بد گمانی لا علمی سے ھوتی ھے

🌺 *بد گمانی لا علمی سے ھوتی ھے*
🌴*بہت ہی پیارا واقعہ*🌴
نصیحت تو اچھی چیز ھے پر انداز بھی تو اچھا ھونا چاہیے
سوچ سمجھ کر قدم رکھنے سے مسلہ ٹھیک طریقے سے حل ھو جاتا ھے
ﺍﯾﮏ ﺳﻨﺎﺭ ﮐﮯ ﺍﻧﺘﻘﺎﻝ ﮐﮯ ﺑﻌﺪ ﺍﺱ ﮐﺎ ﺧﺎﻧﺪﺍﻥ ﻣﺼﯿﺒﺖ ﻣﯿﮟ ﭘﮍ ﮔﯿﺎ .
ﮐﮭﺎﻧﮯ ﮐﮯ ﺑﮭﯽ ﻻﻟﮯ ﭘﮍ ﮔﺌﮯ .
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﻧﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﻧﯿﻠﻢ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﮨﺎﺭ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ‘ ﺑﯿﭩﺎ، ﺍﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﭼﭽﺎ ﮐﯽ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﺅ .
ﮐﮩﻨﺎ ﯾﮧ ﺑﯿﭻ ﮐﺮ ﮐﭽﮫ ﭘﯿﺴﮯ ﺩﮮ ﺩﯾﮟ .
ﺑﯿﭩﺎ ﻭﮦ ﮨﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﭼﭽﺎ ﺟﯽ ﮐﮯ ﭘﺎﺱ ﮔﯿﺎ .
ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﮨﺎﺭ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﯽ ﻃﺮﺡ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﺮﮐﮫ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﺑﯿﭩﺎ، ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﺍﺑﮭﯽ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ
ﺑﮩﺖ ﻣﻨﺪﺍ ﮨﮯ .
ﺗﮭﻮﮌﺍ ﺭﮎ ﮐﺮ ﻓﺮﻭﺧﺖ ﮐﺮﻧﺎ ، ﺍﭼﮭﮯ ﺩﺍﻡ ﻣﻠﯿﮟ ﮔﮯ .
ﺍﺳﮯ ﺗﮭﻮﮌﮮ ﺳﮯ ﺭﻭﭘﮯ ﺩﮮ ﮐﺮ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ ﺗﻢ ﮐﻞ ﺳﮯ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﮐﺮ ﺑﯿﭩﮭﻨﺎ .
ﺍﮔﻠﮯ ﺩﻥ ﺳﮯ ﻭﮦ ﻟﮍﮐﺎ ﺭﻭﺯ ﻣﺮﮦ ﺩﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺟﺎﻧﮯ ﻟﮕﺎ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﮨﯿﺮﻭﮞ ﻭ ﺟﻮﺍﮨﺮﺍﺕ ﮐﯽ ﭘﺮﮐﮫ ﮐﺎ ﮐﺎﻡ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﻟﮕﺎ .
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﻭﮦ ﺑﮍﺍ ﻣﺎﮨﺮ ﺑﻦ ﮔﯿﺎ .
ﻟﻮﮒ ﺩﻭﺭ ﺩﻭﺭ ﺳﮯ ﺍﭘﻨﮯ ﮨﯿﺮﮮ ﮐﯽ ﭘﺮﮐﮫ ﮐﺮﺍﻧﮯ ﺁﻧﮯ ﻟﮕﮯ .
ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺍﺱ ﮐﮯ ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ﺑﯿﭩﺎ ﺍﭘﻨﯽ ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﻭﮦ ﮨﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﻧﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﻨﺎ ﮐﮧ ﺍﺏ ﻣﺎﺭﮐﯿﭧ ﻣﯿﮟ ﺑﮩﺖ ﺗﯿﺰﯼ ﮨﮯ،
ﺍﺱ ﮐﮯ ﺍﭼﮭﮯ ﺩﺍﻡ ﻣﻞ ﺟﺎﺋﯿﮟ ﮔﮯ .
ﻣﺎﮞ ﺳﮯ ﮨﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﭘﺮﮐﮭﺎ ﺗﻮ ﭘﺎﯾﺎ ﮐﮧ ﻭﮦ ﺗﻮ ﺟﻌﻠﯽ ﮨﮯ .
ﻭﮦ ﺍﺳﮯ ﮔﮭﺮ ﭘﺮ ﮨﯽ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺮ ﺩﮐﺎﻥ ﻟﻮﭦ ﺁﯾﺎ .
ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﭘﻮﭼﮭﺎ، ﮨﺎﺭ ﻧﮩﯿﮟ ﻻﺋﮯ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ، ﻭﮦ ﺗﻮ ﺟﻌﻠﯽ ﺗﮭﺎ .
ﺗﺐ ﭼﭽﺎ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﺟﺐ ﺗﻢ ﭘﮩﻠﯽ ﺑﺎﺭ ﮨﺎﺭ ﻟﮯ ﮐﺮ ﺁﺋﮯ ﺗﮭﮯ، ﺍﺱ ﻭﻗﺖ ﺍﮔﺮ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍﺳﮯ ﺟﻌﻠﯽ ﺑﺘﺎ ﺩﯾﺎ ﮨﻮﺗﺎ ﺗﻮ ﺗﻢ ﺳﻮﭼﺘﮯ ﮐﮧ ﺁﺝ ﮨﻢ ﭘﺮ ﺑﺮﺍ ﻭﻗﺖ ﺁﯾﺎ ﺗﻮ ﭼﭽﺎ ﮨﻤﺎﺭﯼ ﭼﯿﺰ ﮐﻮ ﺑﮭﯽ ﺟﻌﻠﯽ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﻟﮕﮯ .
ﺁﺝ ﺟﺐ ﺗﻤﮩﯿﮟ ﺧﻮﺩ ﻋﻠﻢ ﮨﻮ ﮔﯿﺎ ﺗﻮ ﭘﺘﮧ ﭼﻞ ﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﮨﺎﺭ ﻧﻘﻠﯽ ﮨﮯ .
ﺳﭻ ﯾﮧ ﮨﮯ ﮐﮧ ﻋﻠﻢ ﮐﮯ ﺑﻐﯿﺮ ﺍﺱ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﮨﻢ ﺟﻮ ﺑﮭﯽ ﺳﻮﭼﺘﮯ، ﺩﯾﮑﮭﺘﮯ ﺍﻭﺭ ﺟﺎﻧﺘﮯ ﮨﯿﮟ، ﺳﺐ ﻏﻠﻂ ﮨﮯ .
ﺍﻭﺭ ﺍﯾﺴﮯ ﮨﯽ ﻏﻠﻂ ﻓﮩﻤﯽ ﮐﺎ ﺷﮑﺎﺭ ﮨﻮ ﮐﺮ ﺭﺷﺘﮯ ﺑﮕﮍﺗﮯ ﮨﯿﮟ .

🌴🌺ﺫﺭﺍ ﺳﯽ ﺭﻧﺠﺶ ﭘﺮ، ﻧﮧ ﭼﮭﻮﮌ ﮐﺴﯽ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﮯ ﮐﺎ ﺩﺍﻣﻦ .
ﺯﻧﺪﮔﯽ ﮔﺰﺭ ﺟﺎﺗﯽ ﮨﮯ، ﺍﭘﻨﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﺎ ﺑﻨﺎﻧﮯ ﻣﯿﮟ

ان کی مدد كیجیے

ایک پانچ چھ. سال کا معصوم سا بچہ 👦اپني چھوٹی بہن 👩 کو لے کر مسجد کے ایک طرف کونے میں بیٹھا ہاتھ اٹھا کر اللہ سے نہ جانے کیا مانگ رہا تھا.
کپڑے میں میل لگا ہوا تھا مگر نہایت صاف، اس کے ننھے ننھے سے گال آنسوؤں سے بھیگ چکے تھے.
بہت سے لوگ اس کی طرف متوذو تھے اور وہ بالکل بے خبر اپنے اللہ سے باتوں میں لگا ہوا تھا.
جیسے ہی وہ اٹھا ایک اجنبی نے بڑھ کے اس کا ننھا سا ہاتھ پکڑا اور پوچھا
“کیا مانگا اللہ سے”
اس نے کہا
“میرے پاپا مر گئے ہیں ان کے لئے جنت،
میری ماں روتی رہتی ہے ان کے لئے صبر،
میری بہن ماں سے کپڑے سامان مانگتی ہے اس کے لئے رقم “.
“آپ کو اسکول جاتے ہو”
اجنبی نے سوال کیا.
“ہاں جاتا ہوں” اس نے کہا.
“کس کلاس میں پڑھتے ہو؟” اجنبی نے پوچھا
“نہیں انکل پڑھنے نہیں جاتا، ماں چنے بنا دیتی ہے وہ اسکول کے بچوں کو فروخت کرتا ہوں، بہت سارے بچے مجھ سے چنے خریدتے ہیں، ہمارا یہی کام دھندہ ہے” بچے کا ایک ایک لفظ میری روح میں اتر رہا تھا.
“تمہارا کوئی رشتہ دار”
نہ چاہتے ہوئے بھی اجنبی بچے سے پوچھ بیٹھا.
“پتہ نہیں، ماں کہتی ہے غریب کا کوئی رشتہ دار نہیں ہوتا،
ماں جھوٹ نہیں بولتی،
پر انکل،
مجھے لگتا ہے میری ماں کبھی کبھی جھوٹ بولتا ہے،
جب ہم کھانا کھاتے ہیں ہمیں دیکھتی رہتی ہے،
جب کہتا ہوں
ماں آپ بھی کھاؤ، تو کہتی ہے میں نے کھا لیا تھا، اس وقت لگتا ہے جھوٹ بولتا ہے “
“بیٹا اگر تمہارے گھر کا خرچ مل جائے تو پڑھائی کرو گے؟”
“بلكل نہیں”
“کیوں”
“تعلیم حاصل کرنے والے غریبوں سے نفرت کرتے ہیں انکل،
ہمیں کسی پڑھے ہوئے نے کبھی نہیں پوچھا – پاس سے گزر جاتے ہیں “
اجنبی حیران بھی تھا اور پریشان بھی.
پھر اس نے کہا “ہر روز اسی اس مسجد میں آتا ہوں، کبھی کسی نے نہیں پوچھا – یہاں تمام آنے والے میرے والد کو جانتے تھے – مگر ہمیں کوئی نہیں جانتا
“بچے زور زور سے رونے لگا” انکل جب باپ مر جاتا ہے تو سب اجنبی کیوں ہو جاتے ہیں؟ “
میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا اور نہ ہی میرے پاس بچے کے سوال کا جواب ہے.
ایسے کتنے معصوم ہوں گے جو حسرتوں سے زخمی ہیں
بس ایک کوشش کیجئے اور اپنے ارد گرد ایسے ضرورت مند يتیموں، بےسهاروں کو ڈھونڈيے اور ان کی مدد كیجیے ………
* خود میں اور معاشرے میں تبدیلی لانے کے کوشش جاری رکھیں. * 🎋🌹💐

جس نے غصے پر قابو پا لیا

جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے غصے پر قابو پا لیا اس حال میں کہ وہ بدلہ لینےپرقادرتھا، تو اللہ تعالیٰ قیامت کےدن اس کو تمام مخلوق کے سامنے بلائےگا، اوراختیار دےگا کہ وہ جس حورکو چاہےاپنےلیےچن لے۔
سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر4186

جھوٹ

*جھوٹ*

حافظ ابن قیمؒ نے ایک عجیب واقعہ لکھا ہے،وہ فرماتے ہیں کہ ایک چیونٹی ایک مرتبہ اپنے بل سے نکلی، اسے بل سے باہر مری ہوئی ٹڈی کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ملا،اس نے اسے اُٹھانے کی کوشش کی لیکن وہ اپنی کوشش میں ناکام رہی،چنانچہ اس نے وہ ٹکڑا وہیں چھوڑا اور چلی گئی۔تھوڑی دیر کے بعد اس کے ساتھ کچھ اور چونٹیاں بھی آ گئیں تا کہ وہ سب مل کر اس ٹکڑے کو اُٹھائیں اور لے جائیں۔
ایک آدمی یہ منظر دیکھ رہا تھا، اس نے اس ٹکڑے کو زمین سے اُٹھا کر چھپا دیا، سب چونٹیوں نے اس ٹکڑے کو اِدھر اُدھر تلاش کرنا شروع کردیا، جب انہیں وہ ٹکرا نہ ملا تو باقی سب چونٹیاں چلی گئیں۔ اور اطلاع دینے والی چونٹی وہیں گھومتی رہی،اس آدمی نے وہ ٹکڑا اس کے سامنے رکھ دیا۔اس نے ٹکڑے کو پھر اُٹھانے کی کوشش کی لیکن اس کی یہ کوشش بھی بے سود رہی،چنانچہ وہ پھر گئی اور ان چونٹیوں کو بلا کر لے آئی۔اس آدمی نے کہیں بار ایسا کیا،بالآخر ان چونٹیوں نے تنگ آ کر اس چونٹی کو گھیرے میں لے لیا اور اس کے جسم کا ایک ایک عضو الگ کر دیا۔
اس آدمی نے یہ واقعہ جب اپنے استاد کو سُنایا تو انہوں نے حقیقت سے پردہ اُٹھاتے ہوئے کہا:دوسری چونٹیوں نے اس چونٹی کو اس لیے قتل کیا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی فطرت میں یہ بات ڈال دی ہے کہ جھوٹ بُری چیز ہے،اور جھوٹے کو سزا ملنی چاہئے۔اگرچہ اس ٹکڑے کے نہ ملنے میں اس کا اپنا کوئی قصور نہیں تھا لیکن چونکہ وہ چونٹی ان کے نزدیک جھوٹی ثابت ہو چکی تھی اس لیے انہوں نے مل کر اُسے جان سے ہی مار دیا۔
جھوٹ اس قدر ناپسندیدہ چیز ہے کہ انسان کے علاوہ دیگر مخلوقات بھی اس سے نفرت کرتی ہے۔
(مفتاح دار السعادۃ و منشورولایۃ العلم 243)

دنیا کے درخت کے بدلے جنت کا درخت

سرکارِ دو عالم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہما کے درمیان تشریف فرما تھے کہ ایک یتیم جوان شکایت لیئے حاضر خدمت ہوا۔ کہنے لگا یا رسول اللہ؛ میں اپنی کھجوروں کے باغ کے ارد گرد دیوار تعمیر کرا رہا تھا کہ میرے ہمسائے کی کھجور کا ایک درخت دیوار کے درمیان میں آ گیا۔ میں نے اپنے ہمسائے سے درخواست کی کہ وہ اپنی کھجور کا درخت میرے لیئے چھوڑ دے تاکہ میں اپنی دیوار سیدھی بنوا سکوں، اُس نے دینے سے انکار کیا تو میں نے اُس کھجور کے درخت کو خریدنے کی پیشکس کر ڈالی، میرے ہمسائے نے مجھے کھجور کا درخت بیچنے سے بھی انکار کر دیا ہے۔
سرکار صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس نوجوان کے ہمسائے کو بلا بھیجا۔ ہمسایہ حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے نوجوان کی شکایت سُنائی جسے اُس نے تسلیم کیا کہ واقعتا ایسا ہی ہوا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے فرمایا کہ تم اپنی کھجور کا درخت اِس نوجوان کیلئے چھوڑ دو یا اُس درخت کو نوجوان کے ہاتھوں فروخت کر دو اور قیمت لے لو۔ اُس آدمی نے دونوں حالتوں میں انکار کیا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو ایک بار پھر دہرایا؛ کھجور کا درخت اِس نوجوان کو فروخت کر کے پیسے بھی وصول کر لو اور تمہیں جنت میں بھی ایک عظیم الشان کھجور کا درخت ملے گا جِس کے سائے کی طوالت میں سوار سو سال تک چلتا رہے گا۔
دُنیا کےایک درخت کے بدلے میں جنت میں ایک درخت کی پیشکش ایسی عظیم تھی جسکو سُن کر مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام رضی اللہ عنہما دنگ رہ گئے۔ سب یہی سوچ رہے تھے کہ ایسا شخص جو جنت میں ایسے عظیم الشان درخت کا مالک ہو کیسے جنت سے محروم ہو کر دوزخ میں جائے گا۔ مگر وائے قسمت کہ دنیاوی مال و متاع کی لالچ اور طمع آڑے آ گئی اور اُس شخص نے اپنا کھجور کا درخت بیچنے سے انکار کردیا۔
مجلس میں موجود ایک صحابی (ابا الدحداح) آگے بڑھے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، اگر میں کسی طرح وہ درخت خرید کر اِس نوجوان کو دیدوں تو کیا مجھے جنت کا وہ درخت ملے گا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا ہاں تمہیں وہ درخت ملے گا۔
ابا الدحداح اُس آدمی کی طرف پلٹے اور اُس سے پوچھا میرے کھجوروں کے باغ کو جانتے ہو؟ اُس آدمی نے فورا جواب دیا؛ جی کیوں نہیں، مدینے کا کونسا ایسا شخص ہے جو اباالدحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کو نہ جانتا ہو، ایسا باغ جس کے اندر ہی ایک محل تعمیر کیا گیا ہے، باغ میں میٹھے پانی کا ایک کنواں اور باغ کے ارد گرد تعمیر خوبصورت اور نمایاں دیوار دور سے ہی نظر آتی ہے۔ مدینہ کے سارے تاجر تیرے باغ کی اعلٰی اقسام کی کھجوروں کو کھانے اور خریدنے کے انتطار میں رہتے ہیں۔
ابالداحداح نے اُس شخص کی بات کو مکمل ہونے پر کہا، تو پھر کیا تم اپنے اُس کھجور کے ایک درخت کو میرے سارے باغ، محل، کنویں اور اُس خوبصورت دیوار کے بدلے میں فروخت کرتے ہو؟
اُس شخص نے غیر یقینی سے سرکارِ دوعالم کی طرف دیکھا کہ کیا عقل مانتی ہے کہ ایک کھجور کے بدلے میں اُسے ابالداحداح کے چھ سو کھجوروں کے باغ کا قبضہ بھی مِل پائے گا کہ نہیں؟ معاملہ تو ہر لحاظ سے فائدہ مند نظر آ رہا تھا۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اور مجلس میں موجود صحابہ کرام رضی اللہ عنہما نے گواہی دی اور معاملہ طے پا گیا۔
ابالداحداح نے خوشی سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا اور سوال کیا؛ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، جنت میں میرا ایک کھجور کا درخت پکا ہو گیا ناں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ ابالدحداح سرکار صلی اللہ علیہ وسلم کے جواب سے حیرت زدہ سے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بات کو مکمل کرتے ہوئے جو کچھ فرمایا اُس کا مفہوم یوں بنتا ہے کہ؛ اللہ رب العزت نے تو جنت میں ایک درخت محض ایک درخت کے بدلے میں دینا تھا۔ تم نے تو اپنا پورا باغ ہی دیدیا۔ اللہ رب العزت جود و کرم میں بے مثال ہیں اُنہوں نے تجھے جنت میں کھجوروں کے اتنے باغات عطاء کیئے ہیں کثرت کی بنا پر جنکے درختوں کی گنتی بھی نہیں کی جا سکتی۔ ابالدحداح، میں تجھے پھل سے لدے ہوئے اُن درختوں کی کسقدر تعریف بیان کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اِس بات کو اسقدر دہراتے رہے کہ محفل میں موجود ہر شخص یہ حسرت کرنے لگا اے کاش وہ ابالداحداح ہوتا۔
ابالداحداح وہاں سے اُٹھ کر جب اپنے گھر کو لوٹے تو خوشی کو چُھپا نہ پا رہے تھے۔ گھر کے باہر سے ہی اپنی بیوی کو آواز دی کہ میں نے چار دیواری سمیت یہ باغ، محل اور کنواں بیچ دیا ہے۔
بیوی اپنے خاوند کی کاروباری خوبیوں اور صلاحیتوں کو اچھی طرح جانتی تھی، اُس نے اپنے خاوند سے پوچھا؛ ابالداحداح کتنے میں بیچا ہے یہ سب کُچھ؟
ابالداحداح نے اپنی بیوی سے کہا کہ میں نے یہاں کا ایک درخت جنت میں لگے ایسے ایک درخت کے بدلے میں بیچا ہے جِس کے سایہ میں سوار سو سال تک چلتا رہے۔
ابالداحداح کی بیوی نے خوشی سے چلاتے ہوئے کہا؛ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔ ابالداحداح، تو نے منافع کا سودا کیا ہے۔
مسند احمد ٣/١٤٦،
تفسیر ابن کثیر جز ٢٧، صفحہ ٢٤٠ پر بھی یہی واقعہ مختصر الفاظ میں موجود ہے
****
دنیا کی قُربانی کے بدلے میں آخرت کی بھلائی یا دُنیا میں اُٹھائی گئی تھوڑی سی مشقت کے بدلے کی آخرت کی راحت۔۔۔۔ کون تیار ہے ایسے سودے کیلئے؟؟؟ زندگی کی سمت متعین کرنے کیلئے آپ سوچیئے گا ضرور۔۔۔

دنیا انسانیت سے خالی

دنیا تعلیم یافتہ لوگوں سے تو بھر گئی…
مگر انسانیت سے خالی ہو گئی.‏‎..‎

پہلے دو لوگ لڑتے تھے تو تیسرا صلح کرواتا تھا‎…‎
مگر اب
 تیسرا ویڈیو بناتا ہے

مولوی کی تعریف

مولوی کی تعریف
ﻣﻮﻟﻮﯼ …….
ﮔﻮﺷﺖ ﭘﻮﺳﺖ ﮐﮯ ﺑﺠﺎﺋﮯ ﭘﻼﺳﭩﮏ ﺍﻭﺭﻟﻮﮬﮯ ﺳﮯ ﺑﻨﯽ ﺍﺱ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﻧﺎﻡ
ﮬﮯ ﺟﺲ ﮐﯽ ﮐﻮﺋﯽ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮬﮯ ﻧﮧ ﺣﺎﺟﺖ ,ﮐﻮﺋﯽ ﺧﻮﺍﮬﺶ ﮬﮯ ﻧﮧ
ﺗﻤﻨﺎ ,ﮐﻮﺋﯽ ﺁﺭﺯﻭ ﮬﮯ ﻧﮧ ﺧﻮﺍﺏ
ﺟﺲ ﮐﺎ ﮬﺮ ﮐﺎﻡ ﺩﻡ ﺍﻭﺭﮬﺮ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﺩﻋﺍ ﺳﮯ ﭘﻮﺭﯼ ﮬﻮﺟﺎﺗﯽ ﮬﮯ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﮔﮭﺮ ﮐﮯ ﭼﻮﻟﮭﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺗﻨﺨﻮﺍﮦ ﮐﯽ ﻧﮭﯿﮟ ﮐﺮﺍﻣﺖ ﮐﯽ
ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮬﻮﺗﯽ ﮬﮯ
ﺟﺲ ﮐﮯ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﻗﻢ ﮐﯽ ﻧﮭﯿﮟ ﺑﺲ ﺍﯾﮏ ﻋﺪﺩ ﭼﻒ
ﮐﺎﻓﯽ ﮬﮯ
ﺟﺲ ﮐﺎ ﮐﻮﺋﯽ ﺣﻖ ﻧﮭﯿﮟ
ﺟﺲ ﻧﮯ ﺁﺝ ﮐﮯ ﺍﺱ ﻣﮭﻨﮕﺎﺋﯽ ﮐﮯ ﺩﻭﺭﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺻﺮﻑ پانچ ﯾﺎ
چھ ﮬﺰﺍﺭﻣﯿﮟ ﮬﻤﺎﺭﯼ ﻧﻤﺎﺯﯾﮟ ﺑﮭﯽ ﭘﮍﮬﺎﻧﯽ ﮬﯿﮟ ۔
ﺍﺫﺍﻧﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﻨﯽ ﮬﯿﮟ ﺟﻨﺎﺯﮮ ﺑﮭﯽ ﺍﭨﮭﺎﻧﮯ ﮬﯿﮟ
ﻧﮑﺎﺡ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻭﺍﻧﮯ ﮬﯿﮟ
ﺑﭽﻮﮞ ﮐﻮ ﻗﺮﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﺳﮑﮭﺎﻧﺎ ﮬﮯ ﮬﻤﯿﮟ ﻣﺴﺎﺋﻞ ﺑﮭﯽ ﺑﺘﺎﻧﮯ ﮬﯿﮟ
ﻭﻋﻆ ﻭ ﺧﻄﺎﺑﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﯽ ﮬﮯ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺳﻨﺖ ﺑﮭﯽ ﺳﻤﺠﮭﺎﻧﯽ ﮬﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﯿﺪﺍ ﮬﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﮐﺎﻥ ﻣﯿﮟ ﺍﺫﺍﻥ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻨﯽ ﮬﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺮﺭﺭﮬﺎ
ﮬﻮ ﺍﺳﮯ ﮐﻠﻤﮯ ﮐﯽ ﺗﻠﻘﯿﻦ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﯽ ﮬﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯽ ﮬﻮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻋﺎﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﯽ ﮬﮯ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﯿﻤﺎﺭﯼ ﮬﻮ
ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺩﻡ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﮯ
ﮐﻮﺋﯽ ﺑﯿﻮﯼ ﮐﻮ ﻃﻼﻕ ﺩﮮ ﺩﮮ ﺍﺱ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺭﺍﺳﺘﮧ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﺎﻟﻨﺎ ﮬﮯ
. ﺭﺍﺕ ﮐﻮ ﺑﭽﮧ ﮈﺭﺗﺎ ﮬﻮ ﺍﺱ ﮐﺎ ﮈﺭ ﺑﮭﯽ ﻧﮑﺎﻟﻨﺎ ﮬﮯ
ﭘﯿﺪﺍﺋﺶ ﮐﮯ ﻭﻗﺖ ﺳﮯ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﻮﺕ ﺗﮏ ﮐﮯ ﺗﻤﺎﻡ ﺑﮍﮮ ﺍﻭﺭﺍﮬﻢ ﻣﺴﺎﺋﻞ
ﻭﻣﻮﺍﻗﻊ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﮯ ﻧﻤﭩﺎﻧﮯ
ﮬﯿﮟ
ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﮐﻮ ﺍﻏﯿﺎﺭﮐﮯ ﺣﻤﻠﻮﮞ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﮬﮯ , ﺷﺮﯾﻌﺖ ﻭﻃﺮﯾﻘﺖ
ﮐﻮ ﻏﺪﺍﺭﻭﮞ ﮐﯽ ﻣﻼﻭﭦ ﺳﮯ ﺑﮭﯽ ﺑﭽﺎﻧﺎ ﮬﮯ
ﺩﯾﻦ ﮐﯽ ﺟﻐﺮﺍﻓﯽ ﺳﺮﺣﺪﻭﮞ ﮐﯽ ﺣﻔﺎﻇﺖ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﯽ ﮬﮯ , ﺍﺳﻼﻡ ﮐﮯ
ﺩﺍﺧﻠﯽ ﻓﺘﻨﻮﮞ ﮐﺎ ﺩﻓﺎﻉ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﺎ ﮬﮯ
ﻟﯿﮑﻦ ﺍﺳﯽ ﭘﺮ ﺑﺲ ﻧﮭﯿﮟ ﮬﻢ ﻧﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻣﯿﮟ ﺑﺎﺗﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﮔﮭﺴﺎﻧﯽ ﮬﯿﮟ
, ﻃﻌﻨﮯ ﺑﮭﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﮬﯿﮟ
ﻃﻨﺰ ﺑﮭﯽ ﮐﺮﻧﮯ ﮬﯿﮟ ﮬﺮﻭﺍﻗﻌﮧ ﮐﺎ ﻗﺼﻮﺭﻭﺍﺭﺑﮭﯽ ﭨﮭﺮﺍﻧﺎ ﮬﮯ
ﻣﻮﻟﻮﯼ ﭘﺮ ﺗﺮﻗﯽ ﻧﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﻟﺰﺍﻡ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺎﻧﺎ ﮬﮯ
ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺣﺪﯾﺚ ﺳﯿﮑﮭﻨﮯ ﺳﮑﮭﺎﻧﮯ ﻭﺍﻟﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺳﮯ ﮬﻢ ﺳﺎﺋﻨﺴﯽ
ﺍﯾﺠﺎﺩﺍﺕ ﺍﻭﺭﺗﺮﻗﯽ ﮐﯽ ﺍﻣﯿﺪ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﺑﯿﭩﮭﮯ ﮬﯿﮟ
ﺁﺝ ﺗﮏ ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﺎ ﺑﺤﺮﺍﻥ ﺁﻧﮯ ﺩﯾﺎ ﺍﺱ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﮯ ؟
ﺁﺝ ﺗﮏ ﮐﻮﺋﯽ ﻣﺴﻠﮧ ﺍﯾﺴﺎ ﮬﮯ ﺟﺲ ﮐﺎ ﺷﺮﻋﯽ ﺣﻞ ﻗﺮﺁﻥ ﻭﺳﻨﺖ ﺳﮯ ﻧﮧ
ﻧﮑﺎﻻ ﮬﻮ ؟
ﺷﺮﯾﻌﺖ ﮐﮯ ﺣﻮﺍﻟﮯ ﺳﮯ ﮐﺒﮭﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻻﺟﻮﺍﺏ ﮬﻮﺍ ؟
ﺍﺱ ﻧﮯ ﺟﺲ ﮐﺎﻡ ﮐﺎ ﺑﯿﮍﮦ ﺍﻭﺭﭨﮭﯿﮑﮧ ﺍﭨﮭﺎﯾﺎ ﮬﮯ ﮐﯿﺎ ﺍﺱ ﻣﯿﮟ ﮐﺴﯽ ﻗﺴﻢ
ﮐﯽ ﮐﻤﯽ ﮬﮯ؟
ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺗﻮ ﺁﺝ ﺑﮭﯽ ﻣﻔﺴﺮ ﯾﻦ ﭘﯿﺪﺍ ﮐﺮﺭﮬﺎﮬﮯ ﺍﻣﺖ ﮐﻮ ﻣﺤﺪﺛﯿﻦ ﺩﮮ
ﺭﮬﺎﮬﮯ
ﺧﻄﺒﺎﺀ ﻭﻋﻈﺎﺀ و ﺻﻠﺤﺎﺀ ﺷﺮﻓﺎﺀ ﮐﺲ ﻓﻦ ﻣﯿﮟ ﺭﺟﺎﻝ ﮐﯽ ﮐﻤﯽ
ﮐﯽ ﮬﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﮯ ؟
ﮬﺮ ﺩﻭﺭﮐﯽ ﮬﺮ ﺿﺮﻭﺭﺕ ﭘﻮﺭﯼ ﻧﮭﯽ ﮐﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﻧﮯ؟
ﻟﯿﮑﻦ ﻧﮭﯿﮟ
ﭘﮭﺮ ﺑﮭﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺩﮬﺸﺖ ﮔﺮﺩ ﮬﮯ .
ﭘﮭﺮﺑﮭﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺗﺸﺪﺩ ﭘﺴﻨﺪ ﮬﮯ
ﺍﮔﺮﺳﺎﺋﻨﺴﯽ ﺗﺮﻗﯽ ﻧﮭﯿﮟ ﮬﻮﺭﮬﯽ ﺗﻮ ﻗﺼﻮﺭﻭﺍﺭﻣﻮﻟﻮﯼ ﮬﮯ
ﺍﻣﻦ ﻧﮭﯿﮟ ﮬﮯ ﺗﻮﻏﻠﻄﯽ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﯽ ﮬﮯ
ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﻮﻣﺤﺒﺖ ﮐﺎ ﺣﻖ ﺗﻮ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﮭﯿﮟ
ﺑﯿﻮﯼ ﺑﭽﻮﮞ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺳﯿﺮﻭﺗﻔﺮﯾﺢ ﺗﮏ ﮐﯽ ﺍﺟﺎﺯﺕ ﻧﮭﯿﮟ
ﺟﺬﺑﺎﺕ ﻭﺍﺣﺴﺎﺳﺎﺕ ﺳﮯ ﺗﻮ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺑﺎﻟﮑﻞ ﻧﺎﻭﺍﻗﻒ ﮬﮯ
ﻣﻮﻟﻮﯼ ﺗﻮ ﺳﯿﻨﮯ ﻣﯿﮟ ﺩﻝ ﮐﯽ ﺟﮕﮧ ﭘﺘﮭﺮ ﺑﻠﮑﮧ ﭼﭩﺎﻥ ﺭﮐﮭﺘﺎ ﮬﮯ
ﺍﺭﮮ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﻮﺋﯽ ﻓﺮﺷﺘﮧ ﻧﮭﯿﮟ ﻭﮦ ﺑﮭﯽ ﺍﺳﯽ ﻣﻌﺎﺷﺮﮮ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻓﺮﺩ
ﮬﮯ
ﺗﻮ ﭘﮭﺮ ﻣﻌﯿﺎﺭﺍﻭﺭﺗﺮﺍﺯﻭﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻟﮓ ﮐﯿﻮﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﻟﺌﮯ ﺍﻟﮓ ﮐﯿﻮﮞ؟؟
ﺁﭖ ﮐﮯ ﺍﺧﺮﺍﺟﺎﺕ ﭘﭽﺎﺱ ﮬﺰﺍﺭﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﭘﻮﺭﮮ ﻧﮭﯿﮟ ﮬﻮﺭﮬﮯ ﻣﻮﻟﻮﯼ ﮐﮯ
پانچ ہزار میں ﮐﯿﺴﮯ ﭘﻮﺭﮮ ﮬﻮ ﺭﮬﮯ ﮬﯿﮟ ؟؟

Ma ki dua

“ایک واقعہ:ایک سبق”

امام حرم،امام کعبہ ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس ایک واقعہ بیان کرتے ہیں:
ایک لڑکا تھا،اس کی عمر یہی کوئی نو،دس برس رہی ہوگی۔وہ بھی اپنی عمر کے لڑکوں کی طرح شریر تھا،بلکہ شاید اس سے کچھ زیادہ ہی…….

( یہ وہ دور تھا،جب نہ آج کی طرح بجلی پنکھے تھے،نہ گیس کے چولہے،گھر بھی مٹی کے،چولہا بھی مٹی کا ہوا کرتا تھا،اور نہ اس زمانہ میں دولت کی اس قدر ریل پیل تھی،جو آج دیکھی جارہی ہے )

ایک دن اس کے گھر مہمان آگئے، اس کی ماں نے اپنے مہمانوں کے لئے کھانا تیار کیا، یہ لڑکا بھی قریب ہی دوستوں کے ہمراہ کھیل رہا تھا، ماں نے جیسے ہی سالن تیار کیا،بچہ نے شرارت سے اس سالن میں مٹی ڈال دی۔
اب آپ خود ہی اس ماں کی مشکل کا اندازہ کر سکتے ہیں،غصے کا آنا بھی فطری تھا……..
غصہ سے بھری ماں نے صرف اتنا کہاکہ :
“جا تجھے اللہ کعبہ کا امام بنادے”

اتنا سنا کر ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس رو پڑے اور کہنے لگے:
آپ جانتے ہو کہ یہ شریر لڑکا کون تھا؟
پھر خود ہی جواب دیتے ہیں:
وہ شریر لڑکا “میں” تھا،جسے آج دنیا دیکھتی ہے کہ وہ کعبہ کا امام بنا ہوا ہے۔

ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس کسی بھی تعارف کے محتاج نہیں ہیں،
2010 تک کے عالمی سروے رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی کہ امام کعبہ عبد الرحمان السدیس اس وقت پوری دنیا کے مسلمانوں کی مقبول ترین شخصیت ہیں۔اللہ نے ان کو دنیا کی سب سے بڑی سعادت عطا کی کہ ان کو اپنے گھر کا امام بنادیا،اب نہ صرف وہ امام کعبہ ہیں، بلکہ حرمین کی نگران کمیٹی کے صدر اور امام اﻷئمة ہیں۔

ڈاکٹر عبدالرحمن السدیس یہ واقعہ کئی بار سنا چکے ہیں،اور جب بھی سناتے ہیں،جذباتی ہوجاتے ہیں۔
ابھی پچھلے ماہ یہ واقعہ سنا کر انہوں نے ماووں کو اس جانب توجہ دلائی ہے کہ وہ اولاد کے معاملے میں ذرا دھیان دیں،اور غصہ یا جذبات سے مغلوب ہوکر اپنی اولاد کو برابھلا نہ کہہ بیٹھیں۔کیونکہ ماووں کے لب کی “ہلکی سی جنبش”اولاد کا نصیب لکھ دیتی ہے۔

توجہ طلب بات یہ ہیکہ ہمارے معاشرہ میں والدین، بالخصوص مائیں اولاد کی غلطیوں پر ان کو برا بھلا کہہ دیتی ہیں،اور انکے لئے ہدایت اور صالح بننے کی دعا کرنے بجائے بددعا کر بیٹھتی ہیں۔

آپ سب یاد رکھئے کہ ایمان اور صحت کے بعد اس دنیا کی سب سے بڑی نعمت “اولاد” ہے۔حتی کہ قرآن میں اولاد کو “آنکھوں کا قرار” کہا گیا ہے،زندگی کی رونق مال یا مکان یا خوبصورت لباس سے نہیں ہے،بلکہ زندگی کی تمام تر بہاریں اور رونقیں اولاد کے دم سے وابستہ ہیں،یہی وجہ ہیکہ ابراہیم علیہ السلام اور زکریا علیہ السلام جیسے جلیل القدر پیغمبروں نے ‘نبوت’ کی سعادت رہنے کے باوجود اللہ سے اولاد مانگیں؛
لہذا ہر اس عورت کا جو “ماں” ہے،فرض بنتا ہے کہ اپنے بچوں کی قدر کریں،اور ہمیشہ ان کے لئے دعا کرتے ہیں،بچے تو بچے ہی ہوا کرتے ہیں،وہ شرارت نہ کریں تو کیا بوڑھے شرارت کریں؟؟؟
کبھی بچوں کی شرارت سے تنگ آکر ان کو برا بھلا مت کہیں،کہیں ایسا نہ ہو کہ بعد میں پچھتانا پڑے
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہوسلم نے بھی اس سے منع کیا ہے،ہم یہاں حدیث کا مفہوم ذکرکررہے ہیں:
اپنے لئے،اپنے بچوں کے لئے،اپنے ماتحت لوگوں کے لئے اللہ سے بری (غلط) دعا نہ مانگو،ہوسکتا ہے کہ جب تم ایسا کررہے ہو،وہ وقت دعاووں کے قبول کر لئے جانے کا وقت ہو…….

ماں باپ کے منہ سے نکلے جملے کبھی اولاد کا مقدر لکھ دیتے ہیں۔اسی لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے کہ:
اپنی اولاد کو عزت دو،اور ان کی قدر کرو،کیونکہ وہ تمہارے بعد تمہارا نشان بن جاتے ہیں۔(یعنی والدین کی وفات کے بعد اولاد کے دم سے ان کا نام باقی رہتا ہے)

انوکھی بیوی

انوکھی بیوی 
اللہ تعالیٰ ایسی بیوی ہر مسلمان کو عنایت فرمائیں!!!
بڑا ہی دلچسپ مکالمہ ہے ، پوراپڑھے بغیر حق ادا نہیں ہو گا…
یہ مسلم معاشروں کی ضرورت بنتی جارہی ہے کہ ہم ایسا کریں.!!!
بیوی: آپ کبھی دن میں ڈیوٹی پہ جاتے ہیں تو کبھی رات میں؟ پھر آپ کی ہفتہ وار چھٹیاں بھی بدلتی رہتی ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ باقی سب لوگ تو ہمیشہ دن میں ڈیوٹی پہ جاتے ہیں اور ان کی ہمیشہ ہفتہ اتوار ہی کو چھٹی ہوتی ہے۔
شوہر: اری او نیک بخت! تجھے تو پتہ ہے کہ میں ایک فیکٹری میں کام کرتا ہوں جبکہ باقی لوگ دفتروں میں کام کرتے ہیں۔ دفتر وں میں صبح نو بجے سے شام پانچ بجے تک کام ہوتا ہے۔ ہر دفتر ہفتہ اتوار کے علاوہ سرکاری تعطیلات پر بھی بند رہتا ہے۔ جبکہ اکثر بڑی فیکٹریوں میں تو چوبیس گھنٹہ کام ہوتا ہے۔ ہفتہ اتوارکے علاوہ سرکاری تعطیلات میں بھی یہ فیکٹریاں بند نہیں ہوتیں۔
بیوی: فیکٹریوں میں چوبیس گھنٹہ کام کیوں ہوتا ہے؟ یہ لوگ رات کو اور چھٹیوں والے دن فیکٹری بند کیوں نہیں کرتے؟
شوہر: اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔ ایک تو یہ کہ بعض فیکٹریاں اتنی آسانی سے بند اور کھولی نہیں جاسکتیں۔ جیسے آئل ریفائنریز، مصنوعی کھاد کی فیکٹریاں، اور اسی طرح کی دوسری ہیوی کیمیکلز انڈسٹریز کو اسٹارٹ کرنے اور پروڈکٹ بنانا شروع کرنے میں ہی کئی دن لگ جاتے ہیں۔ اسی لئے اسے روزانہ بند نہیں کیا جاسکتا بلکہ ایک بار اسٹارٹ ہوجائے تو مسلسل چلایا جاتا ہے۔ یہ صرف خرابی یا مرمت کی صورت میں ہی بند ہوتا ہے۔
بیوی: اور دوسری وجہ؟
شوہر: دوسری وجہ ہم لوگوں کی “ضرورت” ہے۔ جیسے بجلی پیدا کرنے والے پاور ہاؤسز۔ ریلوے، جہاز، بڑے ہوٹلز، پولیس کا محکمہ وغیرہ۔ ان اداروں کی خدمات معاشرے کو ہر وقت درکار ہوتی ہے۔ خواہ دن ہو یا رات، عید بقرعید ہو یا دیگر سرکاری تعطیلات، ان محکموں کا آپریشنل ڈپارٹمنٹ ہر وقت کام کرتا رہتا ہے، بڑی فیکٹریوں کی طرح۔
بیوی: پھر ان ادارون میں لوگ چھٹی کیسے کرتے ہیں؟
شوہر: اب مجھے ہی دیکھ لو، میں دو دن علی الصباح ڈیوٹی پہ جاتا ہوں، پھر دو دن دوپہرکو تو اگلے دو دن رات کو۔ اور چھہ دن کی ڈیوٹی کے بعد دو دن کی ہفتہ وار چھٹی ہوتی ہے۔ میں جس پوسٹ پہ کام کرتا ہوں، اسی پوسٹ پہ کل چار آدمی کام کرتے ہیں۔ آٹھ آٹھ گھنٹہ کی تین شفٹوں میں تین لوگ باری باری کام کرتے ہیں جبکہ چوتھا فرد چھٹی پہ ہوتا ہے۔ اسی قسم کے ملتے جلتے شیڈیول میں کارخانوں اور لازمی سروسز کے ادارے چوبیس گھنٹے اور سال بھر خدمات بھی فراہم کرتے ہیں اور ہر فرد کو آٹھ گھنٹہ روزانہ ڈیوٹی دینے کے بعد ہر ہفتہ دو دن کی تعطیلات بھی ملتی ہیں۔
بیوی: تو گویا آپ مرد لوگ دن بھر میں صرف آٹھ گھنٹہ کام کرتے ہیں اور باقی سولہ گھنٹہ میں تفریح یا آرام۔ اس کے علاوہ ہر ہفتہ دو دن کی تعطیلات بھی۔ سالانہ، اتفاقی اور بیماری کی تعطیلات اس کے علاوہ ہیں۔ بھئی آپ لوگوں کے تو بڑے مزے ہیں ۔
شوہر: ہاں یہ تو ہے۔
بیوی: اور ہم عورتوں کے لئے؟
شوہر: کیا مطلب ؟
بیوی: میرا مطلب ہے کہ ہم خواتین خانہ کے اوقاتِ کار کا بھی کوئی حساب کتاب ہے یا نہیں؟ ہم دن بھر میں کتنے گھنٹہ کام کریں؟ ہفتہ میں کتنے دن کی چھٹی کریں؟ کیا ہمارے لئے کام کا دورانیہ نہیں ہونا چاہئے یا ہم چند گھنٹہ سونے کے علاوہ باقی تمام گھنٹہ مسلسل کام کریں؟ اور وہ بھی بغیر کسی قسم کے ہفت وار اور دیگر تعطیلات کے؟
شوہر: (مسکراتے ہوئے): بھئی تم لوگ عورتیں جو ہوئیں۔ تم لوگوں کے کام کے اوقات بھلا کیسے مقرر ہوسکتے ہیں۔ تمہیں تو گھر میں کام کرنا ہی پڑتا ہے؟
بیوی: کیا ہم لوگ انسان نہیں ہیں؟
شوہر: انسان تو ہو بھئی! اس سے کس کو انکار ہے؟
بیوی: پھر ہم لوگ کیا جسمانی طور پر مردوں سے زیادہ طاقتور ہیں؟
شوہر: (سوچتے ہوئے) نہیں ایسا بھی نہیں ہے۔
بیوی: پھر ہم لوگ مسلسل اٹھا رہ اٹھارہ گھنٹہ کیوں کام کرتی رہیں۔ دن رات کی تمیز کے بغیر، ہفت وار تعطیلات کے بغیر، سالانہ چھٹیوںکے بغیر، بیماری کی تعطیلات کے بغیر
شوہر: بھئی میری تو سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ تم کہنا کیا چاہتی ہو۔
بیوی: یہی کہ ہم بھی اگر انسان ہیں اور آپ مردوں سے جسمانی طور پر کمزور بھی تو ہم بھی دن میں آٹھ گھنٹہ ہی کام کریں اور بقیہ سولہ گھنٹہ آرام اور تفریح اور ہر ہفتہ دو دن کی تعطیلات بھی تاکہ اپنے میکہ یا کسی عزیز رشتہ دار یا سہیلیوں کے گھر ملنے جلنے جاسکیں، کوئی کام کئے بغیر یہ دو دن گزار سکیں۔
شوہر: لیکن یہ ہوگا کیسے؟ پھر گھر کون دیکھے گا؟ بچوں کو کون دیکھے گا؟ کھانا کون پکائے گا؟ اور سب سے بڑھ کر (مسکراتے ہوئے) ہماری دیکھ بھال کون کرے گا؟؟ اگر تم نے بھی فیکٹری کے کارکنوں کی طرح گھنٹوں کا حساب کتاب کرن شروع کردی تو؟؟؟
بیوی: ذرا سوچئے کہ کیا آپ مرد لوگ ہم عورتوں کے ساتھ کام کے سلسلہ میں ظلم نہیں کر رہے۔ ساری آسانیاں اپنے لئے اور کام اور کام صرف ہم عورتوں کے لئے؟ شادی سے قبل گھر میں ہم لوگ سب مل جل کر کام کیا کرتے تھے۔ ہم چار بہنیں ہیں۔ امی نے بچپن ہی سے گھر کے کام سارے بہنوں میں تقسیم کر دیئے تھے۔ اس طرح گھر کے کام کا بوجھ کسی ایک پر نہیں پڑتا تھا اور امی بھی ریلکس رہتی تھیں؟
شوہر:(مسکراتے ہوئے) پھر ٹھیک ہے جب ہماری بھی چار بیٹیاں ہوجائیں گی تو تم بھی۔۔۔
بیوی: اللہ آپ میری سنجیدہ بات کو مذاق میں نہ ٹالیں۔ ابھی تو ہماری شادی کو چند ہی مہینے ہوئے ہیں اور ہم رہتے بھی فیکٹری کی کالونی میں ہیں۔ یہاں تو میرے اِن لاز بھی موجود نہیں ہیں۔۔۔
شوہر:یہ تو تمہارے لئے خوشی کی بات ہے کہ تم گھر کی بلا شرکتِ سسرال مالکہ ہو۔۔۔
بیوی: کیا آپ نے مجھے روایتی بہو سمجھ رکھا ہے جو۔۔۔ میں سسرال والوں اور میکہ والوں میں کوئی فرق نہیں کرتی۔ دونوں ہی میرے لئے یکساں محترم ہیں۔
شوہر:بھئی یہ تو مجھے اچھی معلوم ہے، میں توذرا مذاق کر رہا تھا کہ۔۔۔
بیوی: لیکن میں اس وقت مذاق نہیں ایک سنجیدہ گفتگو کر رہی ہوں۔ آپ بتلا رہے تھے کہ شادی سے قبل سیلاب زدگان کی مدد کے لئے سندھ کے مختلف کیمپوں میں بھی کئی ہفتے رہ کر کام کرچکے ہیں۔
شوہر:بھئی وہ تو ہم سب کا فرض تھا۔ میں نے تو طالب علمی کے دور میں زلزلہ زدگان کے لئے بھی امدادی مہم میں حصہ لیا تھا۔ قومی مشکلات میں ہم سب کو ایسی مہمات میں ضرور حصہ لینا چاہئے۔
بیوی: اللہ آپ کی کاوشوں کو قبول کرے۔ میں یہی کہنا چاہ رہی تھی کہ آپ مردوں کو یہ خوب سہولت حاصل ہے کہ جب چاہا اوروں کی مدد کے لئے نکل کھڑے ہوئے اور ثواب سمیٹ لئے جبکہ ہم خواتین۔۔۔
شوہر: چلو آئندہ کبھی ایسا موقع ملا تو۔۔۔
بیوی: آپ میری بات کو مذاق میں نہ اڑائیں۔ میں جو کہہ رہی ہوں اسے غور سے سنیں۔۔۔
شوہر: بھئی سن تو رہا ہوں۔ اب کیا شادی کے بعد بولنا بالکل بند ہی کردوں اور صرف سنتا ہی رہوں۔
بیوی: میں نہیں بولتی۔۔۔۔ آپ ہر بات کو۔۔۔
شوہر: ارے نہیں نہیں۔۔۔ یہ لو میں خاموش ہوگیا۔۔۔ اب تم اپنی ساری باتیں ایک ساتھ کہہ ڈالو، جو بھی کہنا ہے۔
بیوی: مجھے بہت ساری باتیں کرنے کا شوق نہیں۔ میں تو صرف دو باتیں کہنا چاہ رہی ہی ہوں اور آپ ہیں کہ بیچ بیچ میں۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ شادی سے قبل ہم گھر میں بہنیں اور امی پانچوں مل جل کر سارے گھر کا کام کیا کرتی تھیں۔ گھر کے سارے کام بھی بآسانی ہوجاتے تھے اور ہم سب بہنوں نے اعلیٰ تعلیم بھی حاصل کی اور سب نے اپنے اپنے شوق بھی پورے کئے۔
شوہر: مجھے اس بات کا احساس ہے کہ تم ایک بھرے گھر سے آئی ہو اور یہاں تنہا گھر بھر کا کام کرنا پڑتا ہے۔ اگر کہو تو گھر کے کام کاج کے لئے کوئی ملازمہ رکھ دوں ؟
بیوی: مجھے ملازمہ رکھ کر کام کروانا بالکل پسند نہیں۔ میں تو یہ چاہ رہی تھی کہ کوئی میرا اپنا ہر دم میرے ساتھ رہے۔
شوہر: بھئی وہ امی جان تو تمہیں پتہ ہے کہ یہاں نہیں رہ سکتیں، ابو ان کے بغیر تنہا رہ جاتے ہیں۔
بیوی: میں نے یہ تو نہیں کہا۔۔۔ میں تو یہ چاہ رہی تھی کہ جس طرح آپ اکثر و بیشتر لوگوں کی بھلائی کے کام کرتے رہتے ہیں، دوسروں کے کام آتے رہتے ہیں۔ میں بھی کوئی ایسا نیکی کا کام کروں کہ کسی کا بھلا ہوجائے۔
شوہر: (غصہ سے) ایک تو تم عورتوں کی باتوں کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا۔ ابھی گھر کے کاموں کا رونا تو ابھی نیکی اور سماجی کام کرنے کا شوق۔ تم ایک وقت میں ایک بات نہیں کرسکتیں کہ تمہا را اصل مسئلہ کیا ہے؟
بیوی: (مسکراتے ہوئے) آپ غصہ میں بھی مجھے بہت اچھے لگتے ہیں۔۔۔ میرا ایک نہیں دو مسئلہ ہے۔ میں لوگوں کے ساتھ بھلائی بھی کرنا چاہتی ہوں اور اپنا ذاتی مسئلہ بھی حل کرنا چاہتی ہوں۔ اسے کہتے ہی ایک تیر سے دو شکار۔۔۔
شوہر: میں کچھ سمجھا نہیں۔۔۔
بیوی: اصل میں میری ایک کزن ہے، جو اتنی اچھی ہے کہ کیا بتلاؤں۔ لیکن اس کے میاں نے شادی کے تیسرے ہی مہینے طلاق دیدی۔ لڑکا غلط نکلا۔ تب سے انکل آنٹی تو پریشان ہیں ہی، لیکن میری بہنوں جیسی کزن نے تو جیسے سنیاس لے لیا ہے۔ نہ کھا نے پینے کا ہوش نہ پہننے اوڑھنے کا۔ اوراب تو وہ کسی سے ملتی جلتی بھی نہیں۔ میں اْس کے بارے میں بہت سوچتی ہوں کہ۔۔۔
شوہر: بڑا افسوس ہوا تمہاری کزن کا سن کر۔ اصل میں بعض لڑکے ہوتے ہی غیر ذمہ دار ہیں۔ رشتہ دیکھ بھال کر کرنا چاہئے۔ لیکن تم تو اپنا دکھڑا رو رہی تھی، گھر کے کاموں کا رونا پھر سماجی خدمت کا شوق۔ بیچ میں اپنی اس کزن کو کیوں لے آئیں۔ تم بھی نا باتیں کرتے کرتے بہک سی جاتی ہو۔۔۔
بیوی: اصل میں۔۔۔ مَیں نا! ۔۔۔ میں یہ چاہ رہی تھیں کہ وہ ہمارے گھر آجائیں۔ اللہ کتنا اچھا ہوگا ہم دونوں بہنیں مل جل کر رہیں تو، میری تنہائی بھی ختم ہوجائے گی اور کام کاج کا مسئلہ بھی نہیں رہے گا۔
شوہر: اس میں مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔۔۔ لیکن کیا تمہارے آنٹی اور انکل تمہاری کزن کو ہمارے گھر رہنے کی اجازت دے دیں گے۔ اور کیا خود تمہاری کزن اس بات پر راضی ہوجائے گی۔۔۔
بیوی: ہاں! ہاں! سب راضی ہوجائیں گے، میں سب کو منا لوں گی، بس آپ راضی ہو جائیں تو۔۔۔ ؟
شوہر: بھئی میں نے کہہ تو دیا کہ مجھے کوئی اعتراض نہیں ہوگا اگر وہ لوگ۔۔۔
بیوی: تو کیا آپ میری کزن سے نکاح پر راضی ہیں ؟
شوہر: کیا ؟یہ نکاح والی بات بیچ میں کہاں سے آگئی ؟
بیوی: تو آپ کے خیال میں میری کزن ایسی گئی گزری ہے کہ۔۔۔
شوہر: میں نے یہ کب کہا کہ۔۔۔
بیوی: اگر آپ کو اپنے دفتر جانے کے بعد میری تنہائی اور کام کاج کے بوجھ کا ذرا بھی خیال ہے تو میری کزن سے شادی کر لیں۔ اس طرح مجھے بھی ایک نیکی کرنے کا موقع مل جائے گا۔ میری کزن کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ اور۔۔۔ اور (مسکراتے ہوئے) آپ کے تو مزے ہی مزے۔ مفت میں دوسری بیوی بھی مل جائے گی۔
شوہر: (غصہ سے) دیکھو میں اس قسم کا مرد نہیں ہوں، جیسا تم سمجھ رہی ہو۔۔۔
بیوی: ارے بابا! میں تو مذاق کر رہی تھی۔ کیا مجھے مذاق کرنے کا حق نہیں ہے۔
شوہر: تو گویا یہ سب کچھ مذاق تھا ؟؟؟
میں: نہیں نہیں۔ سب کچھ تو نہیں، بس آپ ہاں کردیں۔ میری بات مان لیں۔ میری کزن سے نکاح کرلیں۔ ہم دو مل کر آپ کی بہتر خدمت بھی کریں گی اور گھر میں بہنوں کی طرح مل جل کر گھر کو سجا سنوار کر رکھیں گی۔ پھر ہم دونوں پر کام کا بوجھ بھی نہیںہوگا اور ہم بھی آپ کی طرح دن میں آٹھ دس گھنٹہ کام کے ساتھ ہفتہ وار تعطیل پر اپنے اپنے میکہ بھی جا سکیں گی، آپ کو تنہا چھوڑے بغیر۔۔۔
شوہر: اوہ تو یہ بات تھی۔ اس کے لئے اتنا گھما پھرا کربات کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟
بیوی: تاکہ آپ کی سمجھ میں آسکے کہ ساری عورتیں احمق نہیں ہوتیں کہ ساری عمر اکیلی گھر کی چکی پیستی رہیں اور مرد عیش کرتے رہیں۔ ہمیں بھی برابر عیش کرنے کا حق ہے۔ اور اس کا واحد شریفانہ طریقہ یہ ہے کہ بیویاں اپنے شوہروں کی دوسری شادی اپنے خاندان کی مجبور و بے کس خواتیں سے کروا دیں۔ اس طرح ایک تو دوسری بیوی ممنون ہوگی اور کبھی بھی پہلی بیوی کو سوکن نہیں سمجھے گی۔ دوسرے دونوں کا مسئلہ بھی حل ہوجائے گا۔ اور شوہر کے لئے اس سے بہتر تحفہ کیا ہوگا کہ اسے پہلی بیوی مفت میں دوسری بیوی بھی لادے۔
شوہر: دیکھو تم پھر مجھے۔۔۔
بیوی: میں آپ کو تو کچھ نہیں کہہ رہی، تو میں جا کر آنٹی سے بات کروں نا ؟
شوہر: لیکن مجھے بھی تو اپنے والدین سے بات کرنا ہوگی، پھر تمہارے والدین کو بتلانا ہوگا کہ تم کیا کرنے جارہی ہو۔۔۔
بیوی: آپ کو یہ سب کچھ کرنے کی ضرورت نہیں۔ اب یہ میرا مسئلہ ہے۔ میرے والدین کو مجھ پر اعتماد ہے، انہیں پہلے سے بتلانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور آپ بھی ابھی سے کسی کو کچھ نہ بتلائیں۔ (مسکراتے ہوئے) ویسے بھی آپ کوئی کنواری لڑکی تو ہیں نہیں کہ نکاح کے لئے ولی کی اجازت چاہئے آپ کو؟
شوہر: بھئی جو تمہاری مرضی، بعد میں اگر لڑائی جھگڑا ہوا نا تو۔۔۔
بیوی: کچھ نہیں ہوگا، یہ میری ذمہ داری ہے۔ جب میں ہی کسی سے نہیں لڑوں گی تو کوئی مجھ سے کیسے لڑے گا اور میری کزن تو اتنی اچھی ہے کہ اس سے نکاح کرکے آپ مجھے بھی بھول جائیں گے یہ الگ بات ہے کہ میں آپ کو ایسا کرنے نہیں دوں گی۔
شوہر: کاش ساری بیویاں تمہاری طرح سوچنے لگیں تو ملک میں عورتوں کی شادی کا مسئلہ ہی نہ رہے۔ بیوہ اور مطلقہ جلد از جلد کسی شریف گھرانے میں دوسری بیوی بن کر خوش و خرم زندگی گذارنے لگے۔ اسی طرح ان لڑکیوں کا مسئلہ بھی حل ہوسکتا ہے، جن کی بوجوہ شادی نہیں ہوپاتی۔ اور وہ ساری زندگی اپنے ماں باپ کے گھر ایک انجانے خوف میں گذارنے لگتی ہیں کہ ماں باپ کے بعد ان کا کیا ہوگا۔ اللہ تمہاری طرح دیگرتمام بیویوں کو عقل سلیم عطا کرے اور اپنا ذاتی شوہر دوسری مجبور و محروم بہنوں کے ساتھ شیئر کرنے کی توفیق دے
بیوی: آمین۔ ثم آمین
شوہر: : لیکن ایک بات پھر بھی حقیقت ہے۔
بیوی: وہ کیا؟
شوہر: جن مردوں نے ایک سے زیادہ شادیاں کی ہوئی ہیں، ان کی گھریلو زندگیاں لازماََ مشکلات کا شکار ہوجاتی ہیں۔ لڑائی جھگڑا تو معمول کی بات ہے۔ ایسے میں ایک شریف مرد کی زندگی اجیرن بن جاتی ہے۔ اکثر ڈراموں فلموں اور کہانیوں میں بھی اسی بات کو نمایاں کیا جاتا ہے۔
بیوی: آپ کے مشاہدہ اور مطالعہ سے انکار تو نہیں کیا جاسکتا کہ ایسا ہوتا بھی ہے، لیکن یہ تصویر کا ایک ہی رْخ ہے۔
شوہر: کیا مطلب؟
بیوی: جہاں تک ڈراموں، فلموں اور کہانیوں کا تعلق ہے تو ان کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹرسب کے سب غیر اسلامی ذہن کے مالک ہوتے ہیں۔ وہ مغرب کے اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ مرد کو شادی صرف اور صرف ایک ہی کرنی چاہئے، گرلز فرینڈز چاہے جتنی مرضی رکھ لیں۔ یہ لوگ نام کے مسلمان ہوتے ہیں اوراللہ نے مردوں کو ایک سے زائد شادی کی جو اجازت دی ہے، وہ ان کے دل سے مخالف ہیں۔ اسی لئے اپنی کہانیوں اور ڈراموں میں جان بوجھ کر دوسری شادی کرنے والوں کو مشکل میں گھرا دکھلاتے ہیں۔دوسری بات یہ کہ معاشرے میں وہی گھرانے دوسری شادی سے پریشانی میں مبتلا ہوتے ہیں، جہاں میاں بیوی دونوں دین سے دور ہوتے ہیں اور ایسے گھرانوں کی اکثریت ہونے کے باعث میڈیا میں بھی انہی کو زیادہ پرجیکشن ملتی ہے۔ جبکہ دین دار گھرانوں میں اگر کوئی مرد ایک سے زائد شادی کرتا ہے تو وہاں اتنی زیادہ مشکلات نہیں ہوتیں۔ اور ایسے گھرانوں کے مشاہدات پر کوئی قلم بھی نہیں اٹھاتا۔اور سب سے اہم بات یہ کہ زیادہ تر مرد از خود اپنی پسند سے دوسری شادی کرتا ہے۔ یا پہلی بیوی کی مرضی کے خلاف اس سے زیادہ حسین اور کم عمر لڑکی سے شادی کرتا ہے۔ چنانچہ دونوںبیویوں میں کبھی ذہنی ہم آہنگی نہیں ہوپاتی۔ وہ ایک دوسرے کو سوکن بلکہ دشمن گردانتی ہیں اور دونوں کا سارا زور شوہرکو اپنی طرف کھینچنے میں صرف ہوتا ہے۔ جس سے گھر جہنم کا نمونہ بن جاتا ہے اور مرد پریشان ہوجاتا ہے۔ میرا نسخہ اس کے بر عکس ہے کہ پہلی بیوی از خود اپنی مرضی سے اپنے خاندان یا احباب میں سے مجبور و بے کس مگر قابل اعتبار مطلقہ، بیوہ یا ایسی خواتین سے اپنے شوہر کا نکاح پڑھوائیں جن کی شادی نہ ہو رہی ہو۔ اور وہ ایسا نیک نیتی سے اجر و ثواب کے لئے کریں۔ اس طرح مرد کی دوسری شادی سے دونوں بیویوں میں لڑائی جھگڑا کا امکان نہ ہونے کے برابر رہ جاتا ہے۔ بلکہ دونوں متحد ہوجائیں تو شوہر کی طرف سے کسی بھی قسم کے ناروا سلوک کا امکان بھی ختم ہوجاتا ہے۔
شوہر: تو گویاتمہیں مجھ پر بھی شک ہے کہ کہیں میں تم سے ناروا سلوک نہ کروں، اسی لئے اپنی حفاظت کے لئے۔۔۔
بیوی: ارے نہیں نہیں۔ اللہ نہ کرے کہ مجھے کبھی ایسا کوئی خدشہ لاحق ہو۔ میں تو ایک عام بات کر رہی تھی کہ ایسا کرنا پہلی بیوی کے حق میں ہی جاتا ہے، اگر کوئی سوچے تو۔
شوہر: کہہ تو تم صحیح رہی ہو۔ اسلام میں مردوں کو ایک سے زائد شادی کی اجازت کے مخالفین (خواہ وہ مسلمان ہوں یا غیر مسلمان) یہ سمجھتے ہیں کہ اگرہم نے اس امر کی حوصلہ افزائی کی تو ہر مرد چار چار چار شادیاں رچانے لگے گا۔ حالانکہ کسی بھی معاشرے میں ایسا ممکن ہی نہیں ہے کہ آزادی اور سہولتوں کی فراوانی کے باجود سارے مسلمان مرد دو دو شادیاں بھی کر لیں۔ ہر معاشرے میں عموماََ خواتین کی تعداد صرف چند فیصد ہی زائد ہوتی ہے۔ جیسے پاکستان میں خواتین 51 یا 52 فیصد ہیں۔ گویا مردوں سے ان کی تعداد صرف دوتا چار فیصد زائد ہے۔ یعنی اگر تمام خواتین کی شادیاں ہوجائے تب بھی صرف دو تا چار فیصد مرد ہی دو دو شادیاں کر پائیں گے، خواہ (بفرض محال) سارے کے سارے مرد خوشحال، دوسری شادی کے خواہشمند ہوں، ریاستی قوانین بھی مردوں کو دوسری شادی کی ترغیب دینے والی ہواور ساری کی ساری عورتیں بھی اپنے شوہر، بھائیوں اور بیٹوں کی دوسری شادی پر دل سے رضامند ہوجائیں تب بھی زیادہ سے زیادہ چار فیصد مرد ہی دوسری شادی کر پائیں گے۔
بیوی: (مسکراتے ہوئے) بالکل صحیح !کیوں کہ دوسری شادی کے لئے بن بیاہی عورتوں کی دستیابی بھی ضروری ہے۔
شوہر: ویسے بھی دوسری شادی کی صورت میں مرد پر مختلف قسم کی اضافی ذمہ داریوں کا کئی گنا زیادہ بوجھ پڑتا ہے۔ آج کے عہد میں ایک شادی کرنا بھی اتنا آسان نہیں ہے چہ جائیکہ ایک سے زائد شادی کرنا۔ دوسری شادی کی خواہش کرنا ایک الگ بات لیکن عملاََ ایسا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔
بیوی: لیکن معاشرے کی بن بیاہی، مطلقہ اور بیوہ عورتوں کی فلاح و بہبود کا واحد نسخہ یہی ہے کہ کچھ نہ کچھ مرد یہ اضافی ذمہ داری اٹھانے کے لئے تیار ہوں اور کچھ نہ کچھ خواتین خوش دلی سے اپنی ’’محروم بہنوں‘‘ کے لیے اپنے دل اور گھر کے دروازے کھلے رکھیں۔
شوہر: سر تسلیم خم ہے،
           جو مزاج یار میں آئے

Ye dua apni ammi jaan ke liye

*_Ye dua apni_* *(ammi)*
*_jaan ke liye_*

Plz. ek bar *(ameen)*
Kahen !

Ay khuda
Meri maa ko
Sehat or tandrusti atta
Farma
*(Ameen)*

Unki tamam
pareshanion ko khatam kar
*(Ameem)*

Or unhein hamesha hamare liye salamat rakh
*(Ameen)*
Or jis ki *_(maa)_* is duniya se rukshat ho gaye hai unko *_(jannat)_* main alla muqam ata farms
*(Ameen)*

〰〰〰〰〰〰〰〰
🕌🕋🕌🕋🕌🕋🕌🕋🕌🕋