اسلام علیکم کہنے میں پہل

ابوداؤد ( 4911 ) جلدنمبر 4 حضرت ایوب انصاری رضی اللّٰه عنہ سےروایت ھے کہ اللّٰه کے نبی ﷺ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کے لئے جائز نہں ک وہ اپنے مسلمان بھائی سے وہ 3 دن سے ذیادہ میل جول ختم کرے ان میں سب سے بہتر وہ ھے جو اسلام علیکم کہنے میں پہل کرے

ﻋﻤﻠﯽ ﺷﮑﺮ

ﺍﯾﮏ ﺩﻥ ﺑﮯﺑﮯ ﻧﮯ ﺑﯿﺴﻦ ﮐﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﭘﮑﺎ ﮐﮯ ﺩﯼ۔ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﻭ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﮐﮭﺎﺋﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﺳﺎﺗﮫ ﻟﺴّﯽ ﭘﯽ۔ ﭘﮭﺮ ﺑﮯﺑﮯ ﮐﻮ ﺧﻮﺵ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﮯ ﻟﺌﮯ ﺯﻭﺭﺩﺍﺭ ﺁﻭﺍﺯ ﻣﯿﮟ ﺍﻟﻠﮧ ﮐﺎ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺎ۔ﺑﮯﺑﮯ ﻧﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻃﺮﻑ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺍﻭﺭ ﭘﻮﭼﮭﺎ
“ﺍﮮ ﮐﯽ ﮐﯿﺘﺎ ﮬﯽ؟”
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ”
ﺑﮯﺑﮯ ﺷﮑﺮ ﺍﺩﺍ ﮐﯿﺘﺎ ﺍﻟﻠﮧ ﺩﺍ”
ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﯽ”:
ﭘُﺘﺮﺍ! ﯾﮧ ﮐﯿﺴﺎ ﺷﮑﺮ ﮬﮯ؟
ﺩﻭ ﺭﻭﭨﯿﺎﮞ ﺗﺠﮭﮯ ﺩﯼ، ﺗُﻮ ﮐﮭﺎ ﮔﯿﺎ۔ ﻧﮧ ﺗُﻮ ﺑﺎﮬﺮ ﺟﮭﺎﻧﮑﺎ، ﻧﮧ ﭘﺎﺱ ﭘﮍﻭﺱ ﮐﯽ ﺧﺒﺮ ﻟﯽ ﮐﮧ ﮐﮩﯿﮟ ﮐﻮﺋﯽ ﺑﮭﻮﮐﺎ ﺗﻮ ﻧﮩﯿﮟ، ﺍﯾﺴﮯ ﮐﯿﺴﮯ ﺷﮑﺮ؟ ﭘُﺘﺮﺍ! ﺭﻭﭨﯽ ﮐﮭﺎ ﮐﮯ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﻭﺍﻻ ﺷﮑﺮ ﺗﻮ ﺳﺐ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ، ﺍﭘﻨﯽ ﺭﻭﭨﯽ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﭧ ﮐﺮ ﺷﮑﺮ ﻧﺼﯿﺐ ﻭﺍﻟﮯ ﮐﺮﺗﮯ ﮬﯿﮟ۔
ﺍﻟﻠﮧ ﮐﻮ ﻟﻔﻈﻮﮞ ﺳﮯ ﺧﻮﺵ ﮐﺮﻧﺎ ﭼﮭﻮﮌ ﺩﮮ! ﻋﻤﻞ ﭘﮑﮍ ﭘُﺘﺮ۔ ﺍﻟﻠﮧ ﺟﺲ ﭼﯿﺰ ﺳﮯ ﻧﻮﺍﺯ ﺩﮮ، ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺧﻮﺷﯽ ﺳﮯ ﺍﺳﺘﻌﻤﺎﻝ ﮐﺮ! ﺍﻭﺭ ﮐﺴﯽ ﮐﮯ ﺳﺎﺗﮫ ﺑﺎﻧﭧ ﻟﯿﺎ ﮐﺮ ﮐﮧ ﯾﮧ ﻋﻤﻠﯽ ﺷﮑﺮ ﮬﮯ۔

ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ

ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ…….
ﺍﺑﻦ ﻗﯿﻢ ﺭﺣﻤﻪ ﺍﻟﻠﻪ ﻧﮯ ﺍﯾﮏ ﻋﺠﯿﺐ ﺑﺎﺕ ﻟﮑﻬﯽ ﮨﮯ…
ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﮔﻠﯽ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺩﯾﮑﻬﺎ ﺍﯾﮏ ﺩﺭﻭﺍﺯﮦ ﮐﻬﻼ
ﻣﺎﮞ ﺍﭘﻨﮯ ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﻣﺎﺭ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺗﻬﭙﮍ ﻟﮕﺎ ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﮧ
ﺭﮨﯽ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺗﻮ ﻧﮯ ﻣﺠﻬﮯ ﺑﮍﺍ ﺫﻟﯿﻞ ﮐﯿﺎ.ﺑﮍﺍ ﭘﺮﯾﺸﺎﻥ
ﮐﯿﺎ.ﻧﺎﻓﺮﻣﺎﻥ ﮨﮯ.ﮐﻮﺋﯽ ﺑﺎﺕ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﺎﻧﺘﺎ.ﻧﮑﻞ ﺟﺎ ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻬﺮ
ﺳﮯ.ﻭﮦ ﺑﭽﮧ ﺭﻭ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ.ﺩﻫﮑﮯ ﮐﻬﺎ ﺭﮨﺎ ﺗﻬﺎ.ﺟﺐ ﮔﻬﺮ ﺳﮯ ﺑﺎﮨﺮ
ﻧﮑﻼ.ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮐﻨﮉﯼ ﻟﮕﺎ ﺩﯼ.
ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ ﻣﯿﮟ ﮐﻬﮍﺍ ﮨﻮﮔﯿﺎ ﮐﮧ ﺫﺭﺍ ﻣﻨﻈﺮ ﺗﻮ ﺩﯾﮑﻬﻮﮞ.ﺑﭽﮧ
ﺭﻭﺗﮯ ﺭﻭﺗﮯ ﺍﯾﮏ ﻃﺮﻑ ﮐﻮ ﭼﻞ ﭘﮍﺍ ﺫﺭﺍ ﺁﮔﮯ ﮔﯿﺎ ﺭﮎ ﮐﺮ ﭘﻬﺮ
ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮔﯿﺎ.
ﻣﯿﮟ ﻧﮯﭘﻮﭼﻬﺎ ﺑﭽﮯ ﺗﻢ ﻭﺍﭘﺲ ﮐﯿﻮﮞ ﺁﮔﺌﮯ. ﮐﮩﻨﮯ ﻟﮕﺎ.ﺳﻮﭼﺎ
ﮐﮩﯿﮟ ﺍﻭﺭ ﭼﻼ ﺟﺎﻭﮞ.ﭘﻬﺮ ﺧﯿﺎﻝ ﺁﯾﺎ ﮐﮧ ﻣﺠﻬﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﮐﯽ ﮨﺮ
ﭼﯿﺰ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﯽ ﮨﮯ.ﻣﺠﻬﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﻣﺤﺒﺖ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ
ﺳﮑﺘﯽ.ﻣﯿﮟ ﺍﺳﯽ ﻟﯿﮯ ﻭﺍﭘﺲ ﺁﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ.ﻣﺤﺒﺖ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ ﺍﺳﯽ
ﺩﺭ ﺳﮯ ﻣﻠﮯ ﮔﯽ.
ﮐﮩﺘﮯ ﮨﯿﮟ ﺑﭽﮧ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﮐﮯ ﻭﮨﯿﮟ ﺑﯿﭩﮫ ﮔﯿﺎ.ﻣﯿﮟ ﺑﻬﯽ ﻭﮨﯿﮟ
ﺑﯿﭩﻬﺎ. ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﻧﯿﻨﺪ ﺁﺋﯽ.ﺍﺱ ﻧﮯ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﺮ ﺳﺮ ﺭﮐﻬﺎ ﺳﻮ
ﮔﯿﺎ.ﮐﺎﻓﯽ ﺩﯾﺮ ﮔﺰﺭﯼ ﻣﺎﮞ ﻧﮯ ﮐﺴﯽ ﻭﺟﮧ ﺳﮯ ﺩﺭﻭﺯﮦ
ﮐﻬﻮﻻ.ﺿﺮﻭﺭﺕ ﮐﮯ ﻟﯿﮯ ﺑﺎﮨﺮ ﺟﺎﻧﺎ ﭼﺎﮨﺘﯽ ﺗﻬﯽ.ﺑﯿﭩﮯ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ
ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﺮ ﺳﺮ ﺭﮐﻬﮯ ﺳﻮ ﺭﮨﺎ ﮨﮯ.ﺍﭨﻬﺎﯾﺎ…….ﮐﯿﻮﮞ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﭘﺮ ﺳﺮ
ﺭﮐﻬﮯ ﺳﻮ ﺭﮨﮯ ﮨﻮ؟؟
ﺍﻣﯽ ﻣﺠﻬﮯ ﺩﻧﯿﺎ ﻣﯿﮟ ﺩﻭﺳﺮﯼ ﻣﺎﮞ ﻧﮩﯿﮟ ﻣﻞ ﺳﮑﺘﯽ. ﻣﯿﮟ
ﺍﺱ ﺩﮨﻠﯿﺰ ﮐﻮ ﭼﻬﻮﮌ ﮐﺮ ﮐﯿﺴﮯ ﺟﺎﻭﮞ..
ﻓﺮﻣﺎﯾﺎ ﺑﭽﮯ ﮐﯽ ﺑﺎﺕ ﺳﮯ ﻣﺎﮞ ﮐﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺁﻧﺴﻮ
ﺁﮔﺌﮯ. ﺑﭽﮯ ﮐﻮ ﺳﯿﻨﮯ ﺳﮯ ﻟﮕﺎ ﻟﯿﺎ……ﻣﯿﺮﮮ ﺑﯿﭩﮯ ﺟﺐ ﺗﯿﺮﺍ
ﯾﻘﯿﻦ ﮨﮯ ﮐﮧ ﺍﺱ ﮔﻬﺮ ﮐﮯ ﺳﻮﺍ ﺗﯿﺮﺍ ﮔﻬﺮ ﮐﻮﺋﯽ ﻧﮩﯿﮟ
ﻣﯿﺮﮮ ﺩﺭ ﮐﻬﻠﮯ ﮨﯿﮟ ﺁﺟﺎ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺗﯿﺮﯼ ﻏﻠﻄﯿﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ
ﮐﺮﺩﯾﺎ.
ﻓﺮﻣﺎﺗﮯ ﮨﯿﮟ……..
ﺟﺐ ﮔﻨﺎﮨﮕﺎﺭ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﭘﻨﮯ ﺭﺏ ﮐﮯ ﺩﺭﻭﺍﺯﮮ ﭘﺮ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺁﺗﺎ ﮨﮯ
ﺭﺏ ﮐﺮﯾﻢ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﻄﺎﻭﮞ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﮮ.
ﻣﯿﺮﮮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﻣﻌﺎﻑ ﮐﺮﺩﮮ.
ﺍﮮ ﺑﮯ ﮐﺴﻮﮞ ﮐﮯ ﺩﺳﺘﮕﯿﺮ.
ﺍﮮ ﭨﻮﭨﮯ ﺩﻟﻮﮞ ﮐﻮﺗﺴﻠﯽ ﺩﯾﻨﮯ ﻭﺍﻟﮯ.
ﺍﮮ ﭘﺮﯾﺸﺎﻧﯿﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺳﮑﻮﻥ ﺑﺨﺸﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺫﺍﺕ.
ﺍﮮ ﺑﮯ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﺎ ﺳﮩﺎﺭﺍ ﺑﻨﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ ﺫﺍﺕ.
ﺍﮮ ﮔﻨﺎﮨﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭘﻨﯽ ﺭﺣﻤﺖ ﮐﮯ ﭘﺮﺩﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﭼﻬﭙﺎ ﻟﯿﻨﮯ ﻭﺍﻟﯽ
ﺫﺍﺕ.
ﺗﻮ ﻣﺠﻪ ﭘﺮ ﺭﺣﻢ ﻓﺮﻣﺎ ﺩﮮ.
ﻣﺠﻬﮯ ﺩﺭ ﺩﺭ ﺩﻫﮑﮯ ﮐﻬﺎﻧﮯ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ﻟﮯ.
ﺍﻟﻠﮧ ﺍﭘﻨﯽ ﻧﺎﺭﺍﺿﮕﯽ ﺳﮯ ﺑﭽﺎ ﻟﮯ.
ﭘﺮﻭﺭﺩﮔﺎﺭ ﺁﺋﻨﺪﮦ ﻧﯿﮑﻮﮐﺎﺭﯼ ﮐﯽ ﺯﻧﺪﮔﯽ ﻋﻄﺎﻓﺮﻣﺎ.
ﺟﺐ ﺑﻨﺪﮦ ﺍﺱ ﻃﺮﺡ ﺍﭘﻨﮯ ﺁﭖ ﮐﻮ ﭘﯿﺶ ﮐﺮ ﺩﯾﺘﺎ ﮨﮯ. ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﯽ
ﺍﺱ ﺑﻨﺪﮮ ﮐﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﻮ ﻗﺒﻮﻝ ﮐﺮ ﻟﯿﺘﮯ ﮨﯿﮟ.
ﺍﻟﻠﮧ ﺗﻌﺎﻟﻲ ﮨﻤﯿﮟ ﺳﭽﯽ ﺗﻮﺑﮧ ﮐﺮﻧﮯ ﮐﯽ ﺗﻮﻓﯿﻖ ﻋﻄﺎ ﻓﺮﻣﺎﺋﮯ
ﺁﻣﯿﻦ ﯾﺎﺭﺏ ﺍﻟﻌﺎﻟﻤﯿﻦ

Maaf karnay ka maza

وہ گورنمٹ کے محکمے کا آفیسر تھا اسکی بدلی لاہور سے کراچی ہوی ۔ بزریعہ ریل گاڑی اسکو کراچی جانا تھا … چانچہ وہ سٹیشن پہنچا اور ٹکٹ خرید لی۔ گاڑی جس لائین پہ کھڑی تھی اسکو وہاں پہنچنا تھا اس نے سامان اٹھانے کے لیے قلی کو بلایا اور کہا بھئ میرا سامان گاڑی کو پہنچا دو، قلی نے سامان اٹھایا اور صاحب کے پیچھے پیچھے ہولیا ۔ چونکہ وقت بے حد کم تھا اسلیئے صاحب تیزی سے پیلٹ فارم کی طرف چل رہا تھا ۔ پیچھے سے قلی بھی سامان اٹھا کر بھاگا وہ آدمی تیز تیز چل کر پیلٹ فارم پر بوگی کے دروازے پہ جلدی پہنچ گیا ۔ لیکن بھیڑ چونکہ زیادہ تھی اسلیئے قلی سامان سمیت بھیڑ ہی میں پھنس گیا صاحب بار بار راستے کو دیکھ رہے تھے لیکن قلی کا نام و نشان بھی نہ تھا اتنے میں گارڈ وسل دی اور ٹرین چلنی شروع ہوئی ۔ صاحب اس پہ چڑھ بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ پیچھے اسکا سامان رہ جانا تھا ۔ بلآخر اسکو ٹرین چھوڑنی ہی پڑی ۔
گاڑی سے رہ جانے کی وجہ سے صاحب کو بھت افسوس ہوا کہ میرا پروگرام سارا مس ہوگیا ۔ گاڑی دور جاتی رہی اور مسافر ہاتھ ہلا ہلا کر اپنے عزیزوں کو رحصت کرنے لگے جب پیلٹ فارم میں لوگوں کا رش کم ہوا تو سامنے سے قلی پسینے سے شرابور سامنے اٹھاے ہوے صاحب کی طرف بڑھتا ہوا دکھائی دیا ۔ قلی قریب آیا تو اسکے چہرے پہ افسوس اور شرمندگی کی واضح آثار موجود تھے 
” صاحب …!!! 
مجھے معاف کردے میں نے وقت پہ پہنچنے کی بھت کوشیش کی لیکن بھیڑ زیادہ ہونے کی وجہ سے میں وقت پہ پہنچ نہیں پایا “
صاحب غصہ تو بہت تھے لیکن سوچا گاڑی تو ویسے بھی مس ہوگی ہے اب اگر میں اس قلی کا قتل بھی کردوں تو بھی گاڑی نے آنا تو ہے نہیں لہذا غصہ ہونے کا کوئی فایدہ نہیں۔
” کوی بات نہیں … اللہ کو ایسے منظور تھا تو ایسا ہی ہونا تھا اسکی مرضی کو کون ٹال سکتا ہے چلو میں کل آج نہ سہی کل چلا جاونگا “
صاحب نے پیار سے مسکرا کر جواب دیا… جیسے ہی قلی نے یہ سنا تو اسکے چہرے پہ بشاشت آئی اور سامان اٹھا کر کہا 
” لائیں میں آپکا سامان اٹھا لیتا ہوں یہاں قریب ہی ریسٹ ہاوس ہے وہاں لیے چلتا ہوں ۔”
قلی نے ریسٹ ہاوس میں صاحب کا سامان رکھا اور باہر نکل آیا ۔ قلی کو چونکہ علم تھا کہ صاحب نے کل پھر اسی سٹیشن سے جانا ہے لہذا وہ تمام رات سٹیشن پہ ہی رہا ۔
اگلے دن صاحب مقررہ وقت سے پہلے ہی سٹیشن پہنچا ۔ سامنے ہی وہی قلی کھڑا تھا اس نے بھاگ گرمجوشی سے ہاتھ ملایا جیسے کہ دونوں بہت قریبی عزیز ہوں اور سامان اٹھاکر کہا ” صاحب آپکی ایڈوانس بکنگ میں کرچکا ہوں چلیں آئیں “
قلی نے سامان سر پہ رکھا اور دونوں پیلٹ فارم کی طرف جانے لگے گاڑی کے پاس پہنچ کر صاحب نے بٹوے سے پیسے نکال کر قلی کو ادا کرنے چاہے تو قلی نے لینے سے انکار کردیا “
نہیں صاحب میں پیسے نہیں لوں گا کیونکہ میری ہی غلطی کی وجہ سے آپکی ٹرین مس ہوئی ہے “
صاحب نے بڑی کوشیش کی کہ وہ ٹرین کا کرایہ کم سے کم ادا کردے لیکن قلی کسی صورت نہ مانا قلی نے صاف کہہ دیا کہ آپ مجھے پیسے نہ دے گے تو میں زیادہ خوش رہوں گا….
قلی نے اسکو گاڑی میں بٹھا دیا پاس بیٹها گپ شپ لگائی پهر باہر آکر کھڑکی کھولی اور صاحب سے کھڑا وہی باتیں کرنے لگا ۔ قلی اسکو احسان مندانہ نظروں سے بار بار دیکھ رہا تھا اتنے میں گاڑی سٹارٹ ہوئی تو وہ گاڑی کے ساتھ ساتھ چل کر صاحب سے باتیں کرنے لگا ٹرین کی رفتار تیز ہوئی تو وہ اپنی جگہ کھڑا ہوکر الوداعی انداز میں ہاتھ لہرا لہرا کر صاحب کو رحصت کررہا تھا ۔ صاحب نے کھڑکی سے ہاتھ ہلا کر اسکو الوداع کا جواب دیا اسکو محسوس ہوا کہ اس محبت مان اور چاہت سے تو کسی اپنے نے بھی اسکو رحصت نہیں کیا تھا۔ ٹرین چلی گی تو قلی نے سوچا کہ صبح کا ناشتہ نہیں کیا ہے ناشتہ ہی کردوں میں ۔ جیب میں ہاتھ ڈال تو جیب میں کئ نوٹ نکل آے گنے پہ پتہ چلا کہ یہ تو پورے 3 ہزار روپے تھے اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور رو کر صاحب کو دعا دی اور اللہ کا شکر ادا کیا ۔ صاحب نے اسکو محسوس کیئے بنا ہی 3 ہزار روپے اسکے جیب میں ڈال دیئے تھے۔ 
بیس سال بعد صاحب نے اپنی ڈائری نکالی اور اس میں لکھا ” اس قلی کی وجہ سے لیٹ ہونے کا جو غم تھا وہ تو رات کو ہی ختم ہو گیا تھا لیکن اس کی محبت بھری الوداعی نطر آج بیس سال گزر جانے بعد بھی میرے دل میں ٹھنڈک پیدا کردیتی ہے مجھے ٹرین لیٹ ہونے کا غم و افسوس نہیں افسوس اس بات کا ہے کہ ایک محبت بھرا انسان میں سٹیشن پہ چھوڑ آیا “
یہ بندہ گالیاں دے کر بھی اپنے غصے کا اظہار کرسکتا تھا اور قلی سن کر چلا جاتا ۔ لیکن صاحب نے معاف کردیا ۔ معاف کرنے کا یہ نتیجہ نکلا کہ قلی نے احسان مانا۔ اس نے لیٹ ہونے کی وجہ سے سامان واپس اٹھا کر ریسٹ ہاوس بھی چھوڑا اور صبح اسکا ایڈوانس ٹکٹ بھی لیا اور واپس سامان اٹھا کر گاڑی میں رکھا دعائیں بھی دی اور محبت سے رحصت بھی کیا ، 
جی ہاں جب انسان دوسروں کی غلطیاں معاف کردیتا ہے تو انکی غلطیوں کی تکلیف تو یاد نھی ہوتی لیکن معاف کرنے کا مزہ زندگی بھر انسان کو محسوس ہوتا ہے…… 

Ghurbat aut Muhabbat Dolat aur Bay Murawati

محبت اور بے مروتی : حنیف سمانا

اکبر بھائی نے اپنی زندگی کے چالیس برس کورنگی کی ایک غریب بستی کی گندی گلیوں میں گزارے …. ایک ایسی زندگی جس میں گندگی اور محبت کا تناسب برابر برابر ہوتا ہے…. پھر اکبر بھائی کے پاس پیسہ آگیا …. وہ صاف ستھرے ہوگئے … ڈیفنس شفٹ ہوگئے…. محبتوں میں کمی آگئی …. جب کورنگی میں تھے تو والدہ کا انتقال ہوا تھا…. میت میں ہزاروں آدمی تھے…جنازے کے لئے کھیل کا میدان کم پڑگیا تھا.. آج ڈیفنس میں ہیں …. والد کی میت بنگلے کے لان کے ساتھ رکھی ہوئی ہے…. چار آدمی بھی جمع نہیں ہوئے کہ قبرستان لے جائیں….کہتے ہیں کہ یہاں کوئی کسی کو جانتا نہیں… سب اپنی اپنی دنیا میں مگن ہیں…
غربت، محبت اور گندگی ساتھ ساتھ کیوں ہوتی ہیں؟
اور دولت، صفائی اور بےمروتی کا آپس میں کیا جوڑ ہے؟
کوئی بتلائے گا.

Do not say good morning

ایک بہت ضروری درخواست…..
Good Morning ya Subah bakhir etc.,, nai kehna chahye. Hazrat Muhammad صلی اللہ علیہ وسلم ny aisy salam krny sy mana kiya ha k ye jahliat k salam hain.
گڈ مارننگ یا صبح بخیر نہیں کہنا چاہئے. نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ یہ جاہلیت کا سلام ہے. مسلمانوں کا سلام اسلام علیکم ہے.

اسلام اور سلام

از: مولانا عبداللطیف قاسمی، استاذ جامعہ غیث الہدیٰ بنگلور

دنیا کی تمام متمدن ومہذب قوموں میں ملاقات کے وقت پیار ومحبت، جذبہٴ اکرام وخیراندیشی کا اظہار کرنے اورمخاطب کو مانوس ومسرور کرنے کے لیے کوئی خاص کلمہ کہنے کا رواج ہے، ہمارے ملک میں ہمارے برادران وطن ملاقات کے وقت ”نمستے“ کہتے ہیں، اس نام نہاد ترقی یافتہ زمانہ میں Good Night/ Good Morning اور بعض روشن خیال حضرات ”صبح بخیر“ ”شب بخیر“ کے الفاظ استعمال کرتے ہیں، حضرت عمران بن حصین کا بیان ہے کہ قبل از اسلام عرب کی عادت تھی، کہ جب وہ آپس میں ملاقات کرتے تو ایک دوسرے کو ”حَیَّاکَ اللّٰہُ“ (اللہ تم کو زندہ رکھے) ”أنْعَمَ اللّٰہُ بِکَ عَیْنًا“ (اللہ تعالیٰ تمہاری آنکھ کو ٹھنڈا کرے) ”أَنْعِمْ صَبَاحًا“ (تمہاری صبح خوش گوار ہو) وغیرہ الفاظ استعمال کیا کرتے تھے، جب ہم لوگ جاہلیت کے اندھیرے سے نکل کر اسلام کی روشنی میں آگئے تو ہمیں اس کی ممانعت کردی گئی، یعنی اس کے بجائے ”السلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاتہ“ کی تعلیم دی گئی، جس کے معنی ہیں ”تم ہر تکلیف اور رنج ومصیبت سے سلامت رہو“ ابن العربی نے احکام القرآن میں فرمایا: لفظ ”سلام“ اللہ تعالیٰ کے اسماء حسنیٰ میں سے ہے اور ”السلام علیکم“ کے معنی ہیں ”اللہ رقیب علیکم“ اللہ تمہارا محافظ ہے (مستفاد ازمعارف القرآن ۲/۵۰۱)