بتایا کہ اس نے اپنی عزت کی حفاظت کی ہے ۔
یقین کسی کو نہ آیا ‘ تو ڈاکٹری چیک اپ کے لیے اسے اسپتال اس نیت سے لے گیا کہ اگر با عفت ہوگی تو ٹھیک ورنہ مار کر” بڑھانہ“ ندی میں ڈال آئیں گے۔
اللہ کا کرناہوا کہ ڈاکٹر نے رپورٹ دی کہ اس کی عزت سلامت ہے۔ خوشی خوشی اس کو لے کر گھر آئے مگر و ہ اب مسلمانوں کا بہت ذکر کرتی تھی اور بار بار ایک مسلمان لڑکے کی وجہ سے اپنے بچ جانے کا ذکر کرتی تھی۔
وہ مسلمانوں کے گھر جانے لگی ۔
وہاں ایک لڑکی نے اسے ” دوزخ کا کھٹکا “ اور ” جنت کی کنجی “ نامی کتابیں دیں۔
مسلمانوں کی کتاب میں نے گھر میں دیکھا تو میں اسے بہت مارا اور خبردار کیا کہ اگر اس طرح کی کتاب میں نے گھر میں دیکھا تو تجھے کاٹ ڈالوں گا ۔
مگر اس کے دل مےں اسلام گھر چکا تھا ۔
اور اسلام نے اس کے دل کی اندھیری کوٹھری کو اپنے نور سے منور کردیاتھا۔
اس نے مدرسہ مےںجاکر ایک مولوی کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا اور چپکے چپکے نماز سیکھنے لگی اور وقتا فوقتا نماز پڑھنے لگی ۔ مسلمان ہونے کے بعد وہ شرک کے اندھیرے گھرانے میں گھٹن محسوس کرنے لگی ۔
وہ بالکل اداس اداس رہنے لگی ‘ ہر وقت ہنسنے والی لڑکی ایسی ہوگئی جیسے اس کا سب کچھ بدل گیا ہو۔
پھروہ کسی طرح پروگرام بنا کر گھر چھوڑ کر چلی گئی۔
ایک مولوی صاحب اس کو اپنی بیوی کے ساتھ” پھلت“ چھوڑ آئے ۔ کچھ دن مولوی کلیم احمد صدیقی کے گھر رہی پھر مولوی صاحب نے اس کو احتیاط کے طور پر دہلی اپنی بہن کے گھر بھیج دیا۔
وہاں اسے بہت ہی مناسب ماحول ملا ‘ اسے اپنے گھر والوں خصوصا اپنی ماں سے بہت محبت تھی۔
اس کی ماں بہت بیمار رہتی تھی ۔
ایک رات اس نے خواب میں دیکھا کہ اس کی ماں مر گئی ہے ۔
آنکھ کھلی تو ماں کی بہت یاد آئی ‘اگر ایمان کے بغیر اس کی ماں مر گئی تو کیا ہوگا یہ سوچ کر رونے لگی اور اسکی چیخیں نکل گئی۔
گھر کے سبھی لوگ اٹھ گئے ‘ اس کو سمجھایا ‘تسلی دیا ۔ وقتی طور پر وہ چپ ہو گئی مگر بار بار وہ خواب یاد کرکے روتی تھی ۔ بار بار وہ ماں کو یاد کرتی اور گھر جانے کی اجازت مانگتی مگر مولوی صاحب سمجھاتے کہ تمہارے گھر والے تمہیں زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
اور پھر تمہں ہندو بنا لیں گے۔
ایمان کے خطرہ سے رک جاتی مگر جب گھر کی یاد آتی تو گھر جانے کی ضد کرنے لگتی۔
بہت مجبور ہوکر مولوی صاحب نے اس کو اجازت دےدی۔
مگر سمجھایاکہ تم اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دینے کی نیت سے گھر جاو –
اور واقعی اگر تمہیں اپنے گھر والوں سے محبت ہے تو اس محبت کا سب سے ضروری حق یہ ہے کہ تم ان کو اسلام کی دعوت دو اور انکو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر کرو۔
ہیرا (جس کا نام اب حرا ءہو چکاتھا ) نے کہا کہ وہ تو اسلام کے نام سے ہی چڑھتے ہیں ‘ وہ ہرگز اسلام نیں قبول کرسکتے۔
مولوی صاحب نے اس سے کہا تم بھی تو اسلام سے اسی طرح چڑھتی تھی ‘
جس طرح اب شرک سے نفرت کرتی ہو۔
اللہ سے دعا کرو اور مجھ سے عہد کرو کہ تم گھر اپنی ماں اور گھر والوں کو دوزخ کی آگ سے بچانے کی فکر میں جارہی ہو اگر تم اس نیت سے جاوں گی تو اللہ تعالی تمہاری حفاظت کریں گے اور اگر تکلیف بھی ہوئی تو وہ تکلیف ہوگی جو ہمارے رسول کی اصل سنت ہے ۔
وہ دہلی سے پھلت اور پھر ہمارے گھر آگئی۔
ہم اسے دیکھ کر آگ بگولہ ہوگئے ۔
میں نے اسے جوتوں اور لاتوں سے مارا ۔
اس نے تو نیہں بتایا کہ کہاں رہی ؟
البتہ یہ بتایاکہ وہ مسلمان ہو گئی ہے اور اب اسے اسلام سے کوئی ہٹا نہےں سکتا ۔
ہم اس پر سختی کرتے تو الٹا ہمےں مسلمان ہونے کو کہتی ۔
اس کی ماں بہت بیمار تھی ۔
دو مہینے کے بعد وہ مر گئی تو وہ اس کو دفن کے لیے مسلمانوں کو دےنے کو کہتی اور وہ کہتی رہی کہ میری ماں نے میرے سامنے کلمہ پڑھا ہے ۔
اب روز ہمارے گھر مےں ایک فساد ہونے لگا ‘ کبھی وہ بھائیوں کو مسلمان ہونے کو کہتی تو کبھی باپ کو ‘ ہم لوگوں نے اسے میرٹھ اس کے نانےہال میں پہنچادیا ۔
اس کے ماموں بھی اس کی مسلمانیت سے عاجز آگئے اور انہوں نے اسکے والدکو اور مجھے بلایا کہ اسے ہمارے ےہاں سے لے جاو ہم لوگ روز ر وز کے جھگڑوں سے عاجز آگئے ہیں۔ اب میں نے بجرنگ دل کے ذمہ داروں سے مشورہ کیا ‘ سب نے اسے مار ڈالنے کا مشورہ دیا ۔
میں اسے گاوں لے آیا‘ ایک دن جاکر ندی کے کنارے پانچ فٹ گہرا گڑھا کھودا ۔
میں اور میرے بڑے بھائی (حراءکے والد) بُوا کے گھر کے بہانے اس کو لے کر نکلے ۔
اسے شاید اصل حقیقت کا علم ہو چکا تھا ‘ وہ نہائی ، نئے کپڑے پہنی اور ہم سے کہا کہ چچا!
آخری نماز پڑھنے دو ‘ جلدی سے نماز پڑھی اور خوشی خوشی دلہن سی بن کر ہمارے ساتھ چل دی ۔
کس دل سے پوری کروں یہ داستان ؟
مگرپوری تو کرنی ہے ، میرے تھیلے میں پانچ لیٹر پٹرول تھا ۔
ہم اس کو لیکر اس گڑھے کے پاس پہنچے جو ایک دن پہلے پروگرام کے تحت کھودا گیا تھا۔
مجھ جیسے درندہ صفت چچا نے یہ کہہ کر اس پھول سی بچی کو اس گڑھے میں دھکا دے دیا کہ تو ہمیں جہنم کی آگ سے کیا بچائے گی توخود نرگ کا مزہ چکھ ۔
گڑھے میں دھکا دیکر میں نے اس کے اوپرسارا پٹرول ڈال دیا اور ماچس جلا دیا ۔
میرے بھائی( حراءکے والد) بس روتے ہوئے اس کو کھڑے دیکھتے رہے ‘ جلتی ہوئی ماچس کی تیلی جب اس پر لگی تو آگ اس کے نئے کپڑوں میں بھڑک اٹھی‘اس حال میں اس نے ہاتھ آسمان کے طرف اٹھاے اور چیخی:
” میرے اللہ !
آپ مجھے دیکھ رہے ہےں نا!
میرے اللہ !
آپ مجھے دیکھ رہے ہیں نا!
میرے اللہ !
آپ مجھ سے محبت کرتے ہیں نا!
اپنی حراءسے بہت پیار کرتے ہیں نا‘
ہاں میرے اللہ!
آپ غار حراءسے بھی محبت کرتے ہیں ‘ اور گڑھے میں جلتی حراءسے بھی محبت کرتے ہیں نا‘ آپ کی محبت کے بعد مجھے کسی کی محبت کی ضرورت نہیں“ ۔
اس کے بعد اس نے زور زور سے کہنا شروع کیا :
ابّا! اسلام ضرور قبول کرلینا ‘
مسلمان ضرور ہو جانا‘
چاچا!
مسلمان ضرور ہو جانا‘
اس پر مجھے غصہ آگیا اور میں بھائی صاحب کا ہاتھ پکڑ کر چلا آیا ۔ بھائی صاحب مجھ سے کہتے رہے کہ ایک بار اور سمجھا کر دیکھ لیتے ‘ مجھے ان پر غصہ آیا۔
بعد مےں واپس آتے ہوئے ہم نے گڑھے کے اندر سے زور زور سے ” لاالہ الا اللہ “
کی آوازیں آتی سنی ‘
ہم اپنے مذہبی فریضے کو ادا کرکے چلے آئے مگر اس کے ایمان ویقین میں ڈوبے آخری الفاظ میرے پتھر دل کے ٹکڑے ٹکڑے کر گئے۔
حراءکے والد آکر بیمار ہو گئے ‘ ان کے دل میں صدمہ سا بیٹھ گیااور وہ بیماری ان کے لیے جان لیوا ثابت ہو ئی۔
مرنے کے دو دن پہلے انہوں نے مجھے بلایا اور کہا کہ میں نے زندگی میں جو کچھ کیا مگر اب میری موت ہیرا کے دھرم پر جائے بغیر نہیں ہو سکتی۔
تم کسی مو لوی کو بلا لاو۔ میں بھی بھائی صاحب کی حال کی وجہ سے ٹوٹ گیا ۔
میں مسجد کے امام صاحب کو لے آیا ۔
انہوں نے ان کو کلمہ پڑھاکر ان کا نام عبد الرحمن رکھا ۔
بھائی صاحب نے مجھ سے کہا کہ مجھے مسلمانوں کی طرح مٹی دینا۔
میرے لیے یہ بہت مشکل تھامگر میں نے بھائی کی آخری خواہش پوری کرنے کے لیے ان کو علاج کے بہانے دہلی لے گیا ‘وہاں ایک ہاسپیٹل میں داخل کیا ۔
اسپتال میں ہی انکی موت ہوئی ۔
وہ بہت اطمینان سے مرے ‘ ہمدرد کے ایک ڈاکٹر سے یہ حال سنایا تو انہوں نے کچھ مسلمانوں کو بلاکر انکے دفن کا انتظام کیا۔
مگر بھائی کے مسلمان ہو کر مرنے کا مجھے بہت دکھ تھا اور یہ یقین ہو گیا کہ میری بھابھی بھی مسلمان ہوگئی ہوگی تھی ۔
مجھے ایسالگا کہ کسی مسلمان نے میرے گھر پر جادو کردیا ہے اور وہ دلوں کو باندھ رہا ہے کہ ایک ایک کر کے سب اپنے دھرم کو چھوڑ کر مسلمان ہو کر مر رہے ہیں۔ اس تعلق سے میں نے بہت سے جیوتشیوں سے بات کی۔
میں ایک تانترک کی تلاش میں ”شاملی “سے ” اون “ جا رہا تھا، بس مےں سوار ہوا تو بس کسی مسلمان کی تھی اور ڈرائیوربھی مسلمان تھا۔
اس نے ٹیپ میں قوالی چلا رکھی تھی ” بڑھیا “ نام کی قوالی تھی ۔اس میں ہمارے نبی کو ایک بڑھیا کے ستانے ‘ لیکن آپ کا اس کے ساتھ اچھے سلوک ، اس کو سمجھانے اور پھر بڑھیا کے مسلما ن ہوجانے کا قصہ تھا۔
اسپےکر میرے سر پر ہی تھا۔اس قوالی نے میری سوچ ہی بدل دی۔ مجھے خیال ہوا کہ جس نبی کا یہ قصہ ہے وہ جھوٹا نہیں ہو سکتا ۔
میں ” اون “ کے بجائے ” جھنجھانہ “ اتر گیا ۔اور خیال ہوا کہ مجھے اسلام کے بارے مےں پڑھنا چاھیے ‘اس کے بعد شاملی کی بس میں بیٹھ گیا ۔
اس میں بھی ٹیپ بج رہا تھا۔
پاکستان کے مولانا قاری حنیف صاحب کی تقریر تھی ‘ مرنے اور مرنے کے بعد کے حالات پر تقریر مشتمل تھی۔
مجھے ” شاملی “ اترنا تھا مگر تقریر ابھی مکمل نہ ہوئی تھی‘ شاملی بس اسٹاپ پر پہنچ کر ڈرائیور نے ٹیپ بند کردیا ۔
میں نے تقریر سننے کے لےے مظفر نگرکا ٹکٹ لے لیا مگر ” بگھرا“ پہنچ کر وہ تقریر ختم ہو گئی۔
اس تقریر نے اسلام سے میرے فاصلے کو بہت کم کر دیا ۔
میں بڑھانہ روڈ پر اتر کر گھر جانے کے لےے دوسری بس میں سوار ہوگیا ۔
اس بس میں مجھ سے قریب ایک مولوی صاحب بیٹھے ہوئے تھے‘ ان سے میں نے کہا کہ میں اسلام کے بارے میں کچھ پڑھنا چاہتاہوں اور اسلام کے بارے میں معلومات حاصل کرنا چاہتاہوں ‘
آپ اس سلسلہ میں میری مدد کریں
‘ انہوں نے کہا آپ پھلت جاکر مولوی کلیم صدیقی سے ملیں۔ میں نے پھلت کا پتہ معلوم کیا اور گھر جانے کے بجائے پھلت پہنچا۔ مولوی کلیم صدیقی موجود نہیں تھے‘ اگلے روز صبح کو آنے والے تھے۔
رات کو ایک ماسٹر صاحب نے مجھے مولوی کلیم صدیقی کی کتاب ” آپ کی امانت آپ کی سیوا میں “ دیا ۔ اس کتاب کی زبان اور دل کو چھو لینے والی باتوں نے مجھے شکار کرلیا ۔
مولوی صاحب صبح سویرے کے بجائے اگلے دن شام کو پھلت آئے ۔ میں نے مغرب کے بعد ان سے مسلمان ہونے کی خواہش کا اظہار کیا اور کہا میں اسلام کے بارے میں معلومات کرنے آیا تھا مگر آپ کی امانت نے مجھے شکار کر لیا ۔
مو لوی صاحب بہت خوش ہوئے ۔ ۳۱ جنوری ۰۰۰۲ ءکو مجھے کلمہ پڑھایا اور میرا نام عبداللہ رکھا ۔
رات کو میں وہی رکا ‘ میں نے مولوی صاحب سے ایک گھنٹے کا وقت مانگا ۔ اور اپنے ظلم وبربریت کے ننگے ناچ کی کہانی سنائی۔ مولوی صاحب نے مجھے تسلی دی کہ اسلام پچھلے سارے گناہوں کو ختم کر دیتا ہے۔
مگر میرے دل کو اطمینان نہ ہوا کہ اس درجہ سفاکی اور بربریت کو کس طرح معاف کیا جا سکتاہے۔
مولوی صاحب مجھ سے کہتے رہے کہ قبول اسلام سے پچھلے سارے گناہ معاف ہو جاتے ہےں۔
آپ اپنے دل کے اطمینان کے لیے اب کچھ مسلمانوں کی جان بچانے کی کوشش کریں ۔
قرآن کا فرمان ہے کہ نیکیاں گناہوں کو زائل کر دیتی ہے
( اِنَّ ال ±حَسَنَاتِ یُذ ±ھِب ±نَ السَّیِّئَات )
میں اپنے دل کی تسلی کے لیے کوشش کرتاہوں کہ کسی حادثہ میں یا بیماری میں ‘ کوئی مسلمان مر رہا ہے تو اسے بچاوں۔
میں نے گاوں کے مکانات اور زمینیں سستے داموں میں فروخت کی اور دہلی میں مکان لیا ۔
بیوی اور دو بھتیجیوں اور حراءکی بہن کو تیار کیا اور پھلت لے جاکر کلمہ پڑھوایا ۔
میرا دل ہر وقت اس غم میں ڈوبا رہتا ہے کہ اتنے سارے مسلمانوں اور پھول سی بچی کا سفاکی سے قتل کرنے والا کس طرح معافی کامستحق ہے۔
مولوی صاحب نے مجھے قرآن شریف پڑھنے کو کہا اور خاص کر سورة بروج کو بار بار پڑھنے کو کہا ‘
اب مجھے وہ زبانی یاد ہے، مجھے ایسا لگاکہ غیب کے جاننے والے اللہ نے اس میں ہمارا ہی نقشہ کھینچا ہے۔
( سورة البروج: ۴۔۹) اس سورہ کو پڑھیں اور حراء کی تڑپا دینے والی آخری صداؤں پر غور کریں ۔

(بشکریہ ماہنامہ ”ارمغان“ فروری 2011ء )