میں کیا مانگتا ہوں

راتوں کو اٹھ کر
خیالوں سے ہو کر
یادوں میں کھو کر
تمہیں کیا خبر ہے
اپنے رب سے
میں کیا مانگتا ہوں،

ویرانوں میں جا کر
دکھڑے سنا کر
دامن پھیلا کر
آنسو بہا کر
تمہیں کیا خبر
اپنے رٓب سے
میں کیا مانگتا ہوں،

تم تو کہو گے
صنم مانگتا ہوں
غنم مانگتا ہوں
زر مانگتا ہوں
میں گھر مانگتا ہوں
ذمیں مانگتا ہوں
نگیں مانگتا ہوں،

تم تو کہو گے
ہم کو خبر ہے
کہ راتوں کو اٹھ کر
خیالوں سے ہو کر
یادوں میں کھو کر
آنکھیں بگھو کر
کسی دلربا کی
کسی دلنشیں کی
وفا مانگتا ہوں،

یہ بھی غلط ہے
وہ بھی غلط ہے
جو بھی ہے سوچا
سو بھی غلط ہے
نہ صنم مانگتا ہوں
نہ زر مانگتا ہوں
نہ دلربا کی
نہ دلنشیں کی
نہ ماہ جبیں کی
وفا مانگتا ہوں،

تمہیں کیا خبر
اپنے رب س
میں کیا مانگتا ہوں.

میں اپنے رب سے
آدم کے بیٹے کی
آنکھوں سے جاتی،
حیا مانگتا ہوں،
حوا کی بیٹی کے سر سے
اترتی ردا مانگتا ہوں،
اس کڑے وقت میں
ارض وطن کی
بقا مانگتا ہوں.

0 replies

Leave a Reply

Want to join the discussion?
Feel free to contribute!

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *