Beti ki Parwarish – Janat ki Zamin

بیٹی کی پرورش ، جنت کی ضامن
لڑکی کو زندہ درگورکر دینے کا مطلب صرف یہ نہیں کہ اسے عملی طور پر زمین میں دفن کر دیا جائے جیسا کہ زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا مذموم عمل تھا بلکہ لڑکی کی پیدائش پر رنج و غم کرنا اور حقیر و ذلیل سمجھ کر اس کی طرف کوئی توجہ نہ دینا اور اس کی پرورش و پرداخت اور تعلیم و تربیت سے چشم پوشی کرنا بھی اسے زندہ دفن کرنے کے مترادف ہے۔ اسلام نے اس کی سخت مذمت کی ہے اور اسے ناپسندیدہ عمل قرار دیا ہے اور لڑکی کی پرورش و پرداخت اور اچھی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرنے اور اسے اعلیٰ اخلاقی قدروں سے آراستہ کرنے اور بلند عادات و اطوار سے مزین کرنے کی نہ صرف ترغیب دی بلکہ اسےکارِثواب اور حصولِ جنت کا ذریعہ قرار دیا۔ حضرت ابو سعدی خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :”جس نے 3 لڑکیوں کی پرورش کی ، ان کی اچھی تربیت کی ، ان سے حسن سلوک کیا پھر ان کا نکاح کردیا تو اس کے لئے جنت واجب ہوگئی” (ابوداؤد)
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“جس شخص کے یہاں بچی پیدا ہوئی اور اس نے جاہلیت کے طریقے پر زندہ درگور نہیں کیا اور نہ اس کو حقیر و ذلیل سمجھا اور نہ لڑکوں کو اس کے مقابلے میں ترجیح دی تو اللہ تعالیٰ اسی شخص کو جنت میں داخل فرمائے گا”
(ابوداؤد)
ام المومنین حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ ” میرے پاس ایک عورت آئی۔ اس کے ساتھ دو بچیاں تھیں ، وہ مجھ سے کچھ مانگنے کے لئے آئی تھی۔ اس وقت میرے پاس ایک کھجور کے علاوہ کچھ نہیں تھا وہی میں نے اس کو دے دی۔ میں نے دیکھا کہ اس نے اس نے کھجور کو ان دونوں بچیوں میں تقسیم کردیا اور خود کچھ نہیں کھایا۔ اس خاتون کے چلے جانے کے بعد کچھ دیر بعد رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس عورت کا سارا حال سنایا کہ باوجود بھوکی رہنے کے اس نے بچیوں کو ترجیح دی” یہ سن کر محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
“جو شخص لڑکیوں کے بارے میں آزمایا جائے یعنی اس کے یہاں لڑکیاں پیدا ہوں اور پھر وہ ان سے اچھا سلوک کرے ، انہیں بوجھ نہ سمجھے تو یہ لڑکیاں اس کے لئے دوزخ کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی” (مشکوۃ شریف)
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
جس کسی نے دو لڑکیوں کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ بالغ ہوگئیں ” انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا “تو میں اور وہ اس طرح جنت میں داخل ہوں گے”
جس طرح ایک بچی کی پیدائش رحمتِ خدا وندی کی خوشخبری لے کر آتی ہے اور اس کی پرورش والدین کے لئے جہنم کی آگ سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے اسی طرح اس کی عمدہ تعلیم و تربیت بھی جنت کی عظیم نعمتوں کی بشارت سناتی ہے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی نقل کرتے ہیں کہ “جس شخص نے 3 لڑکیوں یا 3 بہنوں کی سرپرستی کی اور ان کے ساتھ شفقت و محبت کا معاملہ کیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ انہیں بے نیاز کردے تو ایسے شخص کے لئے اللہ تعالیٰ جنت واجب کر دیتا ہے”
اس پر کسی نے دریافت کیا کہ اگر 2 ہی ہوں تو آپ نے فرمایا:”2 لڑکیوں کی سرپرستی پر بھی یہی ثواب ملے گا “(بخاری)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
“جو لڑکیوں کے بارے میں آزمایا جائے اور ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے تو وہ لڑکیاں ان کے لئے جہنم کی آگ سے ڈھال بن جائیں گی” (مسلم)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ “جس شخص کے ہاں لڑکی پیدا ہو اور وہ خدا کی دی ہوئی نعمتوں کی اس پر بارش کرے اور تعلیم و تربیت اور حسنِ ادب سے بہرہ ور کرے تو میں خود ایسے شخص کے لئے جہنم کی آڑ بن جاؤں گا” (بخاری)
اسلام نے لڑکیوں کو اچھی طرح پرورش کی ترغیب دیکر لوگوں کے قلوب اور اذہان میں یہ تصور پختہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ مرد کے مقابلے میں عورت بے قیمت اور بے حیثیت نہیں ہوتی بلکہ وہ تو قدرت کا گراں مایہ عطیہ ہے۔ اس میں مردوں کے مقابلے میں انس و محبت ، ہمدردی و غمخواری بدرجہ اتم پائی جاتی ہے۔ اسی لئے محسن انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ” لڑکیوں سے نفرت مت کرو ، وہ تو بڑی غم خوار اور بڑی قیمتی ہیں ” (مسند احمد)

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *