Allah kay baghi ki toba
وہ ایک مسلمان تھا لیکن اللہ کا باغی تھا, شب بھر جام پر جام چھلکانا پھر دن بھر اس کے نشے میں مست رہنا ہی شاید اسکی زندگی کا مقصد تھا, ایک طرف خدا کی نعمتیں بڑھتی جاتی تھی تو دوسری طرف شراب و کباب کی مستی انگ انگ میں اترتی جاتی تھی. اس کے پاس ایک بہت بڑی نعمت اسکی ایک کم سن بیٹی تھی. اس بچی میں گویا اس کی جان تھی. یہ شراب کے نشے میں مست ہوتا اس کی بیٹی گلاس اس سے چھین لیتی کبھی چھینتے جھپٹتے گلاس ٹوٹ بھی جاتا لیکن یہ اپنی بے لوث محبت کی وجہ سے برا نا مانتا,
رب کی کرنی رب ہی جانے یہ بچی کم سنی میں ہی وفات پاگئی اور اس شخص کی دنیا اندھیر ہوگئی, وہ جو ایک روکنے والی تھی وہ بھی چلی گئی اب تو یہ شتر بے مہار ہوگیا.
اسی عرصے میں ایک رات یہ دھت نشے میں بھرا سوگیا اس نے خواب دیکھا کہ روز حشر قائم ہوچکا ہے اور نفسی نفسی کا عالم ہے ایسے میں اسے ایک اژدھا نظر آیا جو تیزی سے اسکی طرف بڑھا چلا آرہا تھا اور قریب تھا کہ اسے نگل لے, یہ منظر دیکھ کر اس پر ایک دہشت طاری ہوگئی اور اس نے اندھا دھند دوڑنا شروع کردیا,
آگے ایک سفید ریش بزرگ اجلے سفید لباس میں نظر آئے, انہیں دیکھ کر اس گناہگار کی کچھ ڈھارس بندھی اور اس نے اپنی فریاد ان کے آگے پیش کی. وہ بزرگ بے بسی کی عملی تصویر بن گئے اور کہنے لگے “بیٹا میں بہت کمزور ہوں اور یہ بہت طاقتور, میری طاقت نہیں کہ اسے روک سکو, لیکن تو بھاگا چلا جا کہ شاید آگے کوئی تیری فریاد رسی کو موجود ہو” یہ سن کر یہ شخص اور تیز بھاگنے لگا اب وہ اژدھا اس کو مزید قریب محسوس ہونے لگا تھا لیکن اسے جائے فرار نظر نا آتی اور اسے یقین تھا کہ اب یہ اژدھا لپک کر مجھے اچک لے گا کہ اسی دوران دوبارہ اسے وہ بزرگ نظر آئے اور دوبارہ ان سے وہی مکالمہ ہوا اور انہوں نے آگے بھاگتے رہنے کا مشورہ دیا.
غرض کے گرتے پڑتے بھاگتے دوڑتے وہ ایک ٹیلے پر چڑھ گیا, اوپر چڑھتے ہی اسے نیچے وادی میں جھنم کے دہشتناک مناظر نظر آئے لیکن وہ شخص اس اژدھے سے اس قدر ہیبت زدہ تھا کہ قریب تھا وہ جھنم میں گر جائے لیکن اسے پرواہ نہ تھی, اچانک اسے کسی چیکھنے والے کی آواز آئی کہ یہ ان جھنمیوں میں سے نہیں ہے, وہ اس ٹیلے سے پیچھے ہٹا تو پھر سے وہی بڑے میاں نظر آئے اور اب جو مکالمہ ہوا تو وہ رونے لگے کہ تو نے مجھے اتنا ضعیف کردیا ہے کہ میں اس سانپ کو بھگا نہیں سکتا لیکن یہ سامنے دوسری پہاڑی ہے اس پر چڑھ جا شاید کے وہاں تیری کوئی امانت ہو اور آج تجھے کام دے دے. یہ شخص اس پہاڑی پر چڑھ گیا وہ ایک گول پہاڑی تھی جس میں چھوٹے چھوٹے سونے چاندی کے خوبصورت طاقچے بنے ہوئے تھے وہاں کسی نے آواز لگائی کہ دیکھو اس شخص کی یہاں کوئی امانت تو موجود نہیں ہے ؟ یہ سنتے ہی وہ کھڑکیاں کھلنا شروع ہوئی اور چاند جیسے بچے نکلنا شروع ہوئے. اتنے میں کسی نے آواز لگائی ارے جلدی کرو وہ سانپ تو بالکل قریب پہنچ گیا ہے. یہ سنتے ہی جوق در جوق بچے ان کھڑکیوں سے نکلنا شروع ہوئے. انہی میں اس کی دو سالہ بیٹی بھی جس نے لپک کر اپنے والد کو تھام لیا اور ہاتھ بڑھا کر اس بڑے سانپ کو بھگا دیا.
پھر اسکی یہ بیٹی اس کی گود میں بیٹھ کر اپنے اباجان کی داڑھی سہلانے لگی اور یوں گویا ہوئی
“الم يان الذين امنوا ان تخشع قلوبهم لذكر الله”
کیا ابھی وقت نہیں آیا کہ ایمان والو کے دل اللہ کی یاد سے ڈر جائے.
یہ سن کر یہ شخص رونے لگا پھر اس اژدھے اور بزرگ کے متعلق استفسار کیا کہ یہ کون تھے. بیٹی نے بتایا کہ وہ سانپ آپ کے برے اعمال تھے جو قریب تھا کہ آپ کو جھنم میں گرا دیتے اور وہ بزرگ آپ کے اچھے اعمال تھے جو اتنے کمزور ہوگئے تھے کہ اس سانپ سے آپ کو بچا نہیں پا رہے تھے.
اس شخص نے خواب سے بیدار ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کی اور اپنے وقت کے اولیاء اللہ میں ان کا شمار ہوا.
آپ جانتے ہیں یہ کون تھے ؟
یہ حضرت مالک بن دینار رحمہ اللہ تھے. جنکی بیٹی حقیقتا ان کے لئے باعث فخر تھی.
Leave a Reply
Want to join the discussion?Feel free to contribute!