Ziarat e kaboor ki sharai hasiat
مزارات اولیاء اور زیارت قبور کی شرعی حیثیت کیا هے ؟ کس نیت اور قصد سے جانا جائزهے اور کس نیت سے جائز نہیں ہے ؟ نیز کیا عورتیں بهی زیارت کیلئے جاسکتی هے کس شرائط کے ساتھ جاسکتی هے ؟
👇👇👇👇👇👇👇👇👇👇 الجواب حامداومصلیا
مزارات پر حاضری فی نفسہ ممنوع نہیں ہے، لیکن اگر اس نیت سے جائیگا کی وهاں پہونچنے سے مرادے پوری هوجائیگی یا یہ خیال کرنا کہ اولیاء اللہ کے توسل سے مانگنا اسی وقت صحیح هو سکتا هے جبکہ انکی قبروں کےپاس جاکرالله سے مانگا جائے تو اس نیت سے مزارات کیلئے سفر کرنا یہ سفر جهالت هے شامی میں زعفرانی کے قول کا یہی مقصد هے
ومن قال طی مسافه یجوز للولی جهول وهذا قول الزعفرانی شامی زکریا 409/6
اور اگر اس نیت سے سفر کیا کی صاحب قبر سے مراد مانگیں گے وه مرادیں پوری کرسکتاهے تو یہ سفر باعث کفر هوگا ابن مقاتل اور محمد بن یوسف کا یہی قول هے
والقائل بکفرہ هو ابن مقاتل ومحمد بن یوسف شامی 409/6
البتہ اسلئے سفر کرنا کہ ، اس سے موت وآخرت کی یاد پیدا کریں گے اور عبرت حاصل کریں گے تو اس نیت سے سفر کرنا جائز اور درست هے حدیث میں اسکا جواز ثابت ہے: عن بریدہ قال قال رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کنتُ نہیتُکم عن زیارة القبور فزوروہا“ ترمذی شریف 203/1 البتہ مزاروں پر پھول چڑھاوا چڑھانا او ردیگر خرافات ومنکرات کرنا ناجائز اور گناہ ہے، اور وهاں خرافات اور بدعات هورهی هو پہر جانا منع هے اس سے احتراز کریں
کفایت المفتی 180/1 کتاب النوازل 270/6
عام حالات میں عورتوں کے لئے قبرستان جانا شرعاً ممنوع ہے کیونکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر لعنت فرمائی ہے
لعن اللہ زائرات القبور والمتخذین علیہا المساجد والسراج ترمذی شریف 203/1 ابوداؤد شریف 461/2 ،
البتہ اگر کوئی عورت مندرجہ ذیل شرائط کا لحاظ رکھتے ہوئے قبرستان جائے تو اس کی گنجائش ہے۔ ۱۔جانے والی عورت جوان نہ ہو بڑھیا یا عمر رسیدہ ہو ۔ ۲۔پردے کا مکمل اہتمام کر کے جائے۔ ۳۔فتنہ کا اندیشہ نہ ہو۔ ۴۔قبرستان جاکر جزع فزع نہ کرے۔ ۵۔قبرستان جا کر خلافِ شرع کام مثلاً قبروں پر پھول چڑھانا ،چادر چڑھانا ،صاحبِ قبر سے مانگنا اور بدعات کا ارتکاب نہ کرے۔ ۶۔قبرستان جانے کی عادت نہ بنائے۔ ان شرائط کی پابندی کے ساتھ اگر کوئی عورت جائے تو اس کی گنجائش ہے ،تاہم فسادِ زمانہ کی وجہ سے نہ جانا بہتر ہے۔
فتاویٰ دارالعلوم 431/5 وبزیاره القبور ولو للنساء لحدیث کنت نهیتکم عن الخ.. وفی الشامی قوله بزیاره القبور ای لاباس بها بل تندب الخ وقوله ولو للنساء وقیل تحرم علیهن والاصح ان الرخصه ثابته لهن بحر الخ وجزم فی شرح المنیه بالکراه الخ وقال لخیر الرملی ان کان ذالک لتجدید الحزن والبکاء والندب علی ماجرت به عادتهن فلاتجوز شامی
150/3 بهر حال مذکورہ عبارت سے معلوم هوا کی نہ جانا بهتر هے کیونکہ اکثر انکی عادت میں خرافات هوتی هے اور صبر کاماده کم هوتا هے اور اگر شرائط مذکوره کے ساتھ جائے تو رخصت هے جیسا کہ مندرجہ ذیل عبارت سے معلوم هوتا هے اور شامی سے بهی یہی معلوم هوتاهے
مشكاة المصابيح (1 / 554): وعن أبي هريرة: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم لعن زوارات القبور. رواه أحمد والترمذي وابن ماجه وقال الترمذي هذا حديث حسن صحيح وقال: قد رأى بعض أهل العلم أن هذا كان قبل أن يرخص النبي في زيارة القبور فلما رخص دخل في رخصته الرجال والنساء. وقال بعضهم: إنما كره زيارة القبور للنساء لقلة صبرهن وكثرة جزعهن. تم كلامه مرقاة المفاتيح شرح مشكاة المصابيح (2 / 619): (وعن ابن عباس قال: «لعن رسول الله زائرات القبور» ) : في شرح السنة قيل: هذا كان قبل الترخص، فلما رخص دخل في الرخصة الرجال والنساء، وقيل: بل نهي النساء عن زيارة القبور باق لقلة صبرهن، وكثرة جزعهن إذا رأين القبور اهـ، ومراده بالترخص قوله – عليه السلام -: ( «كنت نهيتكم عن زيارة القبور فزوروها لأنها تذكر الآخرة» ) ، ويمكن حمل النهي على عجائز متطيبات، ومتزينات، أو على شواب ولو في ثياب بذلتهن لوجود الفتنة في خروجهن على قياس كراهة خروجهن إلى المساجد، قال ابن الملك: وفي بعض النسخ: زوارات القبور جمع زوارة وهي للمبالغة تدل على أن من زار منهن على العادة فهي داخلة في الملعونات. واللہ اعلم
Leave a Reply
Want to join the discussion?Feel free to contribute!