Istaghfar ki Takeed

♧اسلام وعليكم♧
*آپ اسے پڑھنے کے بعد إن شاء اللہ استغفار کے عادی بن جائیں گے.*
ایک بار ایک شخص امام حسن بصری کے پاس آیا اور ان سے شکایت کی:
*”آسمان ہم پر بارش نہیں برساتا.”*
انھوں نے جواب دیا:
*” اللہ کی بخشش طلب کرو. (یعنی استغفر الله کرو)”*
پھر ایک اور شخص ان کے پاس آیا اور کہا،
*”میں غربت کی شکایت کرتا ہوں.”*
انھوں نے جواب دیا:
*” اللہ کی بخشش طلب کرو.”*
پھر ایک اور شخص ان کے پاس آیا اور شکایت کی،
*”میری بیوی بانجھ ہے؛ وہ بچے پیدا نہیں کر سکتی.*
” انھوں نے جواب دیا:
*” اللہ کی بخشش طلب کرو.”*
جو لوگ موجود تھے انہوں نے امام حسن سے فرمایا:
*”ہر بار شخص آپ کے پاس شکایت لے کر آیا، آپ نے صرف اللہ سے بخشش طلب کرنے کی اسے ہدایت کی؟”*
امام حسن بصری نے کہا،
“کیا تم نے اللہ کا بیان نہیں پڑھا؟
*”آپنے رب سے بخشش طلب کرو. بے شک وہ بڑا بخشنے والا ہے. وہ کثرت سے تم پر بارش برسائے گا. اور تمہیں خوب پے در پے مال و اولاد میں ترقی دے گا؛اور تمہیں باغات عطا فرمائے گا اور تمھارے لیے نہریں نکال دے گا. “*
_ [نوح (71): 10-12] _
*”اور اللہ ان کو عذاب نہ دے گا اس حالت میں کہ وہ استغفار بھی کرتے ہوں.”*
_ [الانفال (8): 33] _
*استغفر الله …*
کبھی استغفار نہ چھوڑو!
رسول اللہ (صلي الله عليه و سلم) نے فرمایا کہ * “اگر کوئی مسلسل بخشش طلب کرے, تو اللہ اسے ہر تکلیف ،بے چینی سے آرام دے دیتا ہے، اور وہاں سے اسے فراہم کرے گا جہاں سے اس نے گمان بھی نہ کیا ہو.” *
_ [ابو داود حدیث نمبر 59] ★★★

استغفار کی فضیلت

استغفار کی فضیلت : حدیث پاک میں ھے جوشخص استغفار کو لازم پکڑے گا اللہ تعالی ھر تنگی سے اس کے لۓ راستہ نکالے گا. ھر غم سے اس کو نجات دے گا اور ایسی جگہ سے اس کو رزق دے گا جہاں سے گمان بھی نہیں.(ابو داود) اورقرآن مجید سورۃ نوح میں بھی کچھ فضائل ذکر کۓ گۓ ہیں(1) اللہ تعالی گناھوں کو معاف کریں گے (2)رحمت والی بارشیںد یں گے(3) مال د یں (4) بیٹے دیں گے

جب قرآن پہ پابندی لگی

جب قرآن پہ پابندی لگی :
1973 روس میں کمیونزم کا طوطا بولتا تھا بلکہ دنیا تو یہ کہہ رہی تھی کہ بس اب پورا ایشیا سرخ ہوجاے گا ان دنوں میں ہمارے ایک دوست ماسکو ٹریننگ کے لیے چلے گئے وہ کہتے ہے کہ جمعے کے دن میں نے دوستوں سے کہا کہ چلو جمعہ ادا کرنے کی تیاری کرتے ہیں تو انہوں نے کہا کہ یہاں مسجدوں کو گودام بنا دیا گیا ہے ایک دو مساجد کو سیاحوں کا قیام گاہ بنا دیا گیا ہے صرف دو ہی مسجد اس شہر میں بچے ہے جو کھبی بند اور کھبی کھلے ہوتے ہیں میں نے کہا آپ مجھے مساجد کا پتہ بتا دے میں وہی چلا جاتا ہوں جمعہ ادا کرنے ۔ پتہ لیکر میں مسجد تک پہنچا تو مسجد بند تھی ، مسجد کے پڑوس میں ہی ایک بندے کے ساتھ مسجد کی چابی تھی میں نے اس آدمی کو کہا کہ دروازہ کھول دو مسجد کا ، مجھے نماز پڑھنی ہے ،
اس نے کہا دروازہ تو میں کھول دونگا لیکن اگر آپکو کوی نقصان پہنچا تو میں زمہ دار نہیں ہوں گا ، میں نے کہا دیکھیں جناب میں پاکستان میں بھی مسلمان تھا اور روس کے ماسکو میں بھی مسلمان ہی ہوں پاکستان کے کراچی میں بھی نماز ادا کرتا تھا اور روس کے ماسکو میں بھی نماز ادا کروں گا چاہے کچھ بھی ہوجاے ۔ اس نے مسجد کا دروازہ کھولا تو اندر مسجد کا ماحول بہت خراب تھا میں نے جلدی جلدی صفائی کی اور مسجد کی حالت اچھی کرنے کی کوشیش کرنے لگا کام سے فارغ ہونے کے بعد میں نے بلند آواز سے آزان دی ۔۔۔۔۔ آزان کی آواز سن کر بوڑھے بچے مرد عورت جوان سب مسجد کے دروازے پہ جمع ہوے کہ یہ کون ہے جس نے موت کو آواز دی ۔۔۔۔ لیکن مسجد کے اندر کوی بھی نہیں آیا،۔۔۔۔ خیر میں نے جمعہ تو ادا نہیں کیا کیونکہ اکیلا ہی تھا بس ظہر کی نماز ادا کی اور مسجد سے باہر آگیا جب میں جانے لگا تو لوگ مجھے ایسے دیکھ رہے تھے جیسے کہ میں نماز ادا کرکہ باہر نہیں نکلا بلکہ دنیا کا کویی نیا کام متعارف کرواکر مسجد سے نکلا،
ایک بچہ میرے پاس آیا اور کہا کہ آپ ہمارے گھر چاۓ پینے آے ۔ اسکے لہجے میں حلوص ایسا تھا کہ میں انکار نہ کرسکا میں انکے ساتھ گیا تو گھر میں طرح طرح کے پکوان بن چکے تھے اور میرے آنے پہ سب بہت خوش دکھائی دے رہے تھے میں نے کھانا کھایا چاے پی تو ایک بچہ ساتھ بیٹھا ہوا تھا میں نے اس سے پوچھا آپکو قرآن پاک پڑھنا آتا ہے ۔ ؟
بچے نے کہا جی بلکل قرآن پاک تو ہم سب کو آتا ہے ، میں نے جیب سے قرآن کا چھوٹا نسحہ نکالا اور کہا یہ پڑھ کر سناو مجھے ۔۔۔
بچے نے قرآن کو دیکھا اور مجھے دیکھا پھر قرآن کو دیکھا اور ماں باپ کو دیکھ کر دروازے کو دیکھا پھر مجھے دیکھا ۔ میں نے سوچا اس کو قرآن پڑھنا نھی آتا لیکن اس نے کہا کیوں کہ اسکو قرآن پڑھنا آتا ہے ۔ میں نے کہا بیٹا یہ دیکھو قرآن کی اس آیت پہ انگلی
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آَمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ
رکھی تو وہ فر فر بولنے لگا بنا قرآن کو دیکھے ہی ۔۔۔۔ مجھے حیرت کا ایک شدید جھٹکا لگا کہ یہ تو قرآن کو دیکھے بنا ہی پڑھنے لگا میں نے اسکے والدین سے کہا ” حضرات یہ کیا معاملہ ہے ؟
انہوں نے مسکرا کر کہا ” دراصل ہمارے پاس قرآن پاک موجود نہیں کسی کے گھر سے قرآن پاک کے آیت کا ایک ٹکڑا بھی مل جاے تو اس تمام حاندان کو پھانسی کی سزا دے دی جاتی ھے اس وجہ سے ہم لوگ قرآن پاک نہیں رکھتے گھروں میں “
” تو پھر اس بچے کو قرآن کس نے سکھایا کیونکہ قرآن پاک تو کسی کے پاس ہے ہی نہیں ” میں نے مزید حیران ہوکر کہا
” ہمارے پاس قرآن کے کئ حافظ ہے کوئی درزی ہے کوی دکاندار کوئ سبزی فروش کوئی کسان ہم انکے پاس اپنے بچے بھیج دیتے ہے محنت مزدوری کے بہانے ۔۔۔۔ وہ انکو الحمد اللہ سے لیکر والناس تک زبانی قرآن پڑھاتے ہیں ایک وقت ایسا آجاتا ہے کہ وہ حافظ قرآن بن جاتے ہے کسی کے پاس قرآن کا نسحہ ہے نہیں اسلیئے ہماری نیی نسل کو ناظرہ نہیں آتا بلکہ اس وقت ہمارے گلیوں میں آپکو جتنے بھی بچے دکھائی دے رہے ہیں یہ سب کے سب حافظ قرآن ہے ۔ یہی وجہ ہے جب آپ نے اس بچے کے سامنے قرآن رکھا تو اسکو پڑھنا نہیں آیا ناظرہ کرکہ لیکن جب آپ نے آیت سنائی تو وہ فر فر بولنے لگا اگر آپ نہ روکتے تو یہ سارا قرآن ہی پڑھ کر سنا دیتا ۔
وہ نوجوان کہتا ہے کہ میں نے قرآن کا ایک نہیں کئ ہزار معجزے اس دن دیکھے ، جس معاشرے میں قرآن پہ پابندی لگا دی گئ تھی رکھنے پہ ، اس معاشرے کے ہر ہر بچے بوڑھے مرد عورت کے سینوں میں قرآن حفظ ہوکر رہ گیا تھا میں جب باہر نکلا تو کئ سو بچے دیکھے اور ان سے قرآن سننے کی فرمائش کی تو سب نے قرآن سنا دی ، میں نے کہا
” لوگوں ۔۔۔۔۔! تم نے قرآن رکھنے پہ پابندی لگا دی لیکن جو سینے میں قرآن مجید محفوظ ہے اس پہ پابندی نہ لگا سکے ۔تب مجھے احساس ہوا کہ اللہ پاک کے اس ارشاد کا کیا مطلب ہے
إِنَّا نَحنُ نَزَّلْنَا الذِّكرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ::: بے شک یہ ذِکر (قران) ہم نے نازل فرمایا ہے اور بے شک ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں

اصلاح نفس کے چار اصول

🌴🏠🌳🕌🕌🕋🕌🕌🌳🏠🌴
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

*:اصلاح نفس کے چار اصول ہیں*
…………………………………………………………..

*1- “مشارطہ”*
اپنے نفس کیساتھ”شرط” لگانا کہ”گناہ” نہیں کروں گا-

*2- ” مراقبہ”*
کہ آیا “گناہ” تو نہیں کیا-

*3- “محاسبہ”*
کہ اپنا حساب کرے کہ کتنے “گناہ”کیے اور کتنی “نیکیاں” کیں-

*4- “مواخذه”*
کہ”نفس” نے دن میں جو “نافرمانیاں” کیں ھیں اس کو ان کی”سزا” دینا اور وہ سزا یہ ھے کہ اس پر “عبادت” کا بوجھ ڈالے-

(امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ احیاء علوم الدین)
؁؁؁؁؁؁؁؁

Sent from my iPhone

إن موقعوں پر دعا مانگو

:نبی کریم صل اللہ علیہ و سلم نے فرمایا. 
إن موقعوں پر دعا مانگو اس وقت دعا رد نہیں ہو گی. 
1؛-جب دھوپ میں بارش ہو رہی ہو.
2:- جب اذان ہو رہی ہو. 
3:- سفر کے دوران. 
4:-جمعہ کے دن. 
5:-رات کو جب آنکھ کھلے
اس وقت. 
6:-مصیبت کے وقت. 
7:-فرض نماؤں کے بعد. 

Murgh aur Gadhay ki awaz

ابوداؤد ( 5102 ) جلدنمبر 4
حضرت ابوھریرہ رضی اللّٰه عنہ سےروایت ھے کہ
اللّٰه کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ
جب تم مرغ کی آواز سنو تو اللّٰه سے اس کے فضل کا سوال کرو بےشک مرغ نے فرشتے کو دیکھا ھے
اور جب تم گدھے کی آواز سنو تو شیطان سے اللہ کی پناہ طلب کیا کرو بےشک گدھے نے شیطان کو دیکھا ھے گدھا شیطان کو دیکھ کر بولتا ھے

rizq ki farakho

ترجمہ القرآن: ‏﷽
 “اور اگر الله تعالی اپنے تمام بندوں کا رزق وسیع کر دیتا تو یقینا” وه زمین میں فساد پهیلاتے، مگر وه اندازے سے اتارتا هے جتنا چاهے- یقینا” وه اپنے بندوں کی فطرت سے باخبر هے اور انهیں دیکهتا هے”
پارہ: 25
سورہ: الشوری
آیت : 27
السلام علیکم: صبح بخیر.
اے الله تبارک و تعالی همیں رزق حلال کهانے کی توفیق عطا فرما. آمین.

ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﭘﮍﮬﯿﺌﮯ، ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ

ﺍﮔﺮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭘﮑﯽ ﺟﯿﺐ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺍﮮ ﭨﯽ ﺍﯾﻢ ﮐﺎﺭﮈ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺧﺰﺍﻧﻮﮞ ﮐﯽ ﺍﻥ ﭼﺎﺑﯿﻮﮞ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺑﮩﺘﺮ ﮨﮯ ﺟﻨﮩﯿﮟ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﮐﮯ ﻃﺎﻗﺘﻮﺭ ﺗﺮﯾﻦ ﺍﻧﺴﺎﻥ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﻋﺎﺟﺰ ﺗﮭﮯ ﺗﻮ ﻗﺎﺭﻭﻥ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﺑﯿﺘﮯ ﮔﯽ؟

ﺍﮔﺮ ﮐﺴﺮﯼٰ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﯽ ﺑﯿﭩﮭﮏ ﻣﯿﮟ ﺭﮐﮭﺎ ﺻﻮﻓﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺗﺨﺖ ﺳﮯ ﮐﮩﯿﮟ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﺁﺭﺍﻡ ﺩﮦ ﮨﮯ ﺗﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﺩﻝ ﭘﺮ ﮐﯿﺎ ﮔﺰﺭﮮ ﮔﯽ؟

ﺍﻭﺭ ﺍﮔﺮ ﻗﯿﺼﺮ ﺭﻭﻡ ﮐﻮ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﺟﺎﺋﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺷﺘﺮ ﻣﺮﻍ ﮐﮯ ﭘﺮﻭﮞ ﺳﮯ ﺑﻨﮯ ﺟﻦ ﭘﻨﮑﮭﻮﮞ ﺳﮯ ﺍﺳﮯ ﮨﻮﺍ ﭘﮩﻨﭽﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺁﭖ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭘﻨﮑﮭﮯ ﺍﻭﺭﺍﮮ ﺳﯽ ﮐﮯ ﮨﺰﺍﺭﻭﯾﮟ ﺣﺼﮯ ﮐﮯ ﺑﺮﺍﺑﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺗﮭﯽ ﺗﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ؟

ﺁﭖ ﺍﭘﻨﯽ ﺧﻮﺑﺼﻮﺭﺕ ﮐﺎﺭ ﻟﯿﮑﺮ ﮨﻼﮐﻮ ﺧﺎﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﻣﻨﮯ ﻓﺮﺍﭨﮯ ﺑﮭﺮﺗﮯ ﮨﻮﺋﮯ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺋﯿﮯ، ﮐﯿﺎ ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﻮﮌﻭﮞ ﭘﺮ ﻏﺮﻭﺭ ﺍﻭﺭ ﮔﮭﻤﻨﮉ ﮨﻮﮔﺎ ؟

ﮨﺮﻗﻞ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺧﺎﺹ ﻣﭩﯽ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﺻﺮﺍﺣﯽ ﺳﮯ ﭨﮭﻨﮉﺍ ﭘﺎﻧﯽ ﻟﯿﮑﺮ ﭘﯿﺘﺎ ﺗﮭﺎ ﺗﻮ ﺩﻧﯿﺎ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺍِﺱ ﺁﺳﺎﺋﺶ ﭘﺮ ﺣﺴﺪ ﮐﯿﺎ ﮐﺮﺗﯽ ﺗﮭﯽ۔ ﺗﻮ ﺍﮔﺮ ﺍﺳﮯ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﻓﺮﺝ ﮐﺎ ﭘﺎﻧﯽ ﭘﯿﺶ ﮐﺮﯾﮟ ﮔﮯ ﺗﻮ ﻭﮦ ﮐﯿﺎ ﺳﻮﭼﮯ ﮔﺎ؟

ﺧﻠﯿﻔﮧ ﻣﻨﺼﻮﺭ ﮐﮯ ﻏﻼﻡ ﺍﺱ ﮐﯿﻠﺌﮯ ﭨﮭﻨﮉﮮ ﺍﻭﺭ ﮔﺮﻡ ﭘﺎﻧﯽ ﮐﻮ ﻣﻼ ﮐﺮ ﻏﺴﻞ ﮐﺎ ﺍﮨﺘﻤﺎﻡ ﮐﺮﺗﮯ ﺗﮭﮯ ﺍﻭﺭ ﻭﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﻣﯿﮟ ﭘﮭﻮﻻ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﻤﺎﯾﺎ ﮐﺮﺗﺎ ﺗﮭﺎ، ﮐﯿﺴﺎ ﻟﮕﮯ ﮔﺎ ﺍﺳﮯ ﺍﮔﺮ ﻭﮦ ﺗﯿﺮﮮ ﮔﮭﺮ ﻣﯿﮟ ﺑﻨﯽ ﺟﺎﮐﻮﺯﯼ ﺩﯾﮑﮫ ﻟﮯ ﺗﻮ؟

جناب آپ بادشاہوں کی سی راحت ﻣﯿﮟ ﻧﮩﯿﮟ ﺭﮦ ﺭﮨﮯ ﮨﯿﮟ ، ﺑﻠﮑﮧ ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺑﺎﺩﺷﺎﮦ ﺁﭖ ﺟﯿﺴﯽ ﺭﺍﺣﺖ ﮐﺎ ﺳﻮﭺ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﺳﮑﺘﮯ ﺗﮭﮯ۔ ﻣﮕﺮ ﮐﯿﺎ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﺳﮯ ﺗﻮ ﺟﺐ ﺑﮭﯽ ﻣﻠﯿﮟ ﺁﭖ ﺍﭘﻨﮯ ﻧﺼﯿﺐ ﺳﮯ ﻧﺎﻻﮞ ﮨﯽ ﻧﻈﺮ ﺁﺗﮯ ﮨﯿﮟ۔ ﺍﯾﺴﺎ ﮐﯿﻮﮞ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺁﭖ ﮐﯽ ﺟﺘﻨﯽ ﺭﺍﺣﺘﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﻭﺳﻌﺘﯿﮟ ﺑﮍﮪ ﺭﮨﯽ ﮨﯿﮟ ﺁﭖ ﮐﺎ ﺳﯿﻨﮧ ﺍﺗﻨﺎ ﮨﯽ ﺗﻨﮓ ﮨﻮﺗﺎ ﺟﺎ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ !!!

ﺍﻟﺤﻤﺪ ﻟﻠﮧ ﭘﮍﮬﯿﺌﮯ، ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺠﯿﺌﮯ ﺧﺎﻟﻖ ﮐﯽ ﺍﻥ ﻧﻌﻤﺘﻮﮞ ﮐﺎ ﺟﻦ ﮐﺎ ﺷﻤﺎﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮐﯿﺎ ﺟﺎ ﺳﮑﺘﺎ .

……… ﺍﻟﻠﮭﻢ ﺍﻋﻨﯽ ﻋﻠﯽ ﺫﮐﺮﮎ ﻭ ﺷﮑﺮﮎ ﻭ ﺣﺴﻦ ﻋﺒﺎﺩﺗﮏ۔

میں کیا مانگتا ہوں

راتوں کو اٹھ کر
خیالوں سے ہو کر
یادوں میں کھو کر
تمہیں کیا خبر ہے
اپنے رب سے
میں کیا مانگتا ہوں،

ویرانوں میں جا کر
دکھڑے سنا کر
دامن پھیلا کر
آنسو بہا کر
تمہیں کیا خبر
اپنے رٓب سے
میں کیا مانگتا ہوں،

تم تو کہو گے
صنم مانگتا ہوں
غنم مانگتا ہوں
زر مانگتا ہوں
میں گھر مانگتا ہوں
ذمیں مانگتا ہوں
نگیں مانگتا ہوں،

تم تو کہو گے
ہم کو خبر ہے
کہ راتوں کو اٹھ کر
خیالوں سے ہو کر
یادوں میں کھو کر
آنکھیں بگھو کر
کسی دلربا کی
کسی دلنشیں کی
وفا مانگتا ہوں،

یہ بھی غلط ہے
وہ بھی غلط ہے
جو بھی ہے سوچا
سو بھی غلط ہے
نہ صنم مانگتا ہوں
نہ زر مانگتا ہوں
نہ دلربا کی
نہ دلنشیں کی
نہ ماہ جبیں کی
وفا مانگتا ہوں،

تمہیں کیا خبر
اپنے رب س
میں کیا مانگتا ہوں.

میں اپنے رب سے
آدم کے بیٹے کی
آنکھوں سے جاتی،
حیا مانگتا ہوں،
حوا کی بیٹی کے سر سے
اترتی ردا مانگتا ہوں،
اس کڑے وقت میں
ارض وطن کی
بقا مانگتا ہوں.

اللہ سے بات منوانے کا آسان طریقہ

اللہ سے بات منوانے کا آسان طریقہ*
میں نے ایک سفید ریس بزرگ سے ایک سوال پوچھا ’’اللہ تعالیٰ سے بات منوانے کا بہترین طریقہ کیا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے‘ قبلہ رو ہوئے‘ پاؤں لپیٹے‘ رانیں تہہ کیں‘ اپنے جسم کا سارا بوجھ رانوں پر شفٹ کیا اور مجھ سے پوچھا ’’تمہیں اللہ سے کیا چاہیے؟‘‘ ہم دونوں اس وقت جنگل میں بیٹھے تھے‘ حبس اور گرمی کا موسم تھا‘ سانس تک لینا مشکل تھا‘ میں نے اوپر دیکھا‘ اوپر درختوں کے پتے تھے اور پتوں سے پرے گرم‘ پگھلتا ہوا سورج تھا‘ میں نے مسکرا کر عرض کیا ’’ اگر بادل آ جائیں‘ ذرا سی ٹھنڈی ہوائیں چلنے لگیں تو موسم اچھا ہو جائے گا‘‘ وہ ہنسے اور آہستہ سے بولے ’’لو دیکھو‘‘ وہ اس کے بعد بیٹھے بیٹھے رکوع میں جھکے اور پنجابی زبان میں دعا کرنے لگے ’’اللہ جی! کاکے کی دعا قبول کر لے‘ اللہ جی! ہماری سن لے‘‘ وہ دعا کرتے جاتے تھے اور روتے جاتے تھے‘ پہلے ان کی پلکیں گیلی ہوئیں‘ پھر ان کے منہ سے سسکیوں کی آوازیں آئیں اور پھر ان کی آنکھیں چھم چھم برسنے لگیں‘ وہ بری طرح رو رہے تھے۔
میں ان کی حالت دیکھ کر پریشان ہو گیا‘ میں نے زندگی میں بے شمار لوگوں کو روتے دیکھا لیکن ان کا رونا عجیب تھا‘ وہ ایک خاص ردھم میں رو رہے تھے‘ منہ سے سسکی نکلتی تھی‘ پھر آنکھیں برستیں تھیں اور پھر ’’اللہ جی! ہماری سن لے‘‘ کا راگ الاپ بنتا تھا‘ میں پریشانی‘ استعجاب اور خوف کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ انھیں دیکھ رہا تھا‘ وہ دعا کرتے جاتے تھے‘ روتے جاتے تھے اور سسکیاں بھرتے جاتے تھے‘ میں نے پھر وہاں ایک عجیب منظر دیکھا‘ مجھے ہوا ٹھنڈی ہوتی ہوئی محسوس ہوئی‘ آسمان پر اسی طرح گرم سورج چمک رہا تھا لیکن جنگل کی ہوا میں خنکی بڑھتی جا رہی تھی‘ میری پیشانی‘ سر اور گردن کا پسینہ خشک ہو گیا‘ میرے سینے اور کمر پر رینگتے ہوئے قطرے بھی غائب ہو گئے‘ میں ٹھنڈی ہوا کو محسوس کر رہا تھا اور حیران ہو رہا تھا‘ میرے دیکھتے ہی دیکھتے پتوں نے تالیاں بجانا شروع کر دیں‘ شاخیں ایک دوسرے کے ساتھ الجھنے لگیں‘ پودے ہوا کی موسیقی پر ناچنے لگے اور پھر بادل کا ایک ٹکڑا کہیں سے آیا اور سورج اور ہمارے سر کے درمیان تن کر ٹھہر گیا‘ وہ رکے‘ دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور شکر ادا کرنے لگے۔
وہ دیر تک ’’اللہ جی! آپ کا بہت شکر ہے‘ اللہ جی! آپ کی بہت مہربانی ہے‘‘ کہتے رہے‘ وہ دعا سے فارغ ہوئے‘ ذرا سا اوپر اٹھے‘ ٹانگیں سیدھی کیں اور منہ میری طرف کر کے بیٹھ گئے‘ ان کی سفید داڑھی آنسوؤں سے تر تھی‘ انھوں نے کندھے سے رومال اتارا‘ داڑھی خشک کی اور پھر بولے ’’ دیکھ لو! اللہ نے اپنے دونوں بندوں کی بات مان لی‘‘ میں نے ان کا ہاتھ پکڑا‘ چوما اور پھر عرض کیا ’’باباجی لیکن اللہ سے بات منوانے کا فارمولہ کیا ہے‘ اللہ کب‘ کیسے اور کیا کیا مانتا ہے؟‘‘ وہ مسکرائے‘ شہادت کی دونوں انگلیاں آنکھوں پر رکھیں اور پھر بولے ’’ یہ دو آنکھیں فارمولہ ہیں‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’میں نے یہ فارمولہ اپنی ماں سے سیکھا‘ میں بچپن میں جب بھی اپنی سے کوئی بات منوانا چاہتا تھا تو میں رونے لگتا تھا‘ ماں سے میرا رونا برداشت نہیں ہوتا تھا‘ وہ تڑپ اٹھتی تھی‘ وہ مجھے گود میں بھی اٹھا لیتی تھی‘ مجھے چومتی بھی تھی‘ میری آنکھیں بھی صاف کرتی تھی اور میری خواہش‘ میری ضرورت بھی پوری کرتی تھی۔
میں ماں کی اس کمزوری کا جی بھر کر فائدہ اٹھاتا تھا‘ میں رو رو کر اس سے اپنی پسند کے کھانے بھی بنواتا تھا‘ اس سے نئے کپڑے اور نئے جوتے بھی لیتا تھا اور کھیلنے کے لیے گھر سے باہر بھی جاتا تھا‘‘ وہ رکے اور پھر آہستہ سے بولے ’’میں نے جب مولوی صاحب سے قرآن مجید پڑھنا شروع کیا تو مولوی صاحب نے ایک دن فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ انسان سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتا ہے‘ یہ فقرہ سیدھا میرے دل میں لگا اور میں نے سوچا‘ میں رو کر اپنی ایک ماں سے سب کچھ منوا لیتا ہوں‘ اللہ اگر مجھ سے ستر ماؤں جتنی محبت کرتا ہے تو پھر میں رو رو کر اس سے کیا کیا نہیں منوا سکتا‘‘ وہ رکے اور بولے ’’ بس وہ دن ہے اور آج کا دن ہے‘ میں روتا ہوں‘ اللہ کی ذات میں ستر ماؤں کی محبت جگاتا ہوں اور میری ہر خواہش‘ میری ہر دعا قبول ہو جاتی هے