Jab Azan Per Pabandi Laganay ki Koshish ki gai
جب اذان پر پابندی لگانے کی کوشش کی گئی
سکھوں کا دور حکومت تھا، ہندوؤں اور سکھوں نے اپنی سرکار کے پاس ایک عرضی بھیجی کہ مسلمانوں کی اذان سے ہم بڑے تنگ ہیں، خاص کرکے صبح دوپہر اور رات کے وقت وہ ہمارے آرام میں خلل پیدا کرتے ہیں۔
سکھ وزیر نے غیر جانبدار انکوائری کا فیصلہ کیا اور ایک دن وہ مندر جا پہنچا، وہاں جاکر اپنا تعارف کرایا اور پنڈت سے مندر کی گھنٹیاں بجانے کی فرمائش کی، پنڈت نے گھنٹیاں بجا دیں، دکھ وزیر نے بیس پچیس منٹ کے وقفے کے بعد دوبارہ گھنٹیاں بجانے کا کہا اور اسطرح تھوڑے تھوڑے ٹائم کے وقفے کے بعد اس نے گھنٹیاں بجوائیں اور پنڈت بجاتا رہا۔
اگلے دن سکھ نے گوردوارے کا دورہ کیا، اور وہاں بھی بار بار عبادت کیلئے استعمال ہونے والے مخصوص طریقہ کو چلوایا، سکھوں نے بھی وزیر کی خواہش کو تھوڑے تھوڑے وقفے سے پورا کیا۔
تیسرے دن ظہر کے وقت سے دو گھنٹے پہلے سکھ وزیر ایک مسجد میں جا پہنچا اور وہاں اذان کی فرمائش کی لیکن مؤذن نے بہت کے انتظار کا کہا، ظہر کے بعد سکھ وزیر نے دوبارہ فرمائش کی لیکن اسے عصر تک انتظار کرنے کا کہا گیا، کیونکہ اسلام میں اذان ایک دن میں پانچ مرتبہ صرف مقررہ وقت پر دی جاسکتی ہے۔
اگلے دن سکھ وزیر نے درخواست دینے والے ہندوؤں اور سکھوں کو جمع کیا اور یہ کہہ کر انہیں واپس بھیج دیا کہ، “لوگوں کے آرام میں تو بے وقت گھنٹیاں وغیرہ بجا کر تم لوگ خلل دیتے ہو جبکہ مسلمان تو اپنے مقررہ وقت پر ایک پرکیف آواز میں منادی کرتے ہیں، اسلئے اذان کو بند نہیں کیا جائے گا۔
Leave a Reply
Want to join the discussion?Feel free to contribute!