شاید کہ اتر جائےکسی دل میں میری بات
*ذرا غور سے پڑھیں اور سوچیں*
ایک بچے نے اک استاد کو اپنےگھر ایک مضمون پڑھانے کے لئے مقرر کیا. استاد نے اسے اک ٹاپک سمجھایا اور کہا کہ آج شام میں گھر آکر اس کا ٹیسٹ لوں گا اس کی پریکٹس کر کے ٹیسٹ تیار کرلینا.
استاد جب شام کو بچے کے گھر گئے تو دیکھا کہ گلی میں قالین بچھا ھوا تھا جس پر گلاب کے پھولوں کی پتیاں اسے ڈھانپے ھوئے تھیں. گلی کے دونوں طرف کے تما گھروں کی دیواروں پر ہر رنگ کی بتیاں جل رھی تھیں. اورگلی کےاوپر رنگ برنگی جھنڈیوں کی چادر تنی ھوئی تھی آخرتک.
استاد جب گلی میں سے گزر کر بچے کے گھر کے دوازے پر پہنچے تو ان پر چھت سے پھولوں کی بارش برسائی گئی. اور فضا “مرحبا یااستاذ” کےفلک شگاف نعروں سے گونج اٹھی. گھر کے دروازے پر بچے نے استاد کا پرتپاک استقبال کیا اور استاد کے ہاتھوں کو جھک کر ادب سے چوما اور انھیں آنکھوں پر لگایا.
استادنے پوچھا کہ “بیٹا یہ سب کیا ھے.؟” تو بچے نے جواب دیا کہ،،،، *استاد محترم مجھے آپ سے والہانہ پیار، محبت، عقیدت اورعشق ھے. آپ آج میرے گھر تشریف لائے ھیں تو یہ سارا انتظام آپ کی آمد کی خوشی میں آپ کے استقبال کے لئے میں نے کیا ھے.تاکہ آپ مجھ سے راضی اور خوش ھوجائیں*
استاد نے فرمایا کہ “اچھا بیٹا یہ بتاؤ کہ تم نے وہ ٹیسٹ تیار کیا ھے جس مقصد کے لئے میں یہاں آیا ھوں.؟” تو بچے نے جوب دیا کہ “استاد محترم دراصل میں آپ کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف رہا تھا اس لئے میں وہ ٹیسٹ تیار نھیں کر سکا.” تو استاد نے فرمایا کہ، *بیٹا جس مقصد کے لئے میں یہاں آیا ھوں اور جس کام سے میں نے تم سے راضی اور خوش ہونا تھا وہ تو یہ ٹیسٹ تھا جو تم نے تیار ھی نھیں کیا. اور جس کام کے کرنے کے لئے میں نے ایک مرتبہ بھی آپ کو نھیں کہا تھا آپ نے اس کام میں اپنا قیمتی وقت اور پیسہ لگا کر مجھے خوش کرنے کا کیسے سوچ لیا.؟ جس کام کے کرنے کا میں نے کہا ھی نھیں تھا اس کام سے بھلا میں خوش کیسے ھو سکتا ھوں.؟ اور جس کام سے میں نے خوش ھونا تھا وہ آپ نے کیا ھی نھیں. آپ کےخلوص اور جذبے پر مجھے کوئی شک نھیں بیٹا لیکن اس جذبے کی تکمیل اس راستے سے کبھی نھیں ھو سکتی جو آپ کو پسند ھو بلکہ صرف اسی طریقے سے ھو سکتی ھے جو مجھے پسند ھے*
بس یہی حقیقت ہمارے اپنے نبی سے عشق و محبت کی میرے بھائیو! جس کا بخار ہمیں صرف ربیع الاول میں ھوتا ھے. اگر ہم اپنے نبی کو راضی و خوش کرنا چاھتے ھیں تو اس کے لئے ہمیں طریقہ بھی وھی اختیار کرنا ھوگا جو خود نبی علیہ السلام نے بتایا تھا اور صحابہ کرام علیھم الرضوان نے جس پر عمل کرکے دکھایا تھا.
بے شک ہمارے خلوص اور عشق کی سچائی میں کوئی شک نھیں لیکن محبوب راضی اسی طریقے سے ھوتا ھے جو محبوب کو پسند ھو نہ کہ عاشق کو پسند ھو. اور وہ ایک ھی طریقہ ھے کہ *حکم الله کا ھو اور طریقہ ِمحمد الرسول الله کا ھو. صلی الله عليه وسلم. اور زندگی اسی محبوب کی سنتوں کی اتباع میں گزر جائے*.
کوئی لڑائی نھیں کوئی جھگڑا نھیں کوئی بحث و مناظرہ نھیں بس صرف آسان الفاظ میں اپنے ھی بھائیوں کو سادہ سی دعوت فکر ھے. اس امید کے ساتھ کہ، ، ، ،
*شاید کہ اتر جائےکسی دل میں میری بات*
Leave a Reply
Want to join the discussion?Feel free to contribute!