آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر

آخری بادشاہ
اور پھر ہندوستان کے آخری شہنشاہ بہادر شاہ ظفر کو میکنن میکنزی بحری جہاز میں بٹھا دیا گیا…یہ جہاز17 اکتوبر 1858ء کو رنگون پہنچ گیا . شاہی خاندان کے 35 مرد اور خواتین بھی تاج دار ہند کے ساتھ تھیں. کیپٹن نیلسن ڈیوس رنگون کا انچارج تھا . وہ بندر گاہ پہنچا. اس نے بادشاہ اور اس کے حواریوں کو وصول کیا . رسید لکھ کر دی اور دنیا کی تیسری بڑی سلطنت کے آخری فرمانروا کو ساتھ لے کر اپنی رہائش گاہ پر آ گیا. نیلسن پریشان تھا..
بہادر شاہ ظفر قیدی ہونے کے باوجود بادشاہ تھا اور نیلسن کا ضمیر گوارہ نہیں کر رہا تھا وہ بیمار اور بوڑھے بادشاہ کو جیل میں پھینک دے مگر رنگون میں کوئی ایسا مقام نہیں تھا جہاں بہادر شاہ ظفر کو رکھا جا سکتا… وہ رنگون میں پہلا جلا وطن بادشاہ تھا..نیلسن ڈیوس نے چند لمحے سوچا اور مسئلے کا دلچسپ حل نکال لیا . نیلسن نے اپنے گھر کا گیراج خالی کرایا اور تاجدار ہند‘ ظل سبحانی اور تیموری لہو کے آخری چشم و چراغ کو اپنے گیراج میں قید کر دیا..
بہادر شاہ ظفر17 اکتوبر 1858ء کو اس گیراج میں پہنچا اور 7 نومبر 1862ء تک چار سال وہاں رہا… بہادر شاہ ظفر نے اپنی مشہور زمانہ غزل
لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں
کس کی بنی ہے عالم ناپائیدار میں
اور
کتنا بدنصیب ہے ظفردفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
اسی گیراج میں لکھی تھی.. یہ7 نومبر کا خنک دن تھا اور سن تھا 1862ء۔
بدنصیب بادشاہ کی خادمہ نے شدید پریشانی میں کیپٹن نیلسن ڈیوس کے دروازے پر دستک دی.. اندر سے اردلی نے برمی زبان میں اس بدتمیزی کی وجہ پوچھی… خادمہ نے ٹوٹی پھوٹی برمی میں جواب دیا..
ظل سبحانی کا سانس اکھڑ رہا ہے.
اردلی نے جواب دیا : صاحب کتے کو کنگھی کر رہے ہیں. میں انھیں ڈسٹرب نہیں کر سکتا.. خادمہ نے اونچی آواز میں رونا شروع کر دیا. اردلی اسے چپ کرانے لگا مگر آواز نیلسن تک پہنچ گئی.. وہ غصے میں باہر نکلا‘ خادمہ نے نیلسن کو دیکھا تو وہ اس کے پاؤں میں گر گئی.
وہ مرتے ہوئے بادشاہ کے لیے گیراج کی کھڑکی کھلوانا چاہتی تھی…بادشاہ موت سے پہلے آزاد اور کھلی ہوا کا ایک گھونٹ بھرنا چاہتا تھا.. نیلسن نے اپنا پسٹل اٹھایا… گارڈز کو ساتھ لیا‘ گیراج میں داخل ہو گیا۔
بادشاہ کی آخری آرام گاہ کے اندر بو‘ موت کا سکوت اور اندھیرا تھا… اردلی لیمپ لے کر بادشاہ کے سرہانے کھڑا ہو گیا..نیلسن آگے بڑھا‘ بادشاہ کا کمبل آدھا بستر پر تھا اور آدھا فرش پر‘ اس کا ننگا سر تکیے پر تھا لیکن گردن ڈھلکی ہوئی تھی‘ آنکھوں کے ڈھیلے پپوٹوں کی حدوں سے باہر ابل رہے تھے‘ گردن کی رگیں پھولی ہوئی تھیں اور خشک زرد ہونٹوں پر مکھیاں بھنبھنا رہی تھیں‘ نیلسن نے زندگی میں ہزاروں چہرے دیکھے تھے لیکن اس نے کسی چہرے پر اتنی بے چارگی‘ اتنی غریب الوطنی نہیں دیکھی تھی‘ وہ کسی بادشاہ کا چہرہ نہیں تھا…وہ دنیا کے سب سے بڑے بھکاری کا چہرہ تھا اور اس چہرے پر ایک آزاد سانس جی ہاں صرف ایک آزاد سانس کی اپیل تحریر تھی اور یہ اپیل پرانے کنوئیں کی دیوار سے لپٹی کائی کی طرح ہر دیکھنے والی آنکھ کو اپنی گرفت میں لے لیتی تھی…
کیپٹن نیلسن نے بادشاہ کی گردن پر ہاتھ رکھا‘ زندگی کے قافلے کو رگوں کے جنگل سے گزرے مدت ہو چکی تھی.. ہندوستان کا آخری بادشاہ زندگی کی حد عبور کر چکا تھا. نیلسن نے لواحقین کو بلانے کا حکم دیا…لواحقین تھے ہی کتنے ایک شہزادہ جوان بخت اور دوسرا اس کا استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی‘ وہ دونوں آئے۔
انھوں نے بادشاہ کو غسل دیا‘ کفن پہنایا اور جیسے تیسے بادشاہ کی نماز جنازہ پڑھی.. قبر کا مرحلہ آیا تو پورے رنگون شہر میں آخری تاجدار ہند کے لیے دوگز زمین دستیاب نہیں تھی… نیلسن نے سرکاری رہائش گاہ کے احاطے میں قبر کھدوائی اور بادشاہ کو خیرات میں ملی ہوئی مٹی میں دفن کر دیا.. قبر پر پانی کا چھڑکاؤ ہورہا تھا .. گلاب کی پتیاں بکھیری جا رہی تھیں تو استاد حافظ ابراہیم دہلوی کے خزاں رسیدہ ذہن میں 30 ستمبر 1837ء کے وہ مناظر دوڑنے بھاگنے لگے جب دہلی کے لال قلعے میں 62 برس کے بہادر شاہ ظفر کو تاج پہنایاگیا..ہندوستان کے نئے بادشاہ کو سلامی دینے کے لیے پورے ملک سے لاکھ لوگ دلی آئے تھے اور بادشاہ جب لباس فاخرہ پہن کر‘ تاج شاہی سر پر رکھ کر اور نادر شاہی اور جہانگیری تلواریں لٹکا کر دربار عام میں آیا تو پورا دلی تحسین تحسین کے نعروں سے گونج اٹھا.. نقارچی نقارے بجانے لگے‘ گویے ہواؤں میں تانیں اڑانے لگے.. فوجی سالار تلواریں بجانے لگے اور رقاصائیں رقص کرنے لگیں…استاد حافظ محمد ابرہیم دہلوی کو یاد تھا بہادر شاہ ظفر کی تاج پوشی کا جشن سات دن جاری رہا اور ان سات دنوں میں دلی کے لوگوں کو شاہی محل سے کھانا کھلایا گیا مگر سات نومبر 1862ء کی اس ٹھنڈی اور بے مہر صبح بادشاہ کی قبر کو ایک خوش الحان قاری تک نصیب نہیں تھا۔
استاد حافظ محمد ابراہیم دہلوی کی آنکھوں میں آنسو آ گئے… اس نے جوتے اتارے‘ بادشاہ کی قبر کی پائینتی میں کھڑا ہوا اور سورۃ توبہ کی تلاوت شروع کر دی… حافظ ابراہیم دہلوی کے گلے سے سوز کے دریا بہنے لگے‘ یہ قرآن مجید کی تلاوت کا اعجاز تھا یا پھر استاد ابراہیم دہلوی کے گلے کا سوز کیپٹن نیلسن ڈیوس کی آنکھوں میں آنسو آ گئے‘ اس نے ہاتھ اٹھایا اور اس غریب الوطن قبر کو سیلوٹ پیش کر دیا اور اس آخری سیلوٹ کے ساتھ ہی مغل سلطنت کا سورج ہمیشہ ہمیشہ کے لیے غروب ہو گیا..
آپ اگر کبھی رنگون جائیں تو آپ کو ڈیگن ٹاؤن شپ کی کچی گلیوں کی بدبودار جھگیوں میں آج بھی بہادر شاہ ظفر کی نسل کے خاندان مل جائیں گے…یہ آخری مغل شاہ کی اصل اولاد ہیں مگر یہ اولاد آج سرکار کے وظیفے پر چل رہی ہے‘ یہ کچی زمین پر سوتی ہے‘ ننگے پاؤں پھرتی ہے‘ مانگ کر کھاتی ہے اور ٹین کے کنستروں میں سرکاری نل سے پانی بھرتی ہے….مگر یہ لوگ اس کسمپرسی کے باوجود خود کو شہزادے اور شہزادیاں کہتے ہیں.. یہ لوگوں کو عہد رفتہ کی داستانیں سناتے ہیں اور لوگ قہقہے لگا کر رنگون کی گلیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔
جب بادشاہ جلاوطن ہوا تو بادشاہ کیپٹن نیلسن ڈیوس کے گیراج میں قید رہا… گھر کے احاطہ میں دفن ہوا اور اس کی اولاد آج تک اپنی عظمت رفتہ کا ٹوکرا سر پر اٹھا کر رنگون کی گلیوں میں پھر رہی ہے‘ یہ لوگ شہر میں نکلتے ہیں تو ان کے چہروں پر صاف لکھا ہوتا ہے..جو بادشاہ اپنی سلطنت‘ اپنے مینڈیٹ کی حفاظت نہیں کرتے‘ جو عوام کا اعتماد کھو بیٹھتے ہیں…ان کی اولادیں اسی طرح گلیوں میں خوار ہوتی ہیں… یہ عبرت کا کشکول بن کر اسی طرح تاریخ کے چوک میں بھیک مانگتی ہیںلیکن ہمارے حکمرانوں کو یہ حقیقت سمجھ نہیں آتی.. یہ خود کو بہادر شاہ ظفر سے بڑا بادشاہ سمجھتے ہیں………

تھوڑا سا اور اضافہ کا قانون

*تھوڑا سا اور اضافہ کا قانون*

سن 1976 کے اولمپک مقابلوں کے دوران سو میٹر کی دوڑ کے آخری مرحلے میں کل آٹھ کھلاڑی شریک تھے۔ سونے کا تمغہ جیتنے والا کھلاڑی باقی کے آٹھ کھلاڑیوں سے صرف ایک سیکنڈ کا دسواں حصہ زیادہ تیز تھا۔ رفتار میں بہت ہی تھوڑا سا فرق مگر نتائج میں بہت بڑا فرق۔

امریکہ میں ہونے والی ایک گھڑ دوڑ میں جیتنے والے گھوڑے کو دس لاکھ ڈالر کا انعام ملا، دوسرے نمبر پر آنے والے گھوڑے کو جو جیتنے میں فقظ ناک کے فرق سے رہ گیا تھا کو محض پچھتر ہزار ڈلر ملے۔ مسافت میں اتنا مہین سا فرق مگر نتائج میں بہت بڑا فرق۔

ایک قانون جان لیجیئے کہ: اگر آپ اپنے کام پر جانے سے ایک گھنٹہ پہلے جاگ جاتے ہیں، اور اپنی فیلڈ سے متعلقہ کوئی بھی کتاب پڑھتے ہیں تو گویا آپ ہفتے بھر میں سات گھنٹے مطالعہ کر لیں گے۔ کچھ ہی عرصہ کے بعد، آپ کا علم اپنے دفتر کے تمام ساتھیوں میں زیادہ ہوگا۔ اور آپ کے ساتھی آپ سے مشورہ لیا کریں گے کیونکہ آپ ہی ان میں زیادہ تجربے والے شمار ہو رہے ہونگے۔ محض تھوڑا سا اضافہ مگر نتائج میں بہت بڑا فرق۔

اگر آپ مسجد میں نماز سے تھوڑا سا پہلے یا اذان ہوتے ہی جانا شروع کر دیں تو آپ نماز سے پہلے پہلے کم از کم قران مجید سے دس صفحات پڑھ پائیں گے۔ اگر آپ ایسا دو نمازوں میں ہی کر لیں تو روزانہ بیس صٖفحات کی تلاوت شروع ہو جائے گی۔ اس کا مطلب تقریبا ایک سیپارہ یومیہ یا ایک سو چالیس صٖفحے ہفتہ وار یعنی ایک ختم قران ہر مہینے۔ محض تھوڑا سا اضافہ مگر نتائج میں بہت بڑا فرق۔

ایک باپ اپنے پرائمری کے طالبعلم بیٹے کے ساتھ رات کا کھانا لگتے لگتے پندرہ منٹ کیلئے مل کر کوئی انگریزی کی کتاب پڑھتا تھا۔ اب اس کا بیٹا مڈل سکول میں ہے لیکن انگریزی کی کوئی بھی کتاب بغیر کسی مسئلے کے پڑھ لیتا ہے۔ وقت میں محض تھوڑا سا اضافہ مگر نتائج میں بہت بڑا فرق۔

خلاصہ: تھوڑے سے اضافے کا قانون اپنی زندگی کے ہر شعبے میں لاگو کر لیجیئے، اپنے کام کو دیکھیئے، اپنے تعلقات کو دیکھیئے، اپنی صحت کو دیکھیئے، اپنے بچوں کو دیکھیئے، اور اپنے ہر اس کام کو دیکھیئے جس میں آپ تھوڑا سا اضافہ کر سکتے ہیں اور اپنے گرد نواح میں ہر اس ناطے کو دیکھیئے جس میں آپ تھوڑے سے اور کا اضافہ کر کے بڑی تبدیلی لا سکتے ہیں۔ زندگی میں بہت ساری ایسی چیزیں ہیں جو تھوڑے سے اور اضافے کے بہت بڑی تبدیلی سے جڑی ہوئی ہیں۔

تھوڑا سا اور اضافے کا قانون اپنے آپ پر لاگو کرنے سے بہت ساری کامیابیاں آپ کے قدموں میں۔

یاد رکھیئے گا کہ اس تھوڑے سے فرق کے ساتھ ہی ہر ناکامی اور ہزیمت جڑی ہوئی ہے۔ تھوڑا سا فرق اور اتنے بڑے بڑے نقصانات!! ان کا سوچیئے جن کا فرق دنوں اور راتوں کا ہو!!!
(منقول)
#positive_thoughts

Sent from my iPhone

آدمی اپنی بیوی کو دنیا کی عورتوں سے کم کیوں سمجھتاہے

آدمی اپنی بیوی کو دنیا کی عورتوں سے کم کیوں سمجھتاہے ۔۔۔۔!!!

(سوفیصد آب زر سے لکھی جانے والی بات )

ایک شخص ایک تجربہ کار عالم دین کی خدمت میں حاضر ہوااور کہا :

جب میں نے اپنی بیوی کو (شادی سے پہلے) پسند کیا تو ایسا محسوس ہوتا کہ اللہ نے دنیا میں اس جیسا کسی کو نہیں بنایا۔
اور جب اس کو نکاح کا پیغام بھیجا تو مجھے محسوس ہواکہ بہت سی دوسری عورتیں بھی خوبصورتی میں اس کے مثل ہیں ۔
اور پھر جب میں نے اس سے شادی کر لی تو مجھے محسوس ہوا کہ بہت سی عورتیں تو اس سے زیادہ خوبصورت ہیں ۔
پھر جب ہماری شادی کو کچھ عرصہ بیت گیا تو مجھے محسوس ہوا کہ دنیا کی تمام ہی عورتیں میری بیوی سے زیادہ بہتر ہیں ۔

تو اس دانا عالم نے فرمایا: اگر تم دنیا کی تمام عورتوں سے نکاح کر لو تو تم سڑکوں پر آوارہ پھرنے والے کتوں کو ان عورتوں سے اچھا جاننے لگو۔

تو اس شخص نے حیرت سے پوچھا:کہ آپ نے ایسا کس لئے فرمایا ؟

تو وہ دانا عالم فرمانے لگے :”اس لئے کہ مسئلہ تمہاری بیوی کا نہیں ،مسئلہ یہ ہے کہ انسان کو جب حریص نفس، بھٹکتی آنکھیں اور خوف اللہ سے خالی دل دیا گیا ہو تو اس کی آنکھ کو قبر کی مٹی کےعلاوہ کوئی چیز نہیں بھر سکتی ۔”
اے انسان!تیرا مسئلہ یہ ہے کہ تو اللہ کی حرام کردہ چیزوں سے اپنی نگاہوں کی حفاظت نہیں کرتا۔کیا تمہیں ایسا عمل نا بتاوں جس سے تمہاری بیوی تمہیں روز اول کی طرح محبوب لگنے لگے ؟

تو اس شخص نے کیا: کیوں نہیں ، ضرور بتائیے ۔

وہ دانا عالم فرمانے لگے : ” اپنی نگاہوں کو جھکا کر رکھو، اس لیے کہ اللہ تعالٰی کا فرمان ہے۔

قُلْ لِلْمُؤْمِنِينَ يَغُضُّوا مِنْ أَبْصَارِهِمْ وَيَحْفَظُوا فُرُوجَهُم ۚ ذَٰلِكَ أَزْكَىٰ لَهُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ خَبِيرٌ بِمَا يَصْنَعُون
(ترجمہ:اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایمان والوں سے کہہ دیجیے کہ اپنی نگاہوں کو جھکائے رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں ، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزہ ہے ، اور بے شک جو تم کرتے ہو اللہ پاک اس سے خوب باخبر ہیں)

جو چیز تمہاری دسترس میں نہیں ، وہ تمہیں محبوب لگے گی ، اور جب تم اس کو حاصل کرلوگے تو اس کی وقعت تمہارے نزدیک ختم ہوجائے گی ، تمہیں چاہیے کہ تم اس چیز پر راضی ہو جاو جو تمہارے پاس موجود ہے ،

اور اس سب سے بڑھ کر شاندار اور خوبصورت چیز اللہ رب العزت کی عبادت اور نیک اعمال ہیں ، جو کہ ایسی لذت ہے ، جس کو وہی سمجھ سکتا ہے جو اسی مقصد کے لیے زندگی بسر کرتا ہے ، اور اللہ رب العزت سے دعا کرو کہ وہ تمہاری بیوی کو تمہاری نظر میں خوبصورت بنا دے ،اور تمہیں اس کی محبت عطا کرے ۔

اللہ تعالٰی اپنے نافرمان بندوں سے نعمتیں چھین لیتا ہے

ایک نوجوان نے ایک بزرگ سے پوچھاکہ :

اللہ تعالٰی اپنے نافرمان بندوں سے اپنی نعمتیں چھین لیتا ہے لیکن میں نے دیکھا سب کےپاس پہننے اوڑھنے کوکھانے پینے کیلیۓ سب کچھ موجود ہوتا ہے اللہ تعالٰی توکسی سے کچھ بھی نہیں چھینتے.

بزرگ مسکراۓ اورپوچھا:

کیاتمہاری نماز میں خشوع وخضوع ہے؟
نوجوان بولا: نہیں
کیا قرآن کی تلاوت کرتےوقت لذت محسوس ہوتی ہے؟
نوجوان بولا: نہیں
کیا پانچ وقت کی نماز پابندی سے پڑھتےہو؟
نوجوان بولا: نہیں
کیانیکی کرنےکیطرف دھیان جاتاہے؟
نوجوان بولا: نہیں
کیازبان اللہ کےذکر کی عادی ہے؟
نوجوان بولا: نہیں
تب بزرگ نے جواب دیا: یہی اللہ کی وہ نعمتیں جنھیں وہ اپنے نافرمانوں سے چھین لیتا ہے…

موجودہ دورمیں ہر مسلمان اللہ کی دی ہوئ مادی نعمتوں کوپا کرخودکو دنیاکا خوش قسمت ترین انسان سمجھتا ہے کہ میرے پاس تواللہ کادیاہوا سب کچھ موجود ہے…

جبکہ وہ نعمتیں ہماری آزمائش ہیں اصل نعمتیں وہی ہیں جو ہمیں اللہ کے قریب لے جایئں اور اس کے عبادت گزاراور شکر گزار بندہ بنایئں—-

انٹرنیٹ سے متعلق نصیحت

ایک دانا کی انٹرنیٹ سے متعلق اپنے بیٹے کو نصیحت

پیارے بیٹے!
گوگل، فیس بک، ٹویٹر، واٹس ایپ اور باہمی رابطوں کے دیگر تمام ذرائع درحقیقت ایک گہرا سمندر ہیں جس میں لوگ اپنے اخلاق کو کھو رہے ہیں اور دماغی صلاحیتیں کھپا رہے ہیں۔ ان میں بوڑھے بھی ہیں اور جوان بھی۔ اس سمندر کی بے رحم موجیں نہ صرف ایک خلق کثیر کو ہلاک کرچکی ہیں بلکہ ہماری عورتوں کی حیا بھی نگل چکی ہیں۔ اس میں انہماک سے بچو۔ انٹرنیٹ پر تمہارا رویہ شہد کی مکھی کی طرح ہونا چاہیے، صرف عمدہ باتوں پر توجہ مرکوز کرو، خود بھی استفادہ کرو اور دوسروں کو بھی فائدہ پہنچاو۔ عام مکھی کی طرح ہر گندی اور صاف چیز پر مت بیٹھو، مبادا دوسروں تک بیماری کے جراثیم منتقل کرنے لگو اور تمہیں اس کا احساس ہی نہ ہو۔

پیارے بیٹے!
انٹرنیٹ ایک بڑی مارکیٹ ہے، یہاں کوئی بھی اپنی چیز مفت لے کر نہیں بیٹھا، ہر شخص اپنا سودا کسی نہ کسی عوض پر دینے کا خواہشمند ہے۔ کوئی اپنی چیز کا سودا اخلاق کی قیمت پر کرنا چاہتا ہے تو کسی کو فکری انتشار کی تجارت پسند ہے۔ بعض کا مقصد شہرت اور حبِ جاہ ہے اور ایسے بھی ہیں جو اپنے تئیں خیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اس لئے خریداری سے پہلے سامان کی خوب چانچ پڑتال کرو۔

پیارے بیٹے!
تعلقات قائم کرنے میں بھی احتیاط سے کام لو، بعض تعلقات شکاری کے جال کے مانند ہیں، بعض برائی کا سرچشمہ ہیں، کچھ بے حیائی اور فسق وفجور پر مبنی ہیں اور کچھ کا انجام تباہی اور بربادی ہے۔

پیارے بیٹے!
نشرو اشاعت میں بھی محتاط رہو، جن باتوں سے شریعت نے منع کیا ہے انہیں کاپی پیسٹ کرنے سے گریز کرو۔ یہ نیکیوں اور گناہوں کی تجارت ہے۔ تم کیا سودا بیچ رہے ہو اس پر تمہاری نظر رہنی چاہیے۔

پیارے بیٹے!
کسی تحریر پر کمنٹ یا اسے شیئر کرنے سے پہلے سوچ لیا کرو کہ یہ اللہ کی خوشنودی کا باعث ہے یا ناراضی کا۔

پیارے برخوردار !
ایسے شخص کی دوستی پر بھروسہ مت کرو جسے تم نے اپنی آنکھوں سے نہ دیکھا ہو، لوگوں کی تحریروں سے انہیں سمجھنے کی کوشش مت کرو۔ یہ دوست کے بھیس میں اجنبی ہیں، ان کی تصویروں میں ڈبنگ (جعلسازی) ہے، ان کا اخلاق وکردار مخفی ہے، ان کی گفتگو میں ملمع سازی ہے، ان کے چہروں پر ماسک (خول) ہیں، یہ جھوٹ بھی ایسے بولتے ہیں کہ سچائی کا گمان ہوتا ہے۔
بہت سے عقلمند دکھائی دینے والے در حقیقت بڑی حماقت میں مبتلا ہیں
کتنے خوبصورت ایسے ہیں جو حقیقت میں بد صورت ترین ہیں
بہت سے سخی نظر آنے والے ایسے ہیں جن کا شمار کنجوس ترین لوگوں میں ہوتا ہے۔
بے شمار ایسے ہیں جو شجاعت کے وصف سے شہرت رکھتے ہیں مگر پرلے درجے کے بزدل ہیں۔
سوائے ان کے جن پر خداوند کریم کی رحمت ہو۔ برخوردار! تمہارا شمار بھی انہی میں ہونا چاہیے۔

پیارے بیٹے !
فرضی نام (فیک آئی ڈیز) رکھنے والوں سے بھی دور رہو۔ ایسے لوگ اعتماد سے عاری ہوتے ہیں، سو اس شخص پر کیونکر اعتماد کیا جائے جسے خود پر ہی اعتماد نہ ہو اور تم بھی فرضی نام اختیار مت کرنا، کیونکہ اللہ ہمارے ہر راز سے واقف ہے۔

میرے عزیز بیٹے!
جو تیرے ساتھ نامناسب رویہ اختیار کرے اس کے ساتھ ویسا ہی رویہ مت برتو، تمہارا رویہ تمہاری شخصیت کا عکاس ہے اور اس کا کردار اپنی شخصیت کا آئینہ دار ہے۔ سو تم اپنے اخلاق کی نمائندگی کرو اس کے اخلاق کی نہیں۔ ظاہر ہے برتن سے وہی کچھ چھلکے گا جو اس کے اندر ہے۔

پیارے بیٹے!
کوئی چیز لکھنے سے پہلے ہزار بار سوچو، تم جب لکھتے ہو تو تمہارے فرشتے بھی لکھ رہے ہوتے ہیں، اور اس سارے عمل کی نگرانی براہِ راست اللہ تعالی کرتے ہیں

پیارے بیٹے!
انٹرنیٹ کے بحرِ ظلمات میں جس چیز کا مجھے سب سے زیادہ خطرہ ہے وہ نظر کا غلط استعمال ہے یعنی ایسی تصویریں اور ویڈیو کلپس دیکھنا جن میں فسق وفجور اور اللہ کی نافرمانی ہو۔ اگر تو اپنے نفس کو ان محرمات سے دور رکھ سکے تو انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا سے بھرپور استفادہ کرنا اور اس سے دین کی نشرو اشاعت کا کام لینا، لیکن اگر خدانخواستہ تمہارا نفس ان محرمات کے شکنجے میں پھنسا ہوا ہے تو انٹرنیٹ کی دنیا سے ایسے دور بھاگنا جیسے انسان وحشی درندے سے بھاگتا ہے ورنہ روزِ محشر تیرا سامنا خدا سے ہوگا اور دوزخ تیرا ٹھکانہ بنے گی۔

پیارے بیٹے!
انٹرنیٹ غفلت اور شہوت کا ایک بڑا باعث ہے اور انہی دو چیزوں کے ذریعے شیطان نفس پر حاوی ہوتا ہے۔ دھیان رہے کہ انٹرنیٹ تمہارے فائدے کے لئے ہے اس سے فائدہ اٹھاو، یہ غفلت کے لئے نہیں کہ اسی کے ہو کر رہ جاو، اس سے تعمیر شخصیت کا کام لو تخریب کا نہیں، نیز قیامت کے دن اسے اپنے حق میں گواہ بناو نہ کہ اپنے خلاف۔

Silent Msg For New Generation.

A0a Ek nojawan ny Apny Dada sy pucha?
Dada Jan, Ap log pehly k sy Rehty the?
Na Light
Na Jahaz
Na Train
Na Intrnet
Na Computer
Na Film
Na Drama
Na T.V
Na A.C
Na Gari
Na Mobile
Na Phone
Dada ny jawab Dia:
Jesy tm log abhi reh rhy ho

Na Namaz
Na Quraan
Na Deen
Na Islaam
Na Roza
Na Shafqat
Na Ahtram
Na Adab
Na Akhlaq
Na Sharam
Na Haya

پرد”اور”حيا” ميں كيافرق هے

“فرق” سوال:”پرده”اور”حيا” ميں كيافرق هے? جواب:پرده كسي كو آپ كے پاس آنےنهيں ديتااور “حيا” آپ كو كسي كے پاس جانے نهيں ديتي-

reducing the possibility of a fall and sudden death

*Dear All: Pls note this as very important for all shared by a doctor. – for those who get up at night from sleep to urinate or early morning*

*Each individual must take note of the 3 x 1/2 minutes.*

*Why is it important? 3 x 1/2 minutes will greatly reduce the number of sudden deaths.*
*Often this occurs, a person who still look healthy, has died in the night.*
*Often we hear stories of people, yesterday I was chatting with him, why did he suddenly die?*
*The reason is that when you wake up at night to go to the bathroom is often done in a rush.*
*Immediately we stand, the brain lacks blood flow.*
*Why “3 x 1/2 minute” very important?*
*In the middle of the night when you are awakened by the urge to urinate for example, ECG pattern can change.* *Because getting up suddenly, the brain will be anaemic and causes heart failure due to lack of blood.* *Advised to practice “3 1/2 minutes,” which are:*
*1. When waking from sleep, lie in bed for the 1st 1/2 minute;*
*2. Sit in bed for the next 1/2 minute;*
*3. Lower your legs, sitting on the edge of the bed for the last half-minute.* *After 3 x 1/2 minutes, you will not have anaemic brain and heart will not fail, reducing the possibility of a fall and sudden death.*
*Share with family, friends & loved ones.* *It can occur regardless of age; young or old.*

Ajeeb Khatt

مجھے خط ملا ہے غنیم کا
بڑی عُجلتوں میں، لکھا ہُوا

کہیں،، رنجشوں کی کہانیاں
کہیں دھمکیوں کا ہے سلسلہ

مجھے کہہ دیا ہے امیر نے
کرو،،،، حُسنِ یار کا تذکرہ

تمہیں کیا پڑی ہے کہ رات دن
کہو،،،،،، حاکموں کو بُرا بھلا

تمہیں،،، فکرِ عمرِ عزیز ہے
تو نہ حاکموں کو خفا کرو

جو امیرِ شہر کہے تُمہیں
وہی شاعری میں کہا کرو

کوئی واردات کہ دن کی ہو
کوئی سانحہ کسی رات ہو

نہ امیرِ شہر کا زکر ہو
نہ غنیمِ وقت کی بات ہو

کہیں تار تار ہوں،، عصمتیں
میرے دوستوں کو نہ دوش دو

جو کہیں ہو ڈاکہ زنی اگر
تو نہ کوتوال کا،،،،، نام لو

کسی تاک میں ہیں لگے ہُوئے
میرے جاں نثار،،،،، گلی گلی

ہیں میرے اشارے کے مُنتظر
میرے عسکری میرے لشکری

جو تُمہارے جیسے جوان تھے
کبھی،،، میرے آگے رُکے نہیں

انہیں اس جہاں سے اُٹھا دِیا
وہ جو میرے آگے جُھکے نہیں

جنہیں،، مال و جان عزیز تھے
وہ تو میرے ڈر سے پِگھل گئے

جو تمہاری طرح اُٹھے بھی تو
اُنہیں بم کے شعلے نگل گئے

میرے جاں نثاروں کو حُکم ہے
کہ،،،،،، گلی گلی یہ پیام دیں

جو امیرِ شہر کا حُکم ہے
بِنا اعتراض،، وہ مان لیں

“جو میرے مفاد کے حق میں ہیں
وہی،،،،،،، عدلیہ میں رہا کریں”

مجھے جو بھی دل سے قبول ہوں
سبھی فیصلے،،،،،،، وہ ہُوا کریں

جنہیں مجھ کچھ نہیں واسطہ
انہیں،،،، اپنے حال پہ چھوڑ دو

وہ جو سرکشی کے ہوں مرتکب
انہیں،،،،، گردنوں سے مروڑ دو

وہ جو بے ضمیر ہیں شہر میں
اُنہیں،،،، زر کا سکہ اُچھال دو

جنہیں،،،،، اپنے درش عزیز ہوں
اُنہیں کال کوٹھڑی میں ڈال دو

جو میرا خطیب کہے تمہیں
وہی اصل ہے، اسے مان لو

جو میرا امام،،،،،،، بیاں کرے
وہی دین ہے ، سبھی جان لو

جو غریب ہیں میرے شہر میں
انہیں بُھوک پیاس کی مار دو

کوئی اپنا حق جو طلب کرے
تو اسے،، زمین میں اتار دو

جو میرے حبیب و رفیق ہیں
انہیں، خُوب مال و منال دو

جو، میرے خلاف ہیں بولتے
انہیں، نوکری سےنکال دو

جو ہیں بے خطاء وہی در بدر
یہ عجیب طرزِ نصاب ہے

جو گُناہ کریں وہی معتبر
یہ عجیب روزِ حساب ہے

آنسو اور مسکراہٹ

“آنسو اور مسکراہٹ 
دو بڑے خزانے ہیں‎.‎‏ آنسو الله کےسامنےبہاؤ 
مسکراہٹ الله کی مخلوق میں بانٹ دو. یہ بندگی کاتقاضا اورانسانیت کی معراج ہے”