کوئی حال نہیں

کوئی حال نہیں….!!!

گل نوخیزاختر

کبھی اِس طرف دھیان ہی نہیں گیا، آج سوچنے بیٹھا ہوں تو یہ ہولناک انکشاف ہوا ہے کہ مجھے تو اپنے کسی بچپن کے دوست کا نام ہی یاد نہیں۔کافی دنوں سے میں فیس بک پر اپنے بچپن کے دوستوں کو ڈھونڈنے کی پلاننگ کر رہا تھا، آج فرصت اورفراغت ملی تو میں بُت بنا بیٹھا ہوں، کس دوست کو ڈھونڈوں؟ گلو، ببا، شیدا، دیمی،ٹیری، جگنو، نادی، لمبو، چکری، تیکی، ٹارزن، ڈہلو، رنگو، شانی، جبی،موٹو، کالو، فوجا،رکھا….کسی کابھی اصل نام نہیں پتا، نہ کبھی اصل نام پتا کرنے کی ضرورت پڑی، وہ بھی مجھے ”پپو“کے نام سے ڈھونڈ رہے ہوں گے اور میں یہاں گل نوخیزاختر بنا بیٹھا ہوں۔نوٹ کیجئے گا، ہمارے اکثر پیارے اِسی اصل نقل کے چکر میں کہیں گم ہوگئے ہیں، کیا حسین دور تھا جب کوئی کسی کی اصلیت سے واقف نہیں تھا، کسی کو نہیں پتا تھا کہ کون شیعہ ہے، سنی ہے، وہابی ہے ، بریلوی ہے یا دیو بندی ،ہم اکٹھے کھیلتے تھے، ایک گلاس میں پانی پیتے تھے اور ایک جیسے ہی گھروں میں رہتے تھے۔ہر گھرمعمولی تھا، ہر مکین بے ضرر تھا،ہر دوکاندار چاچا جی تھا، ہر عورت خالہ تھی۔ دوکانوں پر ”جھونگا“عام ملتا تھا۔کسی گھر سے کھانے کی کوئی چیز پلیٹ میں ڈھکی ہوئی آتی تو کوئی نہیں پوچھتا تھا کہ یہ نیاز ہے، کونڈے ہیں یا ختم کی چیز ہے۔ کسی کو کسی کے پہناوے پر اعتراض نہیں تھا، سب بچے عید میلاد النبیﷺ کی محفلوں میں بھی کھانے پینے کے لیے موجود ہوتے تھے اور محرم میں شربت کی سبیلوں پر بھی گلاس کے گلاس چڑھا جاتے تھے، کسی گھر میں دیگ پکتی تھی تو عقیدے سے زیادہ چاولوں کی مہک سب کو اپنی طرف کھینچتی تھی۔بے فکری ایسی کہ گلی میں چارپائیاں ڈال کر سونے کا رواج عام تھا۔ خوف ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے تھے، اُن کا حجم بہت کم تھا، سکائی لیب گرنے کا خوف، سرکٹے کے آنے کا خوف،سیلاب کا خوف، کچی چھت گر جانے کا خوف، امتحان میں فیل ہوجانے کا خوف، بیٹی کی شادی میں کھانا کم پڑ جانے کا خوف۔یہ خوف بڑوں سے بچوں میں منتقل ہوتے تھے ، اُس دور کے بڑے بھی تو بچے ہی تھے۔
سیاست صرف کونسلر کے الیکشن تک محدود تھی، کونسلر ہی سب سے بڑا سیاستدان تصور کیا جاتا تھا۔بلدیاتی الیکشن کے دنوں میں کونسلر کسی بڑے سے گھر کے کھلے صحن میں ”جلسے“منعقد کیا کرتے تھے جن میں حاضرین کو بوتلیں پیش کی جاتی تھیں۔ جلسے کے بعد حاضرین فخر سے بتایا کرتے تھے کہ انہوں نے چھ بوتلیں پی ہیں۔ہر گھر کے دروازے کھلے رہتے تھے، بچے کھیلتے ہوئے کسی بھی گھر میں گھس جاتے تھے اور بعض اوقات کھانا بھی کھا آتے ۔
بدمعاش وہ ہوتا تھا جس کا گریبان کھلا ہوتا، نیفے میں گراری والا چاقو ہوتا اوروہ اونچی آواز میں بولتا تھا، تاہم اِس بدمعاش کی بدمعاشی بھی صرف ہوٹلوں میں مفت چائے پینے تک محدود ہوتی تھی۔اُس دور میں ماسٹر اگر بچے کو مارتا تھا تو بچہ گھر آکر اپنے باپ کو نہیں بتاتا تھا، اور اگر بتاتا تھا تو باپ اُسے ایک اور تھپڑ رسید کردیتا تھا ۔ یہ وہ دور تھا جب ”اکیڈمی“کا کوئی تصور نہ تھا، ٹیوشن پڑھنے والے بچے نکمے شمار ہوتے تھے ۔بڑے بھائیوں کے کپڑے چھوٹے بھائیوں کے استعمال میں آتے تھے اور یہ کوئی معیوب بات نہیں سمجھی جاتی تھی۔لڑائی کے موقع پر کوئی پستول نہیں نکالتا تھا، صرف اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ ”میں تمہارے ابا جی سے شکایت کروں گا،،۔ یہ سنتے ہی اکثر مخالف فریق کا خون خشک ہوجاتا تھا۔اُس وقت کے اباجی بھی کمال کے تھے، صبح سویرے فجر کے وقت کڑکدار آواز میں سب کو نماز کے لیے اٹھا دیا کرتے تھے۔بے طلب عبادتیں ہر گھرکا معمول تھیں، کوئی گلی ایسی نہ تھی جہاں سے فجر کی اذان کے بعد کوئی بزرگ بلند آوازدرود شریف پڑھتے ہوئے نہ گذرتے۔کسی گھر میں مہمان آجاتا تو اِردگرد کے ہمسائے حسرت بھری نظروں سے اُس گھر کودیکھنے لگتے اور فرمائشیں کی جاتیں کہ ”پروہنے“کو ہمارے گھر بھی لے کرآئیں۔جس گھر میں مہمان آتا تھا وہاں پیٹی میں رکھے، فینائل کی خوشبو میںلبے بستر نکالے جاتے ، خوش آمدید اور شعروں کی کڑھائی والے تکئے رکھے جاتے ، مہمان کے لیے دھلا ہوا تولیہ لٹکایا جاتااورغسل خانے میں نئے صابن کی ٹکیا رکھی جاتی تھی۔جس دن مہمان نے رخصت ہونا ہوتا تھا، سارے گھر والوں کی آنکھوں میں اداسی کے آنسو ہوتے تھے، مہمان جاتے ہوئے کسی چھوٹے بچے کو دس روپے کا نوٹ پکڑانے کی کوشش کرتا تو پورا گھر اس پر احتجاج کرتے ہوئے نوٹ واپس کرنے میں لگ جاتا ، تاہم مہمان بہرصورت یہ نوٹ دے کر ہی جاتا۔بچوں کے لیے تفریح کا واحد ذریعہ Slides المعروف ”گھیسیاں“ہوتی تھےں۔لوگ چھوٹی چھوٹی باتوں پر بڑے بڑے قہقہے لگایا کرتے تھے، کسی موت پر پورا محلہ سوگوار ہوجایا کرتا تھا،گلی میں کولڈ کریم کی شیشیاں بھرنے والا آتا تو محلے کی ساری لڑکیاں ہاتھوں میں آٹھ آٹھ آنے اور تبت سنو کی خالی شیشیاں پکڑے آموجود ہوتیں۔یہی صاحب دنداسہ، سُرمہ، پت مار پاﺅڈر، ٹیلکم پاﺅڈر اور اسی اقسام کے دیگر پاﺅڈر بھی فروخت کیا کرتے تھے۔لڑکیاں سٹاپو، ککلی ،کوکلا چھپاکی، پرچیاں، اور گڑیوں سے کھیلتی تھیں، لڑکے اڈا کھڈا،پٹھو گول گرم، لکن میٹی، باندر کلِا،بنٹے،چورسپاہی، اونچ نیچ، یسوپنجو، چڑی اڈی کاں اُڈا، کیرم بورڈ اور لڈ و کے شیدائی تھے۔تاش کھیلنے والے کو بہت برا سمجھا جاتاتھا۔
شادی بیاہوں میں سارا محلہ شریک ہوتا تھا، شادی غمی میں آنے جانے کے لیے ایک جوڑا کپڑوں کا علیحدہ سے رکھا جاتا تھا جو اِسی موقع پر استعمال میں لایا جاتا تھا، جس گھر میں شادی ہوتی تھی اُن کے مہمان اکثر محلے کے دیگر گھروں میں ٹھہرائے جاتے تھے، محلے کی جس لڑکی کی شادی ہوتی تھی بعد میں پورا محلہ باری باری میاں بیوی کی دعوت کرتا تھا۔کبھی کسی نے اپنا عقیدہ کسی پر تھوپنے کی کوشش نہیں کی، کبھی کافر کافر کے نعرے نہیں لگے، سب کا رونا ہنسنا سانجھا تھا، سب کے دُکھ ایک جیسے تھے ، سب غریب تھے، سب خوشحال تھے، کسی کسی گھر میں بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی ہوتا تھا اور سارے محلے کے بچے وہیں جاکر ڈرامے دیکھتے تھے۔دوکاندار کو کھوٹا سکا چلا دینا ہی سب سے بڑا فراڈ ہوتا تھا، گھروں میں چوریاں ہوتی تھیں،ڈاکے نہیں پڑتے تھے۔یہ وہ وقت تھا جب امی ہوتی تھی یا ماں۔ممی ، مما یا مام ایسے الفاظ ابھی ایجاد نہیں ہوئے تھے، والد صاحب کو بھی ابو، بابا اور ابا جی کہا جاتا تھا، کوئی پاپا، ڈیڈی، ڈیڈ نہیں ہوتا تھا۔کوئی بیمار ہوتا تھا تو پورا محلہ عیادت کو امڈ پڑتا تھا،بزرگوں کی دعائیں لی جاتی تھیں،سرشام ہی لوگ سونے کی تیاریاں کرنے لگتے تھے اور اگلے دن ہشاش بشاش اٹھتے تھے، کسی نے شوگر، ہپاٹائٹس، ایڈز، ڈینگی، بلڈ پریشر،ڈپریشن کانام تک نہیں سنا تھا، سب کو نیند آتی تھی اور خوب آتی تھی۔ناشتے اوررات کے کھانے پر سب اکٹھے بیٹھتے تھے۔مذہب کبھی موضوع ِ گفتگو نہیں ہوتا تھاکیونکہ اُس وقت سبھی مسلمان تھے۔یہ وہ وقت تھا جب زمینی فاصلے زیادہ اور دِلوں کے فاصلے بہت کم تھے۔اُن دنوں موبائل نمبر نہیں ”پی پی“ نمبر ہوتا تھا جو ہمسائے کا ٹیلی فون نمبر ہوتا تھا۔مصروف سے مصروف بندہ بھی شام کو فارغ ہوکر گھر لوٹتا تھا، تب Busy ہونے کا رواج نہیں پڑا تھا۔تب بہت امیر لوگ بھی نہیں ہوتے تھے، غریب ہوتے تھے یا غریبوں سے کچھ بہتر۔حیرت کی بات ہے کہ تب جمہوریت بھی نہیں ہوتی تھی۔میں اُس دور کے دوستوں کو ڈھونڈنے بیٹھ گیا ہوں جس دور کا سکہ بھی ناپید ہے۔کوئی حال نہیں….!!!

Achi Batain

:: جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو اللہ پاک
فرماتے ہیں  جاو تم دنيا میں اور اپنے والد کی مدد کرو.
اور جب کوئی لڑکی پیدا ہوتی ہے تو
اللہ پاک فرماتے ہیں  جاو تم دنیا میں ..میں  تیرے والد کی مدد کروں گا
🐕🐕🐕🐕🐕🐕🐕🐕🐕
رات کے وقت جب کتے کے بھونکنے کی آواز سنائی دے تو اللہ کی پناہ مانگو کیوں کی وہ ایسی مخلوق  دیکھتا ہے جو ہم نہیں دیکھ سکتے
🏡🏡🏡🏡🏡🏡🏡🏡🏡
بسم اللہ پڑھ کر دروازہ بند کیا کرو  کیوں کی شیطان وہ دروازہ نہیں کھول سکتا جسے بسم اللہ پڑھ کر بند کیا ہو
🍶🍶🍶🍶🍶🍶🍶🍶🍶
پانی کے برتن ڈھک کے رکھا کرو خاص طور پر رات کے وقت
😌😌😌😌😒😒😒😌😌
اچھی اور پورے سکون کی  نیند کے لیے درود پاک پڑھ کے سویا کرو
🎤🎤🎤🎤🎤🎤🎤🎤🎤
ہر اچھی بات آپ کے پاس امانت ہوتی ہے اور امانت جلدی لوگو تک پہنچا دینی چاہئے
📢📢📢📢📢📢📢📢📣
جو شخص سوتے وقت 21 بار پوری بسم اللہ پڑتا ہے
اللہ پاک فرشتوں سے فرماتے ہیں کہ اس کی ہر سانس کے بدلے نیکی لکھو
اور دیکھیں آج آپ کی وجہ سے کتنے لوگ بسم اللہ پڑھتے ہیں
(✨استغفرالله✨)
(✨استغفرالله✨)
(✨استغفرالله✨)
(✨استغفرالله✨)
(✨استغفرالله✨)
(✨استغفرالله✨)
(✨استغفرالله✨)
(✨استغفرالله✨)
(💐سبحان الله💐)
(💐سبحان الله💐)
(💐سبحان الله💐)
(💐سبحان الله💐)
(💐سبحان الله💐)
(💐سبحان الله💐)
(💐سبحان الله💐)
(💐سبحان الله💐)
(💐سبحان الله💐)
(💐سبحان الله💐)
(💎لااله الاالله💎)
(💎لااله الاالله💎)
(💎لااله الاالله💎)
(💎لااله الاالله💎)
(💎لااله الاالله💎)
(💎لااله الاالله💎)
(💎لااله الاالله💎)
(💎لااله الاالله💎)
(💎لااله الاالله💎)
(💎لااله الاالله💎)
(💓الله اگبر💓)
(💓الله اكبر💓)
(💓الله اكبر💓)
(💓الله اكبر💓)
(💓الله اكبر💓)
(💓الله اكبر💓)
(💓الله اكبر💓)
(💓الله اكبر💓)
(💓الله اكبر💓)
(💓الله اكبر💓)
(🍀ربي اغفرلي🍀)
(🍀ربي اغفرلي🍀)
(🍀ربي اغفرلي🍀)
(🍀ربي اغفرلي🍀)
(🍀ربي اغفرلي🍀)
(🍀ربي اغفرلي🍀)
(🍀ربي اغفرلي🍀)
(🍀ربي اغفرلي🍀)
(🍀ربي اغفرلي🍀)
(🍀ربي اغفرلي🍀)
(🌾الحمدلله🌾)
(🌾الحمدلله🌾)
(🌾الحمدلله🌾)
(🌾الحمدلله🌾)
(🌾الحمدلله🌾)
(🌾الحمدلله🌾)
(🌾الحمدلله🌾)
(🌾الحمدلله🌾)
(🌾الحمدلله🌾)
(🌾الحمدلله🌾)
(🌙سبحان الله وبحمده🌙)
(🌙سبحان الله وبحمده🌙)
(🌙سبحان الله وبحمده🌙)
(🌙سبحان الله وبحمده🌙)
(🌙سبحان الله وبحمده🌙)
(🌙سبحان الله وبحمده🌙)
(🌙سبحان الله وبحمده🌙)
(🌙سبحان الله وبحمده🌙)
(🌙سبحان الله وبحمده🌙)
(🌙سبحان الله وبحمده🌙)
(☀سبحان الله العظيم☀)
(☀سبحان الله العظيم☀)
(☀سبحان الله العظيم☀)
(☀سبحان الله العظيم☀)
(☀سبحان الله العظيم☀)
(☀سبحان الله العظيم☀)
(☀سبحان الله العظيم☀)
(☀سبحان الله العظيم☀)
(☀سبحان الله العظيم☀)
1) سبحان الله
2) الحمد لله
3) الله اكبر
 

Bachay Baron say Seekhtay hain

ابابیل اپنا گھونسلہ کنوئیں میں بناتی ھے.. اس کے پاس اپنے بچوں کو اڑنے کی عملی تربیت دینے کے لئے نہ تو کوئی اسپیس یا سہولت دستیاب ھوتی ھے اور نہ ھی وہ کچی تربیت کے ساتھ بچوں کو اڑنے کا کہہ سکتی ھے کیونکہ پہلی اڑان میں ناکامی کا مطلب پانی کی دردناک موت ھے.. مزید کسی ٹرائی کے امکانات زیرو ھیں.. آج تک اگر کسی نے ابابیل کے کسی مرے ھوئے بچے کو کنوئیں میں دیکھا ھے تو بتا دے..ابابیل بچوں کے حصے کی تربیت بھی اپنی ذات پر کرتی ھے.. بچوں سے پہلے اگر وہ اپنے گھونسلے سے دن بھر میں 25 اڑانیں لیتی تھی تو بچے انڈوں سے نکلنے کے بعد 75 اڑانیں لیتی ھے.. یوں ماں اور باپ 150 اڑانیں لیتے ھیں تا آنکہ اپنے بچوں کا دل و دماغ اس یقین سے بھر دیتے ھیں کہ یہاں سے اڑ کر سیدھا باھر جانا ھے اور بس !! اور کوئی آپشن نہیں ھے.. ایک دن آتا ھے کہ بچہ ھاتھ سےنکلے ھوئے پتھر کی طرح گھونسلے سے نکلتا ھے اور سیدھا جا کر کنوئیں کی منڈیر پر بیٹھ جاتا ھے !!!ھماری اولاد ھمارے یقین میں سے اپنا حصہ پاتی ھے.. اگر ھم خود یقین اور عمل سے تہی دست ھونگے تو اولاد کو کیا دیں گے..؟ بچوں کو کہانیاں نہ سنایئے بلکہ عمل کر کے دکھایئے.. یقین کریں وہ جتنا آپ پر اعتماد کرتے ھیں دنیا کے کسی کتابی ھیرو پہ نہیں کرتے.. اولاد کی خرابی میں خود ھماری اپنی کوتاھیوں کا ھاتھ ھوتا ھے.. اولاد چونکہ ھمیں اسوہ سمجھتی ھے لہذا ھمارے کردار کا انتہائی دلچسپی سے جائزہ لیتی ھے.. ھم جوں جوں دوستوں کے ساتھ فراڈ کرتے ھیں , جھوٹے وعدے کرتے ھیں , ان کا مذاق اڑاتے ھیں , کسی کے لئے ذلت آمیز رویہ اختیار کرتے ھیں , بیوی پر ظلم کرتے ھیں , اولاد کی نظروں سے گرتے جاتے ھیں اور ایک وقت آتا ھے کہ ان کی نظر میں ھماری وقعت ایک ٹکے کی نہیں رہ جاتی.. یہ وہ وقت ھوتا ھے کہ ھمیں اس کو شناختی کارڈ دکھا دکھا کر کہنا پڑتا ھے کہ کمبخت میں تیرا باپ ھوں !!

Janat may janay wali gari

🚂🚎🚎🚎🚎🚎🚎🚎🚎

جنت الفردوس جانےوالی گاڑی رمضان المبارک ایکسپریس اپنے نردھارت سمئے⌚ سے چل رہی ھے یہ گاڑھی اپنے مقررہ وقت. 8/6/2016 .کوبندگی کے پلیٹ فارم پر آئےگی
تمام مومن مسافروں سے گذارش ھیکہ اپنے اپنے سامان
🎄نماز 🎄روزہ 🎄زکٰوت🎄صدقہ 🎄فطرہ 🎄اور تلاوت قرآن پاک 🎄لیکر سوارھوں

اور ممنوعہ📺📻📡📢🎵🎸🎲🎺🎻🎹🎷🍷🍷📯🎥📷 چیزوں سے بچتے ھوئے

رمضان المبارک ایکسپریس🚋🚋🚋🚋🚋🚂 لیلتەالقدر ھوتی ھوئ اپنے آخری اسٹیشن 🌙 عید الفطر کو پہچے گی

نوٹ ۔

اس گاڑی کا ٹکٹ
سحری🍩🍲🍜🍚🍛🍮 و

افطار 🍊🍏🍎🍌🍈🍑🍓🍉🍇🍒🍋🍍🍻🍺) لینا نہ بھولیں 🚃🚃🚃🚃🚃🚃🚃🚃🚂

Shabe Barat – Fazail, Masail, Bida’at

🌴شب براءت؛ فضائل، مسائل، بدعات🌴

📝متکلم اسلام مولانا محمد الیاس گھمن مدظلہ📝

🍀ماہ شعبان کی پندرھویں رات بہت فضیلت والی رات ہے۔احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں اور اسلاف امت بھی اس کی فضیلت کے قائل چلے آ رہے ہیں۔ اس رات کو ”شب براءت“ کہتے ہیں، اس لیے کہ اس رات لا تعداد انسان رحمت باری تعالیٰ سے جہنم سےنجات حاصل کرتے ہیں۔
⭕شب براءت کے متعلق لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔بعض تو وہ ہیں جو سرے سے اس کی فضیلت کے قائل ہی نہیں بلکہ اس کی فضیلت میں جو احادیث مروی ہیں انھیں موضوع و من گھڑت قرار دیتے ہیں۔جبکہ بعض فضیلت کے قائل تو ہیں لیکن اس فضیلت کے حصول میں بے شماربدعات، رسومات اور خود ساختہ امور کے مرتکب ہیں، عبادت کے نام پر ایسے منکرات سر انجام دیتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔
✅اس بارے میں معتدل نظریہ یہ ہے کہ شعبان کی اس رات کی فضیلت ثابت ہے لیکن اس کا درجہ فرض و واجب کا نہیں بلکہ محض استحباب کا ہے، سرے سےاس کی فضیلت کا انکار کرنا بھی صحیح نہیں اور اس میں کیے جانے والے اعمال و عبادات کو فرائض و واجبات کا درجہ دینا بھی درست نہیں۔

🔷فضیلت شب براءت احادیث مبارکہ سے:

شبِ براءت کی فضیلت میں بہت سی احادیث مروی ہیں،اگرچہ ان میں سے بعض سند کے اعتبار سے ضعیف ہیں لیکن چونکہ فضائل میں ضعیف احادیث بھی مقبول ہیں۔
(تفصیل کے لیے دیکھیے میری کتاب”فضائل اعمال اور اعتراضات کا علمی جائزہ“ ص:12،13)
اورکثرتِ روایات و اسناد مل کر اس ضعف کو دور کر دیتی ہیں۔ مزید امت کا تعامل اور اسلاف کا اس رات کےقیام پر عمل پیرا چلے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ یہ روایات مقبول ہیں اور لیلۃ البراءت کی اصل ضرور ہے۔ چند ایک روایات نقل کی جاتی ہیں۔

🌷حدیث نمبر 1:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ[ ایک رات] آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
أَتَدْرِينَ أَيَّ لَيْلَةٍ هَذِهِ ؟ “، قُلْتُ: اللهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: ” هَذِهِ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ، إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ يَطْلُعُ عَلَى عِبَادِهِ فِي لَيْلَةِ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِلْمُسْتَغْفِرِينَ، وَيَرْحَمُ الْمُسْتَرْحِمِينَ، وَيُؤَخِّرُ أَهْلَ الْحِقْدِ كَمَا هُمْ ۔
قال الامام البیہقی: هَذَا مُرْسَلٌ جَيِّدٌ
(شعب الایمان للبیہقی: رقم الحدیث 3554، جامع الاحادیث للسیوطی: رقم 7265،کنز العمال: رقم الحدیث 7450)
ترجمہ(اے عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ یہ کون سی رات ہے؟میں نے عرض کیا کہ اللہ اور اس کا رسول زیادہ جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے۔ اس رات اللہ رب العزت اپنے بندوں پر نظر رحمت فرماتے ہیں؛ بخشش چاہنے والوں کو بخش دیتے ہیں، رحم چاہنے والوں پر رحم فرماتے ہیں اور بغض رکھنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیتے ہیں۔

🌷حدیث نمبر 2:

عَنِ أَبِي بَكْرٍالصِّدِّیْقِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ” يَنْزِلُ اللهُ إِلَى السَّمَاءِ الدُّنْيَا لَيْلَةَ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ فَيَغْفِرُ لِكُلِّ شَيْءٍ إِلَّا رَجُلٍ مُشْرِكٍ أَوْ فِي قَلْبِهِ شَحْنَاءُ
(شعب الایمان للبیہقی: رقم الحدیث3546، مجمع الزوائد للہیثمی: رقم 12957)
قال الہیثمی: رواه البزار وفيه عبد الملك بن عبد الملك ذكره ابن أبي حاتم في الجرح والتعديل ولم يضعفه وبقية رجاله ثقات (مجمع الزوائد للہیثمی:تحت الرقم 12957)
قال المنذری: اسنادہ لا باس بہ
(الترغیب و الترہیب: تحت الرقم 4190)
ترجمہ:حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات آسمان دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں (کما یلیق بشانہ)اس رات ہر ایک کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس شخص کےجو اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرانے والا ہویا وہ شخص جس کے دل میں ( کسی مسلمان کے خلاف) کینہ بھرا ہو۔

🌷حدیث نمبر 3:

عن عائشة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال : هل تدرين ما هذه الليل ؟ يعني ليلة النصف من شعبان قالت : ما فيها يا رسول الله فقال : فيها أن يكتب كل مولود من بني آدم في هذه السنة وفيها أن يكتب كل هالك من بني آدم في هذه السنة وفيها ترفع أعمالهم وفيها تنزل أرزاقهم۔
(مشکوۃ المصابیح: رقم الحدیث1305)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےروایت فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اے عائشہ!) کیا تمھیں معلوم ہے کہ اس رات یعنی شعبان کی پندرھویں رات میں کیا ہوتا ہے؟حضرت عائشہ رضی اللہ عنہانے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس میں کیا ہوتا ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اس سال جتنے انسان پیدا ہونے والے ہوتے ہیں وہ اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں اور جتنے لوگ اس سال میں مرنے والے ہوتے ہیں وہ بھی اس رات میں لکھ دیے جاتے ہیں۔اس رات بنی آدم کےا عمال اٹھائے جاتے ہیں اور اسی رات میں لوگوں کی مقررہ روزی اترتی ہے۔
تنبیہ: اس حدیث سے تو معلوم ہوتا ہے کہ شبِ براءت کے بعد والے سال میں پیدا ہونے والے اور فوت ہونے والے انسانوں کے نام وغیرہ اس رات میں لکھے جاتے ہیں جبکہ یہ چیزیں تو لوحِ محفوظ میں لکھی جا چکی ہیں، پھر لکھنے کا کیا مطلب؟ جواب یہ ہے کہ اس رات میں لکھنے سے مراد یہ ہےکہ لوحِ محفوظ سے فہرستیں لکھ کران امور سے متعلقہ فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہیں۔ و اللہ اعلم بالصواب

🌷حدیث نمبر 4:

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ، فَقَالَ: هَذِهِ اللَّيْلَةُ لَيْلَةُ النِّصْفِ مِنْ شَعْبَانَ وَلِلَّهِ فِيهَا عُتَقَاءُ مِنَ النَّارِ بِعَدَدِ شُعُورِ غَنَمِ كَلْبٍ، لَا يَنْظُرُ اللهُ فِيهَا إِلَى مُشْرِكٍ، وَلَا إِلَى مُشَاحِنٍ ، وَلَا إِلَى قَاطِعِ رَحِمٍ، وَلَا إِلَى مُسْبِلٍ ، وَلَا إِلَى عَاقٍّ لِوَ الِدَيْهِ، وَلَا إِلَى مُدْمِنِ خَمْرٍ
(شعب الایمان للبیہقی: رقم الحدیث3556، الترغیب و الترہیب للمنذری: رقم الحدیث 1547)
ترجمہ: حضرت جبرئیل علیہ السلام میرے پاس تشریف لائےاور فرمایا:یہ شعبان کی پندرھویں رات ہے۔ اس رات اللہ تعالیٰ قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں کے برابرلوگوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے لیکن اس رات مشرک،کینہ رکھنے والے، قطع رحمی کرنے والے، ازار ٹخنوں سے نیچے رکھنے والے، ماں باپ کے نافرمان اور شراب کے عادی کی طرف نظر(رحمت) نہیں فرماتے۔
مزید روایات کے لیے ”شبِ براءت کی فضیلت“ از مولانا نعیم الدین صاحب ملاحظہ فرمائیں۔ یہ کتاب انٹرنیٹ سے ڈائون لوڈ کی جاسکتی ہے۔

💐شب براءت اکابرین امت کی نظر میں:

🌱1: جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَا مِنْ لَيْلَةٍ بَعْدَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ أَفْضَلُ مِنْ لَيْلَةِ النِّصْفِ من شَعْبَانَ
(لطائف المعارف: ابن رجب الحنبلی: ص151)
ترجمہ: لیلۃ القدر کے بعدشعبان کی پندرھویں رات سے زیادہ افضل کوئی رات نہیں۔
🌱2: علامہ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَيْلَةِ النِّصْفِ من شَعْبَانَ كَانَ التَّابِعُوْنَ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ كَخَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ وَمَكْحُوْلٍ وَ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ وَ غَيْرِهِمْ ،يُعَظِّمُوْنَهَا وَ يَجْتَهِدُوْنَ فِيْهَا فِي الْعِبَادَةِ وَ عَنْهُمْ أَخَذَالنَّاسُ فَضْلَهَا وَ تَعْظِيْمَهَا۔
(لطائف المعارف: ابن رجب الحنبلی: ص151)
ترجمہ:اہلِ شام کے تابعین حضرات مثلاً امام خالد بن معدان،امام مکحول، امام لقمان بن عامر وغیرہ شعبان کی پندرھویں رات کی تعظیم کرتے تھےاور اس رات خوب محنت سے عبادت فرماتے تھے۔انہی حضرات سے کوگوں نے شبِ براءت کی فضیلت کو لیا ہے۔
🌱3:امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَبَلَغَنَا أَنَّهُ كان يُقَالُ إنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ في خَمْسِ لَيَالٍ في لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةِ الْأَضْحَى وَلَيْلَةِ الْفِطْرِ وَأَوَّلِ لَيْلَةٍ من رَجَبٍ وَلَيْلَةِ النِّصْفِ من شَعْبَانَ وأنا أَسْتَحِبُّ كُلَّ ما حُكِيَتْ في هذه اللَّيَالِيِ من غَيْرِ أَنْ يَكُونَ فَرْضًا
(کتاب الام للشافعی: ج1 ص231 العبادة لیلۃ العيدين، السنن الکبریٰ للبیہقی: ج3، ص319)
ترجمہ:ہمیں یہ بات پہنچی ہےکہا جاتا تھا کہ پانچ راتوں میں دعا[زیادہ] قبول ہوتی ہے۔۱: جمعہ کی رات، ۲:عید الاضحیٰ کی رات،۳: عید الفطر کی رات، ۴:رجب کی پہلی رات، ۵:نصف شعبان کی رات۔ میں نے ان راتوں کے متعلق جو بیان کیا ہے اسے مستحب سمجھتا ہوں فرض نہیں سمجھتا۔
🌱4:علامہ زین الدین بن ابراہیم الشہیربابن نجیم المصری الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَمِنْ الْمَنْدُوبَاتِ إحْيَاءُ لَيَالِي الْعَشْرِ من رَمَضَانَ وَلَيْلَتَيْ الْعِيدَيْنِ وَلَيَالِي عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ وَلَيْلَةِ النِّصْفِ من شَعْبَانَ كما وَرَدَتْ بِهِ الْأَحَادِيثُ وَذَكَرَهَا في التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ مُفَصَّلَةً
(البحر الرائق لابن نجیم: ج2، ص56)
ترجمہ:رمضان کی آخری دس راتوں میں، عیدین کی راتوں میں،ذوالحجہ کی دس راتوں میں، شعبان کی پندرھویں رات میں شب بیداری کرنا مستحبات میں سے ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہےاور علامہ منذری رحمہ اللہ نے انہیں ترغیب و الترہیب میں مفصلاً بیان کیا ہے۔
🌱5:خاتمۃ المحدثین حضرت علامہ مولانا محمد انور شاہ الکشمیری رحمہ ا للہ فرماتے ہیں:
اِنَّ هٰذِهِ اللَّيْلَةَ لَيْلَةُ الْبَرَاءَةِ وَصَحَّ الرِّوَايَاتُ فِي فَضّلِ لَيْلَةِ الْبَرَاءَةِ
(العرف الشذی: ج2 ص250 )
ترجمہ:یہ رات”لیلۃ البراءت“ ہے اور اس لیلۃ البراءت کی فضیلت کے بارے میں روایات صحیح ہیں۔
🌱6:حکیم الامت، مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”شبِ براءت کی اتنی اصل ہے کہ پندھویں رات اور پندرھواں دن اس مہینے کا بہت بزرگی اور برکت کا ہے ۔ “
(بہشتی زیور:حصہ ششم، ص58)
🌱7: شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم فرماتے ہیں:
”شب براءت کی فضیلت میں بہت سی روایات مروی ہیں، جن میں سے بیشتر علامہ سیوطی رحمہ اللہ نے ”الدر المنثور“ میں جمع کر دی ہیں……ان روایات کے ضعف کے باوجود شبِ براءت میں اہتمامِ عبادت بدعت نہیں۔ اول تو اس لیے کہ روایات کا تعدد اور ان کا مجموعہ اس پر دال ہے کہ لیلۃ البراءت کی فضیلت بے اصل نہیں، دوسرے امت کا تعامل لیلۃ البراءت میں بیداری اور عبادت کا خاص اہتمام کرنے کا رہا ہے اور یہ بات کئی مرتبہ گزر چکی ہے کہ جو بھی ضعیف روایت مؤید بالتعامل ہے وہ مقبول ہوتی ہے۔ لہذا لیلۃ البراءت کی فضیلت ثابت ہے اور ہمارے زمانے کے بعض ظاہر پرست لوگوں نے احادیث کے محض اسنادی ضعف کو دیکھ کر لیلۃ البراءت کی فضیلت کو بے اثر قرار دینے کی جو کوشش کی ہے وہ درست نہیں“
(درسِ ترمذی: ج2 ص579)

🌗پندرہ شعبان کا روزہ:

حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:
عن علي بن أبي طالب قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم إذا كانت ليلة النصف من شعبان فقوموا ليلها وصوموا نهارها . فإن الله ينزل فيها لغروب الشمس إلى سماء الدنيا . فيقول ألا من مستغفر لي فأغفر له ألا من مسترزق فأرزقه ألا مبتلى فأعافيه ألا كذا ألا كذا حتى يطلع الفجر
(سنن ابن ماجہ: رقم الحدیث 1388 ،شعب الایمان للبیہقی: ج3، ص378)
ترجمہ: جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب شعبان کی پندرھویں رات آئے تو اس رات قیام کرو اور دن کو روزہ رکھو کیونکہ اللہ تعالیٰ سورج غروب ہونے سے (لے کر صبح صادق تک) آسمانِ دنیا پر (کما یلیق بشانہ) نزول فرماتے ہیں، اور ارشاد فرماتے ہیں: ” ہے کوئی بخشش طلب کرنے والا؟تو میں اس کو بخش دوں! ہے کوئی رزق کا طالب؟ میں اس کو رزق دوں! ہے کوئی مصیبت زدہ ؟میں اس کو مصیبت سے نجات دوں! ہے کوئی ایسا؟ ہو کوئی ایسا؟ اللہ رب العزت کی طرف سے یہ اعلان صبحِ صادق تک جاری رہتا ہے۔“
قلت: اسنادہ ضعیف و الضعیف یعمل بہ فی فضائل الاعمال، راجع للتفصیل الی کتابی”فضائل اعمال اور اعتراضات کا علمی جائزہ“
اس حدیث میں پندرہ شعبان کے روزے کا تذکرہ ہے اور پہلے گزر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے ۔ نیز آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایام بیض ( ہر مہینہ میں ۱۳، ۱۴، ۱۵)کے روزے بھی رکھا کرتے تھے، اور پندرہ شعبان بھی انہی تاریخوں میں سے ہے۔ ان وجوہ سے بعض علماء کرام نے پندرہ شعبان کا روزہ مستحب قرار دیا ہے۔ لیکن یہ ملحوظ رہے کہ اسے سنت یا ضروری نہ سمجھا جائے۔ صدرمفتی دار العلوم دیوبند مفتی عزیز الرحمٰن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”پندرھویں تاریخ شعبان کا روزہ مستحب ہے، اگر کوئی رکھے تو ثواب ہے اور نہ رکھے تو کچھ حرج نہیں ہے“
(فتاوٰی دار العلوم دیوبند: ج 6ص309)

⛔شب براءت میں قبرستان میں جانا:

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے :
فقدت رسول الله صلى الله عليه و سلم ليلة فخرجت فإذا هو بالبقيع فقال أكنت تخافين أن يحيف الله عليك ورسوله ؟ قلت يا رسول الله إني ظننت أنك أتيت بعض نساءك فقال إن الله عز و جل ينزل ليلة النصف من شعبان إلى السماء الدنيا فيفغر لأكثر من عدد شعر غنم كلب
(جامع الترمذی رقم:739)
ترجمہ:ایک رات میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے پاس نہ پایا، تو میں آپ کی تلاش میں نکلی۔ پس کیا دیکھا کہ آپ جنت البقیع میں تشریف فرماتھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :کیا تمہیں اندیشہ ہے کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر زیادتی کر سکتے ہیں؟تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! مجھے یہ گمان ہوا کہ شاید آپ کسی دوسری اہلیہ کے پاس تشریف لے گئے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ شعبان کی پندرھویں رات آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتے ہیں قبیلہ کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کی بخشش فرماتے ہیں۔
اس روایت سے آنحضرت کا شب براءت میں قبرستان جانا معلوم ہوا لیکن آپ کا اس پر مداوت اختیار کرنا ثابت نہیں لہذا اسے سنت مستمرہ نہ کہا جائے گا بلکہ شب براءت میں کبھی کبھی شب براءت میں زیارت قبور کے لیے چلا جائے تو مضائقہ نہیں۔لیکن ہر شب براءت میں جانے کا اہتمام والتزام کرنا ،اسے ضروری سمجھنا، اسے شب براءت کے ارکان میں داخل کرنا اور قبرستان کی اس حاضری کو شب براءت کا جزوِ لازم سمجھنا منکرات میں سے ہے۔ قبور پر اجتماعی حاضری ،میلہ ٹھیلا کا سماں اور چراغاں کرنا وغیرہ ایسے امور میں جو بدعات ہیں ۔اس طرح یہ عمل مستحب نہیں بلکہ گناہ بن جائے گا۔ آنحضرت سے جس درجہ میں یہ عمل ثابت ہوا اسی میں رکھا جائے تاکہ وہ عمل منکر اور گناہ ہونے سے بچ جائے۔ شیخ الاسلام حضرت مولانامفتی محمد تقی عثمانی مدظلہ فرماتے ہیں :
” حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ کی حدیث باب سے لیلۃ البراءت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بقیع جانا معلوم ہوا، جو شبِ براءت میں قبرستان جانے کی اصل ہے۔ لیکن چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس پر مداومت ثابت نہیں اس لیے اس کو سنتِ مستمرہ کا درجہ دینا بھی صحیح نہیں۔ہاں کبھی کبھی چلا جائے تو مضائقہ نہیں“
(درسِ ترمذی :ج2 ص581)

⚠شب براءت کی چند بدعات ومنکرات:❗

🚫1:مساجد میں شب بیداری کے لیے عوام کا اجتماع کرنا، اشتہارات واعلانات کے ذریعے لوگوں کو جمع کرنا ۔
🚫2:شب براءت میں خاص قسم کی نمازیں پڑھنا۔مثلاً ایک موضوع ومن گھڑت روایت کی بنا پر سو رکعت والی نماز پیش کی جاتی ہے۔(درس ترمذی: ج2ص579)
🚫3:شب براءت میں حلوہ کا پابندی سے پکانا اور اس کے بغیر شب براءت کی فضیلت سے محروم ہونے کا نظریہ رکھنا۔
🚫4:شب براءت میں فوت شدہ لوگوں کی ارواح کا اپنے گھروں میں واپس آنے کا عقیدہ رکھنا۔
🚫5:شب براءت میں قبرستان میں میلا کرنا،چراغاں کرنا اور جماعتوں اور ٹولیوں کی شکل میں جمع ہونا۔
🚫6:شب براءت میں مسور کی دال پکانے کو ضروری سمجھنا۔
🚫7:شب براءت میں آتش بازی کرنا۔

Shabe Barat ki Fazeelat ki Haqeeqat

شب برات کی فضیلت کی حقیقت :۔
شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ، حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی، ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے، لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے، اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔
شب برات میں عبادت :۔
امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کا دور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں، لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔

عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں :۔
البتہ یہ بات درست ہے کہ اس رات میں عبادت کا کوئی خاص طریقہ مقرر نہیں کہ فلاں طریقے سے عبادت کی جائے ، جیسے بعض لوگوں نے اپنی طرف سے ایک طریقہ گھڑ کر یہ کہہ دیا کہ شب ِ برات میں اس خاص طریقے سے نماز پڑھی جاتی ہے ، مثلاََ پہلی رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے، دوسری رکعت میں فلاں سورت اتنی مرتبہ پڑھی جائے وغیرہ وغیرہ، اسکا کوئی ثبوت نہیں، یہ بالکل بے بنیاد بات ہے، بلکہ نفلی عبادت جس قدر ہوسکے وہ اس رات میں انجام دی جائے، نفل نماز پڑھیں ، قرآن کریم کی تلاوت کریں ، ذکرکریں ، تسبیح پڑھیں ، دعائیں کریں ، یہ ساری عبادتیں اس رات میں کی جاسکتی ہیں لیکن کوئی خاص طریقہ ثابت نہیں۔

شبِ برات میں قبرستان جانا:۔
اس رات میں ایک اور عمل ہے جو ایک روایت سے ثابت ہے وہ یہ ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ جنت البقیع میں تشریف لے گئے، اب چونکہ حضور ﷺ اس رات میں جنت البقیع میں تشریف لے گئے اس لئے مسلمان اس بات کا اہتمام کرنے لگے کہ شبِ برات میں قبرستان جائیں ، لیکن میرے والد ماجد حضرت مفتی محمد شفیع صاحب قدس اللہ سرہ ایک بڑی کام کی بات بیان فرمایا کرتے تھے، جو ہمیشہ یاد رکھنی چاہئے، فرماتے تھے کہ جو چیز رسول کریم ﷺ سے جس درجہ میں ثابت ہو اسی درجے میں اسے رکھنا چاہئے، اس سے آگے نہیں بڑھنا چاہئے، لہٰذا ساری حیاتِ طیبہ میں رسول کریمﷺ سے ایک مرتبہ جانا مروی ہے، کہ آپ شبِ برات میں جنت البقیع تشریف لے گئے ، چونکہ ایک مرتبہ جانا مروی ہے اس لئے تم بھی اگر زندگی میں ایک مرتبہ چلے جاو تو ٹھیک ہے ، لیکن ہر شب برات میں جانے کا اہتمام کرنا،التزام کرنا، اور اسکو ضروری سمجھنا اور اسکو شب برات کے ارکان میں داخل کرنا اور اسکو شب برات کا لازمی حصہ سمجھنا اور اسکے بغیر یہ سمجھنا کہ شب برات نہیں ہوئی ، یہ اسکو اسکے درجے سے آگے بڑھانے والی بات ہے۔

15 شعبان کا روزہ:۔
ایک مسئلہ شب برات کے بعد والے دن یعنی پندرہ شعبان کے روزے کاہے، اسکو بھی سمجھ لینا چاہئے، وہ یہ کہ سارے ذخیرہ حدیث میں اس روزہ کے بارے میں صرف ایک روایت میں ہے کہ شب برات کے بعد والے دن روزہ رکھولیکن یہ روایت ضعیف ہے لہٰذا اس روایت کی وجہ سے خاص پندرہ شعبان کے روزے کو سنت یا مستحب قرار دینا بعض علماءکے نزدیک درست نہیں البتہ پورے شعبان کے مہینے میں روزہ رکھنے کی فضیلت ثابت ہے لیکن 28اور29 شعبان کو حضور ﷺ نے روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے، کہ رمضان سے ایک دو روز پہلے روزہ مت رکھو، تاکہ رمضان کے روزوں کےلئے انسان نشاط کے ساتھ تیا ر رہے۔

شب برات کی حقیقت اور فضیلت
مفتی تقی عثمانی۔ [ماخوذ از : ماہنامہ البلاغ اگست 2010ئ]

Iman:Iman ko paraknay ka tareeqa

ایک بزرگ کا قول
دل کی تین رگیں ہوتی ہیں.
اگر اپنے ایمان کو پرکھنا ہے کہ میرا دل زندہ ہے ہا مر گیا ہے تو.
(1) قرآن پاک کھول کے پڑھو دیکھو دل لگ رہا ہے یا نہیں.
(2) اُس محفل میں بیٹھو جہاں اللہ کا ذِکر ہو رہا ہو دیکھو دل لگ رہا ہے یا نہیں.
(3) تنہائی میں بیٹھ کر دیکھو کہ کیا تمھاری تنہائی پاک صاف ہے خدا بھی یاد آتا ہے یہ نہیں.
اگر جواب ہاں ہے تو تمھارا دل ابھی زندہ ہے اگر جواب نہ ہے تو ڈرو اور اللہ سے دعا کرو کہ ہم پہ رحم و کرم فرما.
آمین…..

Jab Allah kisi say muhabbat karta hai

ﺟﺐ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺴﯽ ﺳﮯ ﻣﺤﺒﺖ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﺗﮑﻠﯿﻒ ﻣﯿﮟ ﻣﺒﺘﻼ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﮯ ﺗﺎﮐﮧ
ﺍﺱ ﮐﯽ ﻋﺎﺟﺰﯼ ﮐﻮ ﺳﻨﮯ ….”
ﺩﺭﺩ ﺍﻭﺭ ﺯﺍﺭﯼ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺩﻋﺎ ﻋﺸﻖ ﮐﺎ ﻧﺘﯿﺠﮧ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ، ﮔُﮭﭧ ﮔﮭُﭧ ﮐﮯ ﺭﻭﻧﺎ ﺍﺑﺘﺪﺍﺋﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ
ﺍﻭﺭ ﺟﺐ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺩﺭﺩ ﺍﻭﺭ ﺭﻭﻧﮯ ﮐﯽ ﺣﺎﻟﺖ ﻣﯿﮟ ” ﺍﮮ ﻣﺪﺩﮔﺎﺭ ” ” ﺍﮮ ﻣﻌﯿﻦ ” ﭘﮑﺎﺭﺗﺎ ﮬﮯ ﺗﻮ ﺁﻭﺍﺯ ﺻﺎﻑ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ … ﺍﺳﯽ ﻣﯿﮟ ﻏﻢ ﻭ ﺍﻟﻢ ﮐﯽ ﻭﮦ ﮐﯿﻔﯿﺖ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ ﮐﮧ ﺟﺰﺑﮧﺀ ﺍﻟٰﮩﯽ ﻃﺎﺭﯼ ﮬﻮﺗﺎ ﮬﮯ ﺍﻭﺭ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺩﺭﺩ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﮔﺮﯾﮧ ﮐﺮﺗﺎ ﮬﮯ … ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﻋﺸﻖ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺘﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﺘﻮﺟﮧ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮬﮯ ….
ﻭﮦ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﺟﻮ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﻃﺮﻑ ﺭﺟﻮﻉ ﮐﺮﺍﺩﮮ ﻭﮦ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ…!!!

Allah kay rastay may nikalnay say ziada kuch mehboob nahi

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ اِنْ کَانَ آبَائُکُم وَ اَبْنَاءُ کُمْ وَاخْوَانُکُمْ وَازْوَاجُکمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوَالُ نافْتَرَفْتُمُوْھَا وَتِجَارَةُ تَخْشَوْنَ کَسَادَھَا وَمَسَاکِنُ تَرْضَوْنَھَا اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِنَ اللهِ وَرَسُوْلِہ وَجِھَادٍ فِیْ سَبِیْلِہ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اللهُ بِاَمْرِہ وَاللهُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفَاسِقِیْنَ۔“ (التوبة:۲۴)

ترجمہ:

”اے پیغمبرﷺ ! آپ ان لوگوں سے صاف صاف کہہ دیجئے کہ اگر تمھارے ماں باپ، تمہاری اولاد، تمھارے بھائی، تمہاری بیویاں اور تمہارا کنبہ قبیلہ اور تمہارا وہ مال و دولت جس کو تم سے محنت سے کمایا ہے اور تمہاری وہ چلتی ہوئی تجارت جس کی کساد بازاری سے تم ڈرتے ہو اور تمھارے رہنے کے وہ اچھے مکانات جو تم کو پسند ہیں (پس دنیا کی محبوب و مرغوب چیزیں) اللہ، اللہ کے رسولﷺ ، اور اللہ کے دین کی راہ کی جدوجہد سے زیادہ تمھیں محبوب ہیں تو انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا حکم اور فیصلہ نافذ کرے اور یاد رکھو اللہ نافرمان قوم کو ہدایت نہیں دیتا۔“ (توبہ: 24)

یہ آیت اس باب میں دلیل ہے کہ آپﷺ کی محبت ضروری اور لازمی ہے اور جس شخص کو ان مذکورہ آٹھ اشیاءمیں سے کوئی چیز بھی اللہ کے رسولﷺ سے زیادہ پیاری ہو، اسے ایسا گم کردئہ راہ بتلایا ہے جس کو اللہ تعالیٰ ہدایت نہیں فرماتے۔ آنحضرتﷺ کی محبت کا تقاضا ہے کہ آپﷺ کو اپنی جان سے بھی پیارا سمجھا جائے۔

Branded Cheezain – Aik Dhoka

ضرور پڑھیں
فرانس کا ایک وزیر تجارت کہتا تھا؛ برانڈڈ چیزیں مارکیٹنگ کی دُنیا کا سب سے بڑا جھوٹ ہوتی ہیں جنکا مقصد تو امیروں سے پیسہ نکلوانا ہوتا ہے مگر غریب اس سے بہت متاثر ہو رہے ہوتے ہیں۔کیا یہ ضروری ہے کہ میں Iphone اُٹھا کر پھروں تاکہ لوگ مجھے ذہین اور سمجھدار مانیں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ Mac یا Kfc کھاؤں تاکہ لوگ یہ نا سمجھیں کہ میں کنجوس ہوں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں روزانہ دوستوں کے ساتھ اٹھک بیٹھک Downtown Cafe پر جا کر لگایا کروں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ میں خاندانی رئیس ہوں؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں Gucci,Lacoste, Adidas یا Nike سے کپڑے لیکر پہنوں تو جینٹل مین کہلایا جاؤں گا؟
کیا یہ ضروری ہے کہ میں اپنی ہر بات میں دو چار انگریزی کے لفظ ٹھونسوں تو مہذب کہلاؤں؟ کیا یہ ضروری ہے کہ میں Adele یا Rihanna کو سنوں تو ثابت کر سکوں کہ میں ترقی یافتہ ہو چکا ہوں؟
نہیں یار!!!
میرے کپڑے عام دکانوں سے خریدے ہوئے ہوتے ہیں، دوستوں کے ساتھ کسی تھڑے پر بھی بیٹھ جاتا ہوں، بھوک لگے تو کسی ٹھیلے سے لیکر کھانے میں بھی عار نہیں سمجھتا، اپنی سیدھی سادی زبان بولتا ہوں۔ چاہوں تو وہ سب کر سکتا ہوں جو اوپر لکھا ہے لیکن۔۔۔۔
میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جو میری Adidas سے خریدی گئی ایک قمیص کی قیمت میں پورے ہفتے کا راشن لے سکتے ہیں۔
میں نے ایسے خاندان دیکھے ہیں جو میرے ایک Mac برگر کی قیمت میں سارے گھر کا کھانا بنا سکتے ہیں۔ بس میں نے یہاں سے راز پایا ہے کہ پیسے سب کچھ نہیں، جو لوگ ظاہری حالت سے کسی کی قیمت لگاتے ہیں وہ فورا اپنا علاج کروائیں۔ انسان کی اصل قیمت اس کا اخلاق، برتاؤ، میل جول کا انداز، صلہ رحمی، ہمدردی اور بھائی چارہ ہے۔ نہ کہ اسکی ظاہری شکل و صورت۔!!!