Allah kay baghi ki toba

وہ ایک مسلمان تھا لیکن اللہ کا باغی تھا, شب بھر جام پر جام چھلکانا پھر دن بھر اس کے نشے میں مست رہنا ہی شاید اسکی زندگی کا مقصد تھا, ایک طرف خدا کی نعمتیں بڑھتی جاتی تھی تو دوسری طرف شراب و کباب کی مستی انگ انگ میں اترتی جاتی تھی. اس کے پاس ایک بہت بڑی نعمت اسکی ایک کم سن بیٹی تھی. اس بچی میں گویا اس کی جان تھی. یہ شراب کے نشے میں مست ہوتا اس کی بیٹی گلاس اس سے چھین لیتی کبھی چھینتے جھپٹتے گلاس ٹوٹ بھی جاتا لیکن یہ اپنی بے لوث محبت کی وجہ سے برا نا مانتا,
رب کی کرنی رب ہی جانے یہ بچی کم سنی میں ہی وفات پاگئی اور اس شخص کی دنیا اندھیر ہوگئی, وہ جو ایک روکنے والی تھی وہ بھی چلی گئی اب تو یہ شتر بے مہار ہوگیا.
اسی عرصے میں ایک رات یہ دھت نشے میں بھرا سوگیا اس نے خواب دیکھا کہ روز حشر قائم ہوچکا ہے اور نفسی نفسی کا عالم ہے ایسے میں اسے ایک اژدھا نظر آیا جو تیزی سے اسکی طرف بڑھا چلا آرہا تھا اور قریب تھا کہ اسے نگل لے, یہ منظر دیکھ کر اس پر ایک دہشت طاری ہوگئی اور اس نے اندھا دھند دوڑنا شروع کردیا,
آگے ایک سفید ریش بزرگ اجلے سفید لباس میں نظر آئے, انہیں دیکھ کر اس گناہگار کی کچھ ڈھارس بندھی اور اس نے اپنی فریاد ان کے آگے پیش کی. وہ بزرگ بے بسی کی عملی تصویر بن گئے اور کہنے لگے “بیٹا میں بہت کمزور ہوں اور یہ بہت طاقتور, میری طاقت نہیں کہ اسے روک سکو, لیکن تو بھاگا چلا جا کہ شاید آگے کوئی تیری فریاد رسی کو موجود ہو” یہ سن کر یہ شخص اور تیز بھاگنے لگا اب وہ اژدھا اس کو مزید قریب محسوس ہونے لگا تھا لیکن اسے جائے فرار نظر نا آتی اور اسے یقین تھا کہ اب یہ اژدھا لپک کر مجھے اچک لے گا کہ اسی دوران دوبارہ اسے وہ بزرگ نظر آئے اور دوبارہ ان سے وہی مکالمہ ہوا اور انہوں نے آگے بھاگتے رہنے کا مشورہ دیا.
غرض کے گرتے پڑتے بھاگتے دوڑتے وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا, اوپر چڑھتے ہی اسے نیچے وادی میں جھنم کے دہشتناک مناظر نظر آئے لیکن وہ شخص اس اژدھے سے اس قدر ہیبت زدہ تھا کہ قریب تھا وہ جھنم میں گر جائے لیکن اسے پرواہ نہ تھی, اچانک اسے کسی چیکھنے والے کی آواز آئی کہ یہ ان جھنمیوں میں سے نہیں ہے, وہ اس ٹیلے سے پیچھے ہٹا تو پھر سے وہی بڑے میاں نظر آئے اور اب جو مکالمہ ہوا تو وہ رونے لگے کہ تو نے مجھے اتنا ضعیف کردیا ہے کہ میں اس سانپ کو بھگا نہیں سکتا لیکن یہ سامنے دوسری پہاڑی ہے اس پر چڑھ جا شاید کے وہاں تیری کوئی امانت ہو اور آج تجھے کام دے دے. یہ شخص اس پہاڑی پر چڑھ گیا وہ ایک گول پہاڑی تھی جس میں چھوٹے چھوٹے سونے چاندی کے خوبصورت طاقچے بنے ہوئے تھے وہاں کسی نے آواز لگائی کہ دیکھو اس شخص کی یہاں کوئی امانت تو موجود نہیں ہے ؟ یہ سنتے ہی وہ کھڑکیاں کھلنا شروع ہوئی اور چاند جیسے بچے نکلنا شروع ہوئے. اتنے میں کسی نے آواز لگائی ارے جلدی کرو وہ سانپ تو بالکل قریب پہنچ گیا ہے. یہ سنتے ہی جوق در جوق بچے ان کھڑکیوں سے نکلنا شروع ہوئے. انہی میں اس کی دو سالہ بیٹی بھی جس نے لپک کر اپنے والد کو تھام لیا اور ہاتھ بڑھا کر اس بڑے سانپ کو بھگا دیا.
پھر اسکی یہ بیٹی اس کی گود میں بیٹھ کر اپنے اباجان کی داڑھی سہلانے لگی اور یوں گویا ہوئی
“الم يان الذين امنوا ان تخشع قلوبهم لذكر الله”
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ایمان والو کے دل اللہ کی یاد سے ڈر جائے.
یہ سن کر یہ شخص رونے لگا پھر اس اژدھے اور بزرگ کے متعلق استفسار کیا کہ یہ کون تھے. بیٹی نے بتایا کہ وہ سانپ آپ کے برے اعمال تھے جو قریب تھا کہ آپ کو جھنم میں گرا دیتے اور وہ بزرگ آپ کے اچھے اعمال تھے جو اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ اس سانپ سے آپ کو بچا نہیں پا رہے تھے.
اس شخص نے خواب سے بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کی اور اپنے وقت کے اولیاء اللہ میں ان کا شمار ہوا.
آپ جانتے ہیں یہ کون تھے ؟
یہ حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ تھے. جنکی بیٹی حقیقتا ان کے لئے باعث فخر تھی.

Beti ki Parwarish – Janat ki Zamin

بیٹی کی پرورش ، جنت کی ضامن
لڑکی کو زندہ درگورکر دینے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اسے عملی طور پر زمین میں دفن کر دیا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا مذموم عمل تھا بلکہ لڑکی کی پیدائش پر رنج و غم کرنا اور حقیر و ذلیل سمجھ کر اس کی طرف کوئی توجہ نہ دینا اور اس کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت سے چشم پوشی کرنا بھی اسے زندہ دفن کرنے کے مترادف ہے۔ اسلام نے اس کی سخت مذمت کی ہے اور اسے ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے اور لڑکی کی پرورش و پرداخت اور اچھی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنے اور اسے اعلیٰ اخلاقی قدروں سے آراستہ کرنے اور بلند عادات و اطوار سے مزین کرنے کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ اسےکارِثواب اور حصولِ جنت کا ذریعہ قرار دیا۔ حضرت ابو سعدی خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جس نے 3 لڑکیوں کی پرورش کی ، ان کی اچھی تربیت کی ، ان سے حسن سلوک کیا پھر ان کا نکاح کردیا تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی” (ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جس شخص کے یہاں بچی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر زندہ درگور نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر و ذلیل سمجھا اور نہ لڑکوں کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اسی شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا”
(ابوداؤد)
ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ” میرے پاس ایک عورت آئی۔ اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں ، وہ مجھ سے کچھ مانگنے کے لئے آئی تھی۔ اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ نہیں تھا وہی میں نے اس کو دے دی۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اس نے کھجور کو ان دونوں بچیوں میں تقسیم کردیا اور خود کچھ نہیں کھایا۔ اس خاتون کے چلے جانے کے بعد کچھ دیر بعد رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کا سارا حال سنایا کہ باوجود بھوکی رہنے کے اس نے بچیوں کو ترجیح دی” یہ سن کر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“جو شخص لڑکیوں کے بارے میں آزمایا جائے یعنی اس کے یہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرے ، انہیں بوجھ نہ سمجھے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی” (مشکوۃ شریف)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں ” انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “تو میں اور وہ اس طرح جنت میں داخل ہوں گے”
جس طرح ایک بچی کی پیدائش رحمتِ خدا وندی کی خوشخبری لے کر آتی ہے اور اس کی پرورش والدین کے لئے جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے اسی طرح اس کی عمدہ تعلیم و تربیت بھی جنت کی عظیم نعمتوں کی بشارت سناتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ “جس شخص نے 3 لڑکیوں یا 3 بہنوں کی سرپرستی کی اور ان کے ساتھ شفقت و محبت کا معاملہ کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں بے نیاز کردے تو ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ جنت واجب کر دیتا ہے”
اس پر کسی نے دریافت کیا کہ اگر 2 ہی ہوں تو آپ نے فرمایا:”2 لڑکیوں کی سرپرستی پر بھی یہی ثواب ملے گا “(بخاری)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“جو لڑکیوں کے بارے میں آزمایا جائے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو وہ لڑکیاں ان کے لئے جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی” (مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو اور وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی اس پر بارش کرے اور تعلیم و تربیت اور حسنِ ادب سے بہرہ ور کرے تو میں خود ایسے شخص کے لئے جہنم کی آڑ بن جاؤں گا” (بخاری)
اسلام نے لڑکیوں کو اچھی طرح پرورش کی ترغیب دیکر لوگوں کے قلوب اور اذہان میں یہ تصور پختہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت بے قیمت اور بے حیثیت نہیں ہوتی بلکہ وہ تو قدرت کا گراں مایہ عطیہ ہے۔ اس میں مردوں کے مقابلے میں انس و محبت ، ہمدردی و غمخواری بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اسی لئے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” لڑکیوں سے نفرت مت کرو ، وہ تو بڑی غم خوار اور بڑی قیمتی ہیں ” (مسند احمد)

Whenever you see a sick person or suffering from a calamity

Whenever you see a sick person or suffering from a calamity .also in hospitals.

حضرت ابو ہریره رضی الله عنه سے روایت ہے که رسول الله صلی الله علیه وسلم نے فرمایا: جو کسی مصیبت میں مبتلا شخص کو دیکھے تو کہے
اَلْحَمْدُ للهِ الَّذِیْ عَافَانِیْ مِمَّا ابْتَلَاکَ بِهِ وَ فَضَّلَنِیْ عَلٰی کَثِیْرٍ مِمَّنْ خَلَقَ تَفْضِیْلًا۔۔
سب تعریف الله کے لیے ہے جس نے مجھے اُس سے عافیت دی جس میں تجھے مبتلا کیا اور مجھے اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت عطا کی۔
اس کو وه مصیبت کبھی نه پہنچے گی۔
(سنن الترمذی: 3432) صحیح

Imam e Haram ki Khitab Urdu Translation

امام حرم کی عربی تحریر کا اردو میں ترجمہ بسم اللہ الرحمن الرحیم تمام تعریف اس خدا کے لیے جو سارے جہاں کا پالنہار ہے، اور صلاة وسلام نازل ہو ،ہمارے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، ان کی آل والاد اور ان کے تمام صحابہ پرـ أما بعد: اللہ تبارک وتعالی کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے کہ اس نے مجھے اسلام کی ایک عظیم الشان یونیور سیٹی ”دارالعلوم دیوبند “کی زیارت ،اس کی عظیم الشان مسجد ”جامع رشید” میں نماز پڑھنے، اس کے علما وطلبا سے ملاقات کرنے اور ان کے مابین کچھ کھنے کا موقع مرحمت فرمایاـ ھمارے دلی احساسات وجذبات اس جامعہ اور اس کے علما پر پورے طور پر صادق آتے ھیں: آپ کی ملاقات سے قبل ہی ھمارے دلوں میں آپ کی محبت سمائی ھوئی تھی اور قلب وجگر آپ کی محبت سے سرشار تھاـ اس جامعہ کی شہرت چہار دانگ عالم میں ہے اور اس کا فیض دنیا کے گوشے گوشے میں جاری وساری ہے ـ اس جامعہ کے فضلا اور ان کی تصنیفات ہر جگہ پائ جاتی ہیں اور اس کی روشنی زمان ومکان کی حدود کی بلندیوں سے آگے بڑھ گئ ہے ـ کتاب اللہ، سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اس کے علوم و فنون پر جامعہ کی توجہات ہی در اصل اس کی کامیابی کا سب سے بڑا راز ہے ـ خوف خدا کی تلقین کے بعد اس منھج کو اور رشد وہدایت اور فلاح وکامرانی کے اسباب کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا حکم کرتا ہوں اور وہ کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ہیں ـ میں ن سطور میں ان احساسات وجذبات کو قلمبند کررہاھوں جو مجھے اپنے بھائیوں، استقبال اور مہمان نوازی کرنے والوں کی جانب سے ملےـ اللہ تعالی اپنے فضل کو ان پر ہمیشہ قائم ودائم رکھے اور ان کو مینارء رشدو ہدایت بنائے ـ (آمین. ثم آمین) الحمد لله اولا و آخرا، وصلى الله على نبينا محمد و آله وصحبه. وكتبه/ صالح بن محمد آبراهيم آل طالب إمام وخطيب المسجد الحرام ١٤٣٧/٦/٢٦ ھ دیوبند ــ الھند

Imam e Kaaba ka Deo Band may khitab

دارالعلوم میں شیخ کے خطاب اور دورہ کا خلاصہ احوال اگر آپ پڑھنا چاہیں: دارالعلوم دیوبند نے ہرمیدان میں اسلام کی آبیاری اور ملت کی ترجمانی کی ہے عالم اسلام میں دارالعلوم دیوبند کی وسیع ترین لازوال خدمات کی ایک زریں تاریخ ہے،اس حرم ہندی نےملت اسلامیہ کو ہزاروں علماءو اتقیاء،مصنفین و قلمکارنیزداعیان دین ومبلغین اسلام ودیعت کی ہے،جنہوں نےہر محاذپر اسلام کےدفاع کا فریضہ انجام دیاہے،عالمی سطح کے اس مثالی ادارے نے ہرموقع پروراثت نبوی کے تحفظ کےلئے حتی المقدور جد وجہد کی ہے،ان خیالات کا اظہارعالم اسلام کی عظیم شخصیت کعبۃ اللہ کے امام و خطیب سماحۃ الشیخ صالح بن محمدآل طالب نےدارالعلوم دیوبندکی زیارت کےموقعہ پرجامع رشیدمیں علماءوطلباء نیزعوالناس کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئےسمندر سے خطاب کرتے ہوئےفرمایا،رئیس الجامعۃ مفتی ابوالقاسم صاحب نعمانی کی عدم موجودگی میں مولانا عبد الخالق صاحب مدراسی کی صدارت میں منعقدہ پروگرام سےامام محترم نےبین المسالک اتحاد کاپیغام دیتے ہوئے سبھی ائمہ کوبھائی بھائی بتلایا،فقہی مسالک کے تعدد کومسلمانوں کےلئےرحمت اور کماحقه عمل کرنےمیں سہولت کاذریعہ قراردیا،آپ نے فرمایاکہ مملکت سعودیہ کا نصب العین عالم اسلام سمیت ساری دنیامیں امن و آشتی اور سلامتی نیزساری دنیاکے مسلمانوں تحفظ کویقینی بناناہے، اور مملکت کےبادشاہ خادم الحرمین الشریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز آل سعود عالم اسلام سے روابط قائم کرنے،باہمی ربط کو استحکام بخشنے اور دنیابھر سے دہشت گردی و فتنہ پروری کاخاتمہ کرنے میں اپنی تمام ترتوانائیاں صرف کررہےہیں کیونکہ اسلام دہشت گردی و مظلوموں کےقتل وغارت گری سےپاک مذھب ہے،امام مکی نےحضرات صحابہ کی عصمت ومرکزیت کااعتقاد ہرمسلمان کےلئے ضروری قرار دیاکیونکہ حضرات صحابہ کی مرکزیت میں شک وشبہ قرآن و حدیث نیز دین محمدی میں ہی شک کرنےکےمترادف ہے،وہابیت کےنام پراہل سنت والجماعت کوجس طریقہ سے لعن و طعن کیاجاتاہے،ضیف مکرم نےاسےگھٹیا اور مذموم نیزمسلمانوں میں تفرقہ پیدا کرنےکی ناپاک حرکت گردانا، آپ نےفرمایاکہ کچھ بیرونی عناصر مستقل اسلام کی شبیہ داغدار کرنےکی کوشش کررہےہیں،اسلام دشمن طاقتوں کے ساتھ مل کر اسلام کے دامن کو چاک کرنےپربضد ہیں،ایسے نازک ترین حالات میں عالمی اتحاد پہلےسےزیادہ ضروری ہوگیاہے،اسی لئےمملکت نے عالم اسلام کاعسکری اتحاد کروایاہے،ساری دنیا کے مسلمانوں کایہ دینی فریضہ ھیکہ ان قوتوں سے سےمتحد ہوکرنمٹاجائے،امام محترم نے شیخ ارشد مدنی کاخصوصی شکریہ اداکیااوربین المسالک اتحاد کے امور پرگفت شنید کے لئے ہونے والے پروگرام میں ان کی شرکت کی اطلاع دی،اخیر میں انہوں نے خادم الحرمین الشریفین کے سلام و محبت کاگلدستہ ہندی مسلمانوں کو پہونچایا،اور خالصتاًاللہ کی نسبت پرقائم اس باہمی محبت کو ساری دنیامیں ترویج دینا وقت کی ضرورت قراردیا،اس ادارے میں اپنی آمداور یہاں ملےبےمثال استقبال وپیارکواپنےلئےمسرت وسعادت کاذریعہ بتایا،اور پرسوژ دعاء پرخطاب کا اختتام کیا،امام صاحب کےعلاوہ وفد کے دیگر مہمانوں نےبھی دارالعلوم دیوبند میں آمد وزیارت پرمسرت و شادمانی کااظہار کیا.،امام محترم کےخطاب کی حرف بحرف ترجمانی کے فرائض رابطہ مدارس اسلامیہ کےناظم عمومی مولاناشوکت صاحب بستوی نے بحسن و خوبی انجام دئیے،قبل ازیں اجلاس کاافتتاح صدر القراء قاری عبد الرؤف صاحب بلند شہری استاذ تجوید و قرات کی مسحورکن تلاوت سے ہوا، نظامت کےفرائض مولاناعارف جمیل المدنی استاذعربی ادب جامعہ ھذا نےاداکئے،نیزصدر محترم کی درخواست پرشیخ صالح نے اپنےمخصوص جادوئی لہجے میں چندآیتوں کی تلاوت بھی کی،اجلاس کےاختتام پرامام محترم نےظہر کی نمازکی قصراًامامت بھی کی،بعدہ جامعہ کےمہمان خانے میں دارالعلوم کی جانب سے دیئےگئےپرشکوہ ظہرانہ میں شرکت فرمائی،اورپھر بذریعہ ہیلی کاپٹر دہلی کے لئے روانہ ہوگئے،قبل ازیں امام محترم کی آمد پر طلبہ دارالعلوم کی جانب سے پرسکون،باوقار، پرلحاظ اورپرجوش استقبال کانظارہ دیدنی تھا،ہرکوئی مہمان مکرم کی راہوں میں بچھنےکےلئےتیارتھا ،مقامی انتظامیہ نے سیکوریٹی کے نہایت پختہ اور سخت بندوبست کئےتھے،حضرات اساتذہ و رضاکار طلبہ بھی مفوضہ خدمات کی انجام دہی کے لئے مستعد تھے، اخیر میں امید کامل ھیکہ قائد جمعیت مولاناارشد مدنی کی ایماء پر امام محترم کایہ امن و خیرسگالی پرمبنی دورہ انشاءاللہ ملت کےحق میں مفیدوتاریخ سازثابت ہوگا۔

Aurat Ki Azadi Ki Misal

آزادی بھیڑیوں نے بکریوں کے حق میں جلوس نکالا کہ بکریوں کو آزادی دو بکریوں کے حقوق مارے جا رہے ہیں انہیں گھروں میں قید کر رکھا گیا ہے ایک بکری نے جب یہ آواز سنی تو دوسری بکریوں سے کہا کہ سنو سنو ہمارے حق میں جلوس نکالے جا رہے ہیں چلو ہم بھی نکلتے ہیں اور اپنے حقوق کی آواز اٹھاتے ہیں ایک بوڑھی بکری بولی بیٹی ہوش کے ناخن لو یہ بھیڑئے ہمارے دشمن ہیں ان کی باتوں میں مت آو مگر نوجوان بکریوں نے اس کی بات نہ مانی کہ جی آپ کا زمانہ اور تھا یہ جدید دور ہے اب کوئی کسی کے حقوق نہیں چھین سکتا یہ بھیڑئے ہمارے دشمن کیسے یہ تو ہمارے حقوق کی بات کر رہے ہیں بوڑھی بکری سن کر بولی بیٹا یہ تمہیں برباد کرنا چاہتے ہیں ابھی تم محفوظ ہو اگر ان کی باتوں میں آگئی تو یہ تمہیں چیر پھاڑ کر رکھ دیں گے بوڑھی بکری کی یہ بات سن کر جوان بکری غصے میں آگئی اور کہنے لگی کہ اماں تم تو بوڑھی ہوچکی اب ہمیں ہماری زندگی جینے دو تمہیں کیا پتہ آزادی کیا ہوتی ہے باہر خوبصورت کھیت ہونگے ہرے بھرے باغ ہونگے ہر طرف ہریالی ہوگی خوشیاں ہی خوشیاں ہونگی تم اپنی نصیحت اپنے پاس رکھو اب ہم مزید یہ قید برداشت نہیں کرسکتیں یہ کہ کر سب آزادی آزادی کے نعرے لگانے لگیں اور بھوک ہڑتال کردی ریوڑ کے مالک نے جب یہ صورتحال دیکھی تو مجبورا انہیں کھول کر آزاد کردیا بکریاں بہت خوش ہوئیں اور نعرے لگاتی چھلانگیں مارتی نکل بھاگیں مگر یہ کیا؟؟؟؟ بھیڑئیوں نے تو ان پر حملہ کردیا اور معصوم بکریوں کو چیر پھاڑ کر رکھ دیا آج عورتوں کے حقوق کی بات کرنے والے درحقیقت عورتوں تک پہنچنے کی آزادی چاہ رہے ہیں یہ ان معصوموں کے خون کے پیاسے ہیں انہیں عورتوں کے حقوق کی نہیں اپنی غلیظ پیاس کی فکر ہے کاش کہ کوئی سمجھے!!!!!!!

Aka ki nisbat

آقا علیہ الصلوۃ والسلام کی نسبت کا کمال ————– ابنِ جوزیؒ روایت کرتے ھیں کہ ھرات میں ایک سادات فیملی تھی۔ خاتون جوانی میں بیوہ ھو گئیں۔ بچیوں والی تھیں۔ تنگ دستی آئی تو انہوں نے سمرقند کی طرف ھجرت کی۔ وھاں پہنچیں تو لوگوں سے پوچھا کہ یہاں کوئی سردار، کوئی سخی ھے؟ لوگوں نے بتایا کہ یہاں دو سردار ھیں، ایک مسلمان ھے اور ایک آتش پرست۔ خاتون مسلمان سردار کے گھر گئیں اور کہا کہ میں آلِ رسولؐ ھوں، پردیسن ھوں، نہ کھانے کو کچھ ھے نہ ھی رھنے کا کوئی ٹھکانہ ھے۔ سردار نے پوچھا: “تمہارے پاس کوئی نسب نامہ ھے؟” خاتون نے کہا: “بھائی میں ایک نادار پردیسن ھوں، میں سند کہاں سے لاؤں؟” وہ کہنے لگا: “یہاں تو ھر دوسرا آدمی کہتا ھے کہ میں سیّد ھوں، آلِ رسولؐ ھوں۔” یہ جواب سن کر وہ خاتون وھاں سے نکلیں اور مجوسی سردار کے پاس گئیں۔ وھاں اپنا تعارف کرایا۔ اُس نے فوراً اپنی بیگم کو اُن کے ھمراہ بھیجا کہ جاؤ! اِن کی بچیوں کو لے آؤ۔ رات سرد تھی، خاتون اور اُن کی بچیوں کو کھانا کھلا کر مہمان خانے میں سونے کے لئے جگہ دے دی گئی۔ اُسی رات کو مسلمان سردار نے خواب دیکھا کہ رسولِ اکرم صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم جنّت میں سونے سے بنے ایک خوبصورت محل کے دروازے پر کھڑے ھیں۔ یہ عرض کرتا ھے: “یا رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم! یہ محل کس کا ھے؟” آپؐ فرماتے ھیں: “ایک مسلمان کا ھے۔” یہ کہتا ھے: “مسلمان تو میں بھی ھوں۔” آپؐ فرماتے ھیں: “اپنے اسلام پر کوئی سند پیش کرو۔” وہ شخص کانپ جاتا ھے۔ آپؐ فرماتے ھیں: “میرے گھر کی بیٹی تیرے دروازے پر چل کر آئی اور تُو نے اُس سے سادات ھونے کی سند مانگی؟ میری نظروں سے دُور ھو جا!” جب اُس کی آنکھ کُھلی تو وہ ننگے سر اور ننگے پاؤں باھر نکل آیا اور شور مچانا شروع کر دیا کہ وہ پردیسن خاتون کہاں گئی؟ لوگوں نے بتایا کہ وہ تو آتش پرست سردار کے گھر چلی گئی۔ وہ اُسی حالت میں بھاگا بھاگا گیا اور اُس سردار کے دروازے کو زور زور سے کھٹکھٹانے لگ پڑا۔ گھر کا مالک باھر نکلا اور پوچھا: “کیا ھوا؟” “وہ خاتون جو اپنی بچیوں کے ھمراہ تمہارے گھر میں ٹھہری ھوئی ھیں، مجھے دے دو وہ میرے مہمان ھیں۔” “حضور! وہ میرے مہمان ھیں، آپ کے نہیں۔ میں آپ کو نہیں دے سکتا۔” “مجھ سے تین سو دینار لے لو اور اُنہیں میرا مہمان بننے دو!” مجوسی سردار کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، کہنے لگا: “بھائی! میں نے بن دیکھے کا سودا کیا تھا، اب تو دیکھ چکا ھوں، اب میں تمہیں کیسے واپس کر دوں؟ میں نے خواب دیکھا کہ جنّت کے دروازے پر اللہ کے نبی صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کھڑے تھے، تجھے کہا جا رھا کہ دُور ھو جا! اُس کے بعد رسولِ خدا صلّی اللہ علیہ و آلہ و سلّم میری طرف متوجہ ھوئے، فرمانے لگے کہ تُو نے میری بیٹی کو کھانا اور ٹھکانا دیا، تُو اور تیرا سارا خاندان بخش دیئے گئے ھیں۔ سب کے لئے اللہ تعالیٰ نے جنّت کا فیصلہ کر دیا ھے۔ آنکھ کُھلتے ھی میں ایمان لا چکا ھوں، میرا سارا خاندان کلمہ پڑھ چکا ھے۔ ھم وہ دولت کبھی آپ کو واپس نہیں کریں گے۔” مولانا طارق جمیل صاحب کے ایک خطبے سے اقتباس

Ziarat e kaboor ki sharai hasiat

مزارات اولیاء اور زیارت قبور کی شرعی حیثیت کیا هے ؟ کس نیت اور قصد سے جانا جائزهے اور کس نیت سے جائز نہیں ہے ؟ نیز کیا عورتیں بهی زیارت کیلئے جاسکتی هے کس شرائط کے ساتھ جاسکتی هے ؟

👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇 الجواب حامداومصلیا

مزارات پر حاضری فی نفسہ ممنوع نہیں ہے، لیکن اگر اس نیت سے جائیگا کی وهاں پہونچنے سے مرادے پوری هوجائیگی یا یہ خیال کرنا کہ اولیاء اللہ کے توسل سے مانگنا اسی وقت صحیح هو سکتا هے جبکہ انکی قبروں کےپاس جاکرالله سے مانگا جائے تو اس نیت سے مزارات کیلئے سفر کرنا یہ سفر جهالت هے شامی میں زعفرانی کے قول کا یہی مقصد هے

ومن قال طی مسافه یجوز للولی جهول وهذا قول الزعفرانی شامی زکریا 409/6

اور اگر اس نیت سے سفر کیا کی صاحب قبر سے مراد مانگیں گے وه مرادیں پوری کرسکتاهے تو یہ سفر باعث کفر هوگا ابن مقاتل اور محمد بن یوسف کا یہی قول هے

والقائل بکفرہ هو ابن مقاتل ومحمد بن یوسف شامی 409/6

البتہ اسلئے سفر کرنا کہ ، اس سے موت وآخرت کی یاد پیدا کریں گے اور عبرت حاصل کریں گے تو اس نیت سے سفر کرنا جائز اور درست هے حدیث میں اسکا جواز ثابت ہے: عن بریدہ قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کنتُ نہیتُکم عن زیارة القبور فزوروہا“ ترمذی شریف 203/1 البتہ مزاروں پر پھول چڑھاوا چڑھانا او ردیگر خرافات ومنکرات کرنا ناجائز اور گناہ ہے، اور وهاں خرافات اور بدعات هورهی هو پہر جانا منع هے اس سے احتراز کریں

کفایت المفتی 180/1 کتاب النوازل 270/6

عام حالات میں عورتوں کے لئے قبرستان جانا شرعاً ممنوع ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے

لعن اللہ زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسراج ترمذی شریف 203/1 ابوداؤد شریف 461/2 ،

البتہ اگر کوئی عورت مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے قبرستان جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ ۱۔جانے والی عورت جوان نہ ہو بڑھیا یا عمر رسیدہ ہو ۔ ۲۔پردے کا مکمل اہتمام کر کے جائے۔ ۳۔فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ ۴۔قبرستان جاکر جزع فزع نہ کرے۔ ۵۔قبرستان جا کر خلافِ شرع کام مثلاً قبروں پر پھول چڑھانا ،چادر چڑھانا ،صاحبِ قبر سے مانگنا اور بدعات کا ارتکاب نہ کرے۔ ۶۔قبرستان جانے کی عادت نہ بنائے۔ ان شرائط کی پابندی کے ساتھ اگر کوئی عورت جائے تو اس کی گنجائش ہے ،تاہم فسادِ زمانہ کی وجہ سے نہ جانا بہتر ہے۔

فتاویٰ دارالعلوم 431/5 وبزیاره القبور ولو للنساء لحدیث کنت نهیتکم عن الخ.. وفی الشامی قوله بزیاره القبور ای لاباس بها بل تندب الخ وقوله ولو للنساء وقیل تحرم علیهن والاصح ان الرخصه ثابته لهن بحر الخ وجزم فی شرح المنیه بالکراه الخ وقال لخیر الرملی ان کان ذالک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ماجرت به عادتهن فلاتجوز شامی

150/3 بهر حال مذکورہ عبارت سے معلوم هوا کی نہ جانا بهتر هے کیونکہ اکثر انکی عادت میں خرافات هوتی هے اور صبر کاماده کم هوتا هے اور اگر شرائط مذکوره کے ساتھ جائے تو رخصت هے جیسا کہ مندرجہ ذیل عبارت سے معلوم هوتا هے اور شامی سے بهی یہی معلوم هوتاهے

مشكاة المصابيح (1 / 554): وعن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن زوارات القبور. رواه أحمد والترمذي وابن ماجه وقال الترمذي هذا حديث حسن صحيح وقال: قد رأى بعض أهل العلم أن هذا كان قبل أن يرخص النبي في زيارة القبور فلما رخص دخل في رخصته الرجال والنساء. وقال بعضهم: إنما كره زيارة القبور للنساء لقلة صبرهن وكثرة جزعهن. تم كلامه مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 619): (وعن ابن عباس قال: «لعن رسول الله زائرات القبور» ) : في شرح السنة قيل: هذا كان قبل الترخص، فلما رخص دخل في الرخصة الرجال والنساء، وقيل: بل نهي النساء عن زيارة القبور باق لقلة صبرهن، وكثرة جزعهن إذا رأين القبور اهـ، ومراده بالترخص قوله – عليه السلام -: ( «كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها لأنها تذكر الآخرة» ) ، ويمكن حمل النهي على عجائز متطيبات، ومتزينات، أو على شواب ولو في ثياب بذلتهن لوجود الفتنة في خروجهن على قياس كراهة خروجهن إلى المساجد، قال ابن الملك: وفي بعض النسخ: زوارات القبور جمع زوارة وهي للمبالغة تدل على أن من زار منهن على العادة فهي داخلة في الملعونات. واللہ اعلم